سیاہ قوانین کے خلاف مذہبی، لسانی، علاقائی خطوط سے بالاتر ہوکر متحدہ جدوجہد ناگزیر

0
0

ہندو مسلم اختلافات انگریزوں کی سازش کا نتیجہ۔ جائنٹ ایکشن کمیٹی زیراہتمام ہندوستان اور آر ایس ایس پر پروفیسر شمس الاسلام کا لکچر
لازوال ڈیسک

حیدرآباد؍؍ہندوستان میں بین مذاہب بالخصوص ہندو مسلم اختلافات‘ذات پات کی تفریق، لسانی اور علاقائی تعصب انگریزوں نے اپنے اقتدار کے لئے پیدا کئے اور آر ایس ایس نے اس میں کلیدی رول ادا کیا۔ یہ دعویٰ پروفیسر شمس الاسلام نے کیا جو ہندوتوا امور پر ماہر تسلیم کئے جاتے ہیں۔ وہ آج جائنٹ ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام ہندوستان اور آر ایس ایس کے موضوع پر میڈیا پلس آڈیٹوریم میں ایک سمینار سے مخاطب تھے۔ جناب مشتاق ملک نے صدارت کی۔ جناب علیم خان فلکی نے خیر مقدم کیا اور نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ جبکہ عبدالوارث اور ناظم الدین فاروقی بھی شہ نشین پر موجود تھے۔پروفیسر شمس الاسلام سابق پروفیسر تاریخ دہلی یونیورسٹی نے CAA، NRC اور NPR پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کے خلاف مذہبی اور علاقائی خطوط سے بالاتر ہوکر صف آراء ہونے اور متحدہ جدوجہد کا مشورہ دیا اور کہا کہ آر ایس ایس کمزور اخلاقی فلسفہ کی حامل اور اخلاق طور پر کمزور تنظیم ہے جو صرف مسلمان یا عیسائی کے خلاف نہیں بلکہ خود ہندوئوں کے بھی خلاف ہیں اورانہوں نے مسلمانوں سے زیادہ مظالم ہندوئوں پر کئے ہیں۔ انہوں نے آشارام باپو اور چنمیانند کا حوالہ دیا جنہوں نے ہندو لڑکیوں کی عزت سے کھلواڑ کیا اور ان پر مظالم کئے۔ اس کے باوجود کوئی تحریک ان کے خلاف نہیں چلائی گئی۔ انہوںنے نئی نسل کو مشورہ دیاکہ آر ایس ایس کی نظریات سے واقف ہونے آر ایس ایس کے بانیان کی جانب سے جو تصانیف تحریر کئے گئے ہیں اس سے واقف ہونے مطالعہ کریں۔ تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 13اپریل 1919ء میں جلیان والا باغ میں ہزاروں افراد کا قتل عام کیا‘ لیکن انگریزوں نے صرف 381 افراد کے قتل کو منظر عام پر لایا اس میں 220ہندو، 94سکھ 61مسلمان شہید ہوئے۔ انہوں نے اودھم سنگھ کا حوالہ دیاجنہوں نے جلیان والا باغ کا20سال بعد انتقام لیا۔ انہوں نے اپنانام محمد سنگھ آزاد رکھ لیا تھا جو فرقہ وارانہ اتحاد اور یکجہتی کی مثال ہے۔ انہوں نے آزاد ہند فوج کا حوالہ دیا۔ سبھاش چندر بوس کے بیشتر قابل اعتماد کمانڈر مسلمان، سکھ او رہندو تھے۔ آزاد ہند کی فوج میں شامل زین العابدین حسن نے ’’جئے ہند‘‘ کا نعرہ دیااور سبھاش چندر بوس کی فوج اپنی ملاقات کے اختتام پر ایک دوسرے کو جئے ہند کہہ کر وداع کرتی تھی۔ سبھاش چندر بوس نے سب سے پہلے خواتین کی بٹالین فوج میںشامل کی۔ آر ایس ایس تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک طرف سبھاش چندر بوس آزاد ہند میں بڑھتی کررہے تھے تو دوسری طرف ساورنے کر انگریز فوج میں بڑھتی کے لئے ایک سو کیمپس کااہتمام کیا۔ یہ حکومت وقت کی ہمیشہ سے پالیسی رہی کہ وہ مظالم پر پردہ ڈالتے آئے ہیں۔ سامراجی نظام میں عوام کو تقسیم کرتے ہوئے حکومت کی گئی۔ اودھ میں انگریزوں کو سب سے زیادہ شکست اٹھانی پڑی تو انگریزوں نے ’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ کی حکمت عملی کو اپنایا۔ عظیم اللہ خان نے وطن سے محبت پر مبنی ایک ترانہ پیش کیا جسے فراموش کردیا گیا۔ جبکہ ساورکر نے آزادی ہند سے قبل 100سے زائد کیمپس چلاتے ہوئے مجاہدین پر ظلم و ستم کے لئے ایک فوج تیار کی۔ ہندوستان چھوڑ دو تحریک میں بھی آر ایس ایس پر امتناع عائد نہیں کیا گیا جو معنیٰ خیز ہے۔ سوامی ویویکانند کے مطابق ہم نے سب کے ساتھ مساوی رویہ اختیار کرنے کا نظام اسلام سے سیکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو مذہب کی سیاسی کرتے ہیں‘ وہ معذرت خواہی پر ایقان نہیں رکھتے۔ گولوالکر کی تصنیف مسلمان، عیسائی اور کمیونسٹ ملک کے دشمن ہیں‘ آر ایس ایس ملک کو تقسیم کرنے پر ایقان رکھنے والی تنظیم اور حقیقت میں ٹکڑے ٹکڑے گینگ ہیں۔ انہوں نے ملک کے موجودہ حالات کیلئے کانگریس کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کانگریس قائدین بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔ پروفیسر شمس الاسلام نے کہا کہ ہندو اور ہندوتوا میں فرق سمجھنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ لفظ ہندی دراصل حضرت امیر خسرو کادیا ہوانام ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ دلتوں اور سماج کے پچھڑے طبقات سے تعلقات بہتر بنائیں۔ آر ایس ایس مسلمانوں سے اس لئے نفرت کرتی ہے کہ مسلمان بھی زندگی کے ہر شعبے میں سب سے زیادہ پچھڑے ہوئے ہیں۔مشتاق ملک نے آر ایس ایس کو بزدلوں کا ٹولہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو معصوموں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں‘ آج وہ ملک پر حکمرانی کررہے ہیں۔ یہ وقت اپنے آشیانوں میں آرام کرنے کا نہیں ملک کے موجودہ حالات سے مقابلہ کرنے عزم اور حوصلہ کے ساتھ متحد جدوجہد کا ہے۔ ہم نے غذا، لباس کے انتخاب میں بہت وقت ضائع کردیا اب انقلاب کے لئے اٹھ کر صدائے احتجاج بلند کرکے اپنا حق حاصل کرنے کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے کلچر کے بارے میں گولوالکر نے اپنی تصنیف میں زہر افشانی کی ہے۔ اس ملک کی تہذیب و تمدن کا جنازہ اٹھایا جارہا ہے اور ہم کو آر ایس ایس کی نظریات سے واقف ہونے‘ گولکوالکر کی تصانیف کا مطالعہ کرتے ہوئے آر ایس ایس کے ناپاک عزائم سے مقابلہ کرنے متحد ہوکر احتجاج کرنے کا ہے۔ اس میں سیاسی نظریات یا دیگر اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صدائے احتجاج بلند کرنا وقف کا تقاضہ ہے۔ ملک میں مسلمانوں کی قربانیوں کو فراموش کرکے اجنبی بنانے کی ساز ش کی جارہی ہے۔ یہ دستور اور ملک کو بچانے کی لڑائی ہے جسے حکمرانوں کی جانب سے ہندو مسلم لڑائی قرار دے کر تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہم کو دستور ہند کو بچانے کے لئے طویل لڑائی کا عہد کرنا ہے۔ناظم الدین فاروقی نے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سونامی کا آغاز آسام سے ہوا ملک کی تاریخ میں بہادر شاہ ظفر کا ہندوستان سے تخلیہ، بابری مسجد کی انہدامی، ملک کے دو سیاہ دن تھے جس کے بعد آج ملک آزمائشی دور سے گذر رہا ہے۔ آسام میں رہنے والے بنگالی باشندوں کو حق رائے دہی سے محروم رکھنے سازش کی جارہی ہے۔ اسمبلی و پارلیمنٹ کے علاوہ عدلیہ نظام کے ذریعہ عوام کو پریشان کیا جارہا ہے۔ کشمیر اور اب اترپردیش میں معمولی احتجاج پر قانونی کاروائی کرتے ہوئے حوصلے پست کئے جارہے ہیں۔ 60بنگالیوں کو آسام سے بے دخل کرنے جو حکمت عملی کی جارہی ہے اس میں آر ایس ایس کا اہم رول ہے۔علیم خان فلکی نے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جلیان والا باغ کو دوبارہ دہرانے حکومت کی جانب سے اقدامات کئے جارہے ہیں۔جبکہ آر ایس ایس کی تاریخ قتل و غارت گیری سے پُر ہے۔ لیکن مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے۔ آزادی ہند سے آر ایس ایس کی تاریخ بغاوت، سازش اور مخبری سے پُر ہے۔ آر ایس ایس نے ترنگا کی 60سال مخالفت کی۔ آج ملک کے عوام اتحاد کے ساتھ جو احتجاج کررہی ہے‘ حکومت پریشان ہے۔ آر ایس ایس کو دستورِ ہند سے نفرت ہے۔ اور 100برس سے آر ایس ایس نے منافرت پھیلانے محنت کی ہے۔ تحریک انقلاب کا یہ فلسفہ ہے کہ آپ قربانی دیںگے تو آنے والی نسلیں سراٹھاکر جینے کے قابل ہوںگی۔ اور ملک میں برہمن واد اور آر ایس ایس کی حکمت عملی سے منافرت پھیل رہی ہے۔ بی جے پی قائدین عصمت ریزی کے مرتکبین کی حمایت میں آرہے ہیں‘ اور حیدرآباد کا ایک بی جے پی رکن اسمبلی اپنے زہر افشانی سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو متاثر کررہا ہے۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر اگر اس کے بیانات کو سنجیدگی سے نہیں لیںگے تو حیدرآباد کے خوشگوار ماحول متاثر ہونے کے امکانات ہیں۔ شاہین باغ کی طرح ملک میں ا حتجاج وقت کا تقاضہ ہے۔ انقلاب میں علمائے کرام کا ہمیشہ سے اہم رول رہا ہے۔ نکاح میں سادگی سے مسلمانوں کے معاشی حالات بہتر ہوںگے۔ آر ایس ایس کو کنٹرول کرنے متحد ہوکر مقابلہ کرنا وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ حیدرآباد میں ہونے والے احتجاج کی ستائش کرتے ہوئے انہوں نے اس جدوجہد کو جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے قائد جناب عبدالوارث نے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تنظیموں پر پابندی کا مقصد عوام کو اتحاد سے دور کرنا ہے۔ کسی بھی تنظیم کے ٹیم ورک پر جدوجہد سے آر ایس ایس پریشان ہیں۔ اور فرقہ پرست تنظیمیں عوام کو تنہا کرکے ان پر مظالم ڈھانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ اس موقع پر علیم خان فلکی کی کتاب ’’وندے ماترم قومی ترانہ یا دہشت گردانہ ترانہ‘‘ کی رسم اجراء انجام بھی دی گئی۔ علیم خان فلکی کے تحریک تشکر پر پروگرام کا اختتام عمل میںآیا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا