نئی دہلی، (یو این آئی) ہندوستان کے سب سے زیادہ کامیاب اوپنر اور سابق کپتان سنیل گواسکر نے ہفتہ کو کہا کہ ہندستانی کرکٹ آج برتری کی چوٹی پر پہنچ چکی ہے جس سے دوسری ٹیمیں اس سے کھیلنے کے لئے بیتاب رہتی ہیں۔گواسکر نے یہاں 26 واں لال بہادر شاستری میموریل لیکچر دیتے ہوئے ہندستانی کرکٹ کے لمبے سفر پر روشنی ڈالی۔اس لیکچر کا موضوع ہی ہندوستانی کرکٹ کا بدلتا چہرہ تھا۔گواسکر نے لالہ امرناتھ کے وقت سے لے کر وراٹ کوہلی کے موجودہ وقت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی کرکٹ کا مستقبل بہت روشن ہے ۔لال بہادر شاستری نیشنل میموریل ٹرسٹ نے نیشنل میوزیم کے تعاون سے اس لیکچر کا انعقاد کیا تھا۔سابق کپتان نے کہاکہ وراٹ کوہلی اور روہت شرما کی زبردست بلے بازی اور ہندستانی تیز گیند بازی اس وقت بہترین ہے اور یہ ٹیم بیرون ملک میں بھی جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔انڈین پریمیئر لیگ نے ہندوستانی کرکٹ کو ایسا بدل ڈالا ہے کہ تمام کھلاڑی ہندستان کے ساتھ کھیلنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ہندوستانی ٹیم اس وقت دنیا میں سب سے بہتر ہے جس کے ساتھ کھیلنے اور اس کی میزبانی کے لئے ہر ٹیم تیار رہتی ہے ۔گواسکر نے لالہ امرناتھ، اجیت واڈیکر، کپل دیو، مہندر سنگھ دھونی اور وراٹ کوہلی جیسے کپتانوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کپتانوں نے ہندوستانی کرکٹ کو ایسا بدلا ہے کہ یہ ملک کا نمبر ایک کھیل بن گیا ہے ۔انہوں نے کہاکہ کپل نے 1983 میں ہندوستان کو پہلی بار ورلڈ کپ دلا کر اس میں یہ اعتماد بھرا کہ وہ جیت سکتا ہے جبکہ دھونی نے 2007 اور 2011 میں دو بار ورلڈ کپ جیت لیا۔دھونی جہاں کیپٹن کول تھے تو وراٹ میں ایک آگ ہے ۔روہت زبردست بلے باز ہیں جبکہ ہندوستانی تیز اٹیک اس وقت دنیا میں سب سے بہترین ہے ۔گواسکر نے لیکچر کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ آج میں جتنا نروس محسوس کر رہا ہوں اتنا میں اپنے ٹیسٹ کیریئر کی شروعات کی شام پر بھی نہیں تھا۔انہوں نے موجودہ وقت میں طلبا پر تشدد کا بھی ذکر کیا اور کہاکہ طلبا کو جہاں کلاس روم میں ہونا چاہئے لیکن وہ سڑکوں پر ہیں۔یہ ایک خراب وقت ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ ہم اس وقت سے باہر نکل آئیں گے ۔اس کے لئے ہم سب کو ایک ساتھ ہونا ضروری ہے ۔کھیل ہمیں یہی بات سکھاتے ہیں کہ جب ہم ایک ساتھ ہوں گے تبھی جیت پائیں گے ۔انہوں نے سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری کے وقت 1965 کے ہند پاک جنگ کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ان کی قیادت میں ہندستان اس وقت بحران سے باہر نکلا تھا اور انہوں نے ہی جے جوان جے کسان کا نعرہ دیا تھا جس نے ہندوستان کو بدل ڈالا تھا۔گواسکر نے کہاکہ ہندوستانی کرکٹ میں بھی اسی طرح بہت سے لیڈر ہوئے ہیں جنہوں نے ہندوستانی کرکٹ کا چہرہ بدلا ہے ۔کرنل سی کے نائیڈو اور لالہ امرناتھ جیسے کپتانوں نے ہندوستانی کرکٹ کو نئی بلندیوں پر پہنچایا۔لالہ تو ملک کے پہلے سنچری بنانے والے کھلاڑی تھے ۔ 60 اور 70 کی دہائی میں وجے مرچنٹ، وینو مانکڈ اور وجے ہزارے جیسے کھلاڑیوں نے ہندوستانی کرکٹ کو مقبول بنایا۔60 کی دہائی تو ہندوستانی کرکٹ کا سب سے زیادہ گلیمرس عشرہ تھا جب ٹائیگر پٹودی، فاروق انجینئر، سلیم درانی، ایم ایل جے سمھا، عباس علی بیگ جیسے ہینڈسم کھلاڑی تھے جنہیں دیکھنے کے لئے ناظرین کھنچے چلے آتے تھے ۔گواسکر نے گنڈپا وشوناتھ کو اپنے وقت کا بہترین بلے باز قرار دیتے ہوئے کہاکہ وشي میری نسل کے بہترین بلے باز تھے ۔وہ جب بھی سنچری بناتے تھے ہندستان کبھی ہارتا نہیں تھا۔دنیا میں آج تک کسی کرکٹر کے پاس یہ ریکارڈ نہیں ہے ۔ ہندوستان کے سب سے کامیاب بلے باز گواسکر نے خاص طور پر اجیت واڈیکر کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کپتانی میں ہندوستان نے ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ کے ٹور میں جیت حاصل کی تھی ۔ سابق کپتان کپل دیو کو ایک پرجوش کرکٹر بتاتے ہوئے گاوسکر نے کہا کہ ہندوستانی کرکٹ میں کپل کی آمد تازہ ہوا کی طرح تھی جس نے ہندوستانی کرکٹ کے انداز کو بدل دیا۔ انہوں نے کہا کہ آج جن فاسٹ باؤلرز کو آپ دیکھ رہے ہیں اس کا سہرا مکمل طور پر کپل کو جاتا ہے ۔ گاوسکر نے کپل کو 1983 کے ورلڈ کپ خطاب کی جیت کا مکمل طور پر سہراباندھتے ہوئے کہا ،‘‘یہ ان کی ہنرمند رہنمائی تھی جس کی بدولت ہندوستان ورلڈ کپ جیتنے میں کامیاب رہا ۔’’ کپل ایک بہترین کپتان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین بلے باز ، زبردست بولر اور ایک عمدہ فیلڈر بھی تھے ۔ انہوں نے ٹیم میں جیت کا اعتماد ظاہر کیا۔ واڈیکر نے جیت کا سلسلہ شروع کیا جو کپل نے 1983 پروان چڑھایا تھا۔سابق کپتان نے میچ میں فکسنگ واقعہ کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے ، کھیل میں آسانی سے پیسہ کمانے کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا ، ‘‘اس واقعہ نے ہندوستانی کرکٹ کی ساکھ کو شک کے گھیرے میں ڈال دیا ہے اور لوگوں نے ہندوستان کے ہر میچ کو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کیا لیکن سچن تندولکر ، سوربھ گنگولی ، راہل ڈراوڑ اور وریندر سہواگ جیسے کھلاڑیوں نے اپنی کارکردگی سے یہ کام انجام دیا ہے ۔ اس ساکھ لوٹایا۔’’ گاوسکر نے دھونی کو متحرک کپتان قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی کپتانی میں 2007 میں ٹی 20 ورلڈ کپ جیتا تھا ، جبکہ ٹیم میں سچن ، گنگولی اور ڈراوڑ جیسے کھلاڑیوں کی کمی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 28 سال بعد ہندوستان کو ون ڈے ورلڈ کپ ملنے والے دھونی کو کون بھلا سکتا ہے ۔ دھونی کے بعد ویراٹ بھی اسی روایت پر چل رہے ہیں اور ان کی کپتانی میں ہندوستانی کرکٹ کا مستقبل خوشگوار سمجھا جاسکتا ہے ۔ گاوسکر نے کہا ، ‘‘ہندوستانی کپتانوں کے اصول شاستری جی کے اصولوں سے ملتے جلتے ہیں۔ ہم ایک ساتھ ہونے پر ہی ایک قوم کی حیثیت سے اعلی بن سکتے ہیں۔ اس سے قبل ، جب ٹیم کو شکست کی وجہ سے تماشائیوں کا غصہ برداشت کرنا پڑتا تھا ، لیکن وقت کی تبدیلی کے ساتھ نسل در نسل ذہنیت نسبتا تبدیل ہوچکی ہے ، آج کرکٹ اور سامعین میں بھی تبدیلیاں آئی ہیں۔ لال بہادر شاستری انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ (ایل بی ایس آئی ایم) کے چیئرمین انل شاستری ، طلباء ، ماہرین تعلیم اور سیاست دانوں نے اس موقع پر شرکت کی۔ لال بہادر شاستری انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ کے چیئرمین انل شاستری نے کہا ، ‘‘لال بہادر شاستری جی کی زندگی ہمیں سالمیت اور سادگی کا سبق سکھاتی ہے ۔ ان کے خیالات آج بھی ملک اور ملک کے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں اور انہیں صحیح راستے پر چلنا سکھاتے ہیں۔ پروگرام کے آغاز میں لال بہادر شاستری نیشنل میموریل ٹرسٹ کے ٹرسٹی مدیت شاستری نے گاوسکر کی زندگی پر روشنی ڈالی۔ پروگرام کے اختتام پر ، لال بہادر شاستری انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ کے ڈائریکٹر ، ڈاکٹر ڈی کے سریواستو نے سنیل گاوسکر کو میمنٹو پیش کیا اور سنیل شاستری نے شکریہ ادا کیا۔