سید محمد عقیل کا انتقال اردو ادب کا نا قابل تلافی نقصان ہے: پروفیسرعلی جاوید

0
0

نئی دہلی؍؍غالب انسٹی ٹیوٹ میں انجمن ترقی اردو ، ہند، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،غالب اکادمی، دہلی اردو اکادمی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی یونیورسٹی، جواہرلال نہرو یونیورسٹی کے شعبہ جات اور انجمن ترقی پسند مصنفین کی مشارکت سے معروف ترقی پسند نقادپروفیسر سید محمد عقیل رضوی کے سانحۂ ارتحال پر تعزیتی جلسے کا نعقاد ہوا۔جلسے کو خطاب کرتے ہوئے پروفیسر علی جاوید نے کہا مجھے عقیل رضوی صاحب کی شاگردی کا شرف حاصل ہے۔ وہی مجھے الٰہ آباد لے کر آئے اور میری تربیت کی۔ وہ ادب ہی نہیں ہر چیز کو منطقی انداز میں دیکھنے کے عادی تھے۔ انھوں نے مرثیے کو سماجی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی جو ان کی اولیات میں ہے۔ ان کی کتاب نئی علامت نگاری ہر طالب علم کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ یہ کتاب ترقی پسندی اور جدیدیت کے بنیادی مسائل کو سمجھنے میں بہت معاون ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر سید رضا حیدر نے کہا کہ سید محمد عقیل رضوی نے ایک طویل علالت کے بعد انتقال کیا لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی موت ایسا خلا پیدا کر دیتی جس کا پر ہونا ممکن نہیں۔ سید محمد عقیل رضوی کا تعلق اردو کے تمام اداروں سے رہا لیکن پچھلے چالیس برسوں سے وہ کسی نہ کسی طور پر غالب انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ رہے ان کی تحریریں ’غالب نامہ‘ میں شائع ہوتی رہیں اور مختلف انداز سے وہ ہماری علمی رہنمائی کرتے رہے۔ خدا ان کے درجات بلند فرمائے اور اس خلا کو جلد پر کرے جو ان کے جانے سے پیدا ہوا ہے۔انجمن ترقی اردو ہند کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی نے کہا کہ میں ان کا باضابطہ شاگرد تو نہیں رہا لیکن ان کی گفتگو اور تحریروں سے میں نے رہنمائی ضرور حاصل کی ہے۔ میں نے پہلی بار انجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاس میں ان کو دیکھا تھا اور مجھے اندازہ ہوا کہ ان کی آگہی کا دائرہ صرف اردو تک محدود نہیں ہے وہ مختلف علوم سے خاصی واقفیت رکھتے تھے اسی لیے مسائل کو دیکھنے کا ان کا نظریہ سب سے الگ تھا۔ دہلی اردو اکادمی کے وائس چیرمین اور شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق صدر پروفیسر شہپررسول نے کہا کہ میں نے بزرگوں سے سنا ہے اور خود بھی اس بات کو دہراتا ہوں کہ بزرگوں کو یاد کرنا اصل میں خود کے زندہ ہونے کا ثبوت دینا ہے۔ میری عقیل صاحب سے چند ملاقاتیں رہیں وہ نہایت مشفق اور مہربان بزرگ و استاد کی طرح اپنے ملنے والوں اور شاگردوں سے پیش آتے تھے۔ علی گڑھ میں ایک مرتبہ سمینار میں ایک عروضی بحث چھڑ گئی اور عقیل صاحب کی بات قول فیصل ثابت ہوئی اس دن ان کی شخصیت کا یہ پہلو میرے سامنے آیا کہ وہ عروض سے بھی گہری واقفیت رکھتے ہیں۔ غالب اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے کہاسید محمد عقیل رضوی اور پروفیسر محمد حسن میں گہرے مراسم تھے لہٰذا وہ جے۔ این۔ یو برابر آتے تھے وہیں ان کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ان کی تصانیف میں ایک داخلی ربط ہے اور اُسی کے ذریعے ادب کی تاریخ بھی بنتی ہے۔ ان کی تصانیف نے ادبی مسائل کو سمجھنے میں میری رہبری کی ہے۔ اگر چہ وہ ہمارے بیچ میں نہیں ہیں لیکن ان کی کتابیں ہمیشہ روشنی دیتی رہیں گی۔ پروفیسر اختر مہدی نے کہاکہ ان کی جس بات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ کہ انھیں ہمیشہ اپنی معلومات میں اضافے کی فکر رہتی تھی۔ ان کے ذہن میں کسی مسئلے کو لے کر اگر کوئی شک ہوتا تھا تو وہ جب تک اس کو دور نہ کر لیتے بے چین رہتے تھے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ عالِم کی موت ایک عالَم کی موت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر نگار عظیم نے کہا کہ میں ان کی شاگردہ تو نہیں رہی لیکن ان کے ساتھ چند یادگار ملاقاتیں ضرور رہیں۔ ایک مرتبہ انھوں نے میرے گھر پہ قیام بھی کیا اور مجھ سے کہا کہ تم نے منٹو پہ کام کیا ہے میں تمھاری تھیسس دیکھنا چاہتا ہوں ہوں مجھے کچھ خوف بھی ہوا لیکن میں نے تھیسس دے دیا ۔ مجھے حیرت ہوئی کہ انھوں نے چند گھنٹوں میں پوری تھیسس پڑھ ڈالی اور مجھ سے کہا کہ کام تو اچھا کیا ہے لیکن اس میں ’جنٹل مین کا برش‘ کا ذکر نہیں کیا۔ میں نے کہا کہ تجزیے والے باب میں تو نہیں ہے لیکن جہاں ان کی افسانہ نگاری سے متعلق گفتگو ہے وہاں میں نے ذکر کیا ہے۔ یہ سن کر وہ بہت خوش ہوئے اور بولے کہ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ تمھیں اس کا علم ہے یا نہیں۔ وہ شفیق بھی تھے لیکن علمی معاملات میں مروت کم کرتے تھے اور یہ ان کی تربیت کا طریقہ تھا۔ اس موقع ادبی شخصیات ، رفقا اور طلبانے دو منٹ خاموش رہ کرمرحوم کی تسکین روح کے لیے دعا کی۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا