نمائندہ لازوال
سیتا مڑھی//ا ٓج مورخہ 11جنوری 2020 بروز سنیچر ،سیتا مڑھی ضلع کے مشہور علمی گاؤں ‘مرول’ میں جمعیت علمائے ہند کا ایک ہنگامی پروگرام منعقد ہوا،جس میں سرکردہ شخصیات کے علاؤہ علاقے کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کیا۔مجلس کو خطاب کرتے ہوئے ضلعی جمعیت کے جنرل سکریٹری اور معروف عالم دین جناب احسان اللہ شمسی نے کہا: "ہم بے باک قوم ہیں ،بدعنوان اور دوہرے قسم کے سیاست داں سے دور رہنا اور ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا ہماری امتیازی شان ہے۔ذاتی مفادات اور پروموشن کی توقعات سے تہی دامن ہوکر ہمیں ایسے قائد کی پول کھول دینی چاہئے جو سیکولرزم کا لبادہ اوڑھ کر ملک کو کئی حصوں میں بانٹنے والوں اور بے بس عوام کو بلا وجہ ستانے والوں کا پس پردہ ساتھ دیں۔ہمیں بے خوف ہوکر کالے دل اور کالے قانون والوں کے خلاف اپنی لڑائی جاری رکھنی ہے اور اس راہ میں آنے والی تمام ‘رکاوٹوں’ کو پائے تحقیر سے ٹھکرا دینا ہے”علاقے کیسنجیدہ افراد جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے القرآن اکیڈمی کے ڈائرکٹر جناب احسان بدر تیمی نے بڑی قیمتی باتیں پیش کیں۔انھوں نے کہا :”آج سیکولر ہندوستانیوں اور مسلمانوں، میں قیادت کا بحران ہے۔ عام ہندوستانی خصوصا مسلمان بے سمتی کا شکار ہوکر بکھرے ہوئے ہیں۔اسی بکھراؤ اور بے سمتی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گرد تنظیمیں ملک کی جمہوری اور دستوری قوت کو ختم کرکے اسے کئی ٹکڑوں میں تقسیم کردینا چاہتی ہیں۔پیش نظر CAA,NRC اور NPR اسی کا شاخسانہ ہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ مسند اقتدار پر قبضہ جمانے والی BJP حکومت ان تخریب پسندوں کے ناجائز منصوبوں کو کامیاب بنانے میں پیش پیش ہے۔یہ لوگ مہاتما گاندھی ،اشفاق اللہ خاں اور بھیم راؤامبیڈکر کے دیش کو اپنی جھوٹی مذہبیت ،طبقاتی نابرابری اورخانگی جنگ وجدل کا اکھاڑہ بنادینا چاہتے ہیں۔مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بھید بھاؤ ،ناانصافی اور ظلم و تشدد کے واقعات نے ملک کو ایسے دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے جہاں سے نئی نئی بے شمار تقسیموں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔یہاں ایک خاص مذہب اور ذات برادری کے علاؤہ اب کوئی محفوظ نہیں ہے۔ متنازعہ CAA اور NPR کے جی توڑ مظاہروں کے ضمن میں آر ایس ایس نواز حکومت کے سنگدلانہ رویوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ انھیں عوام کی رضا یا ناراضگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،یہ وہی کریں گے جس کا انھیں موہن بھاگوت نے حکم دے رکھا ہے۔انھوں نے تقریبا ملک کے تمام ستونوں کو منہدم کردیا ہے۔میڈیا کو خرید لیا ہے۔عدالتوں میں اپنے گرگے بٹھا رکھے ہیں اور جمہوری اقدار کو مٹانے کے لئے ‘زعفرانی حیوانوں’ کو کھلا چھوڑ دیا ہے۔ان حالات میں ملک کی سیکولر عوام خصوصا مسلمانوں کو ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو انھیں اس بھنور سے نکالے اور امن وامان کے ساتھ ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کردے۔مستند تاریخ ،روشن کارناموں اور قائدانہ حصولیابیوں کے پیش نظر بر وقت ملک عزیز میں ایک ہی ایسی قیادت ہے۔جمعیت علمائے ہند۔’جمعیت’ مذہب و مسلک اور علاقائی و تہذیبی تعصبات سے اوپر اٹھ کر ملک وملت کو امن و شانتی اور ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کرنے میں ہمیشہ کامیاب رہی ہے۔جنگ آزادی سے لے کر CAA اورNPR کی لڑائی تک ‘جمعیت’ نے خفیہ اور بظاہر ہر طرح سے مجاہدانہ کردار ادا کیا ہے۔آج ہندستان کو ‘ریشمی رومال ‘جیسی ایک اور تحریک کی ضرورت ہے لہذا ہم سیکولر ہندوستانیوں اور مسلمانوں کی ذمے داری ہے کہ ہم ‘جمعیت علمائے ہند’ کی قیادت کو مذہبی ،سماجی اور سیاسی ہر سطح پر قبول کرلیں۔خوبی اور خامی تو ہر فرد اور جماعت میں ہوتی ہے اگر ‘جمعیت’ میں کسی قسم کا نقص نظر آئے تو ہم بحیثیت رکن انتظامیہ کو مفید مشوروں سے نوازیں اور بہر صورت اس کمی کو ختم کرنے کی کوشش کریں تاکہ ملک و ملت قیادت کے بحران سے نکل کر اپنے روشن مستقبل کا منشور لکھ سکے۔اب یہی ہماری ذمے داری ہے ، دینداری ہے اور حالات کا تقاضا بھی”ڈاکٹر خورشید انور صاحب نے کہا : "وقت آگیا ہے کہ ہم باہم متحد ہو جائیں اور بلا تفریق مذہب و مسلک ایک ساتھ مل کر انسان دشمن طاقتوں کا مقابلہ کریں۔ملک کو ٹوٹنے سے بچائیں اور دستور ہند کی حفاظت کا سامان کریں” اسی طرح مدرس? العلوم الاسلامیہ مرول کے صدر مدرس جناب صدرعالم سلفی نے موجودہ حالات میں جمعیت علمائے ہند کی مذہبی قیادت کو پورے اتحاد و اتفاق کے ساتھ قبول کر نے پر زور دیا۔مولانا ذبیح اللہ تیمی نے بھی اہم خطوط پیش کئے۔ن کے علاؤہ پروگرام میں شریک کئی معزز شخصیات نے ‘جمعیت ‘کی کارکردگی سے متعلق اپنے تآثرات اور خیالات کا اظہار کیا ،ان میں حاجی عباس شیخ،جناب اصغر علی ستارے ،جناب افتخار جلیس ،جناب نواب علی ،محمد ارشاد عباس،جناب ارشد حسین اور جناب محفوظ قاسمی کے نام سر فہرست ہیں۔