غیر ملکی سفارتکاروں کا کڑے سیکورٹی سائے میں کشمیر کا دورہ

0
0

سیاستدانوں ، سیول سوسائٹی اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ اجتماعی و انفرادی سطح پر ملاقاتیں
یواین آئی

سرینگر؍؍مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 15 سفارتکاروں پر مشتمل ایک وفد سخت سیکورٹی بندوبست کے بیچ وادی میں ما بعد پانچ اگست پیدا شدہ صورتحال کا جائزہ لینے کی غرض سے جمعرات کو وارد سری نگر ہوکر سیدھے بادامی باغ علاقے میں واقع فوج کی 15 ویں کور کے ہیڈ کوارٹر پہنچا جہاں سینئر سیکورٹی افسروں نے انہیں کشمیر کی تازہ سیکورٹی صورتحال پر بریفنگ دی۔بتادیں کہ مرکزی حکومت کی طرف سے جموں کشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے پانچ اگست کے فیصلوں کے بعد یہ کسی غیر ملکی وفد کا دوسرا دورہ کشمیر ہے۔ اس سے قبل 23 ارکان پر مشتمل ایک یورپی وفد 29 اکتوبر 2019 کو حالات کا جائزہ لینے کے لئے وارد وادی ہوا تھا۔ انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے حامل یورپی اراکین پارلیمان پر مشتمل اس وفد نے دفعہ 370 کی منسوخی کو ہندوستان کا اندرونی معاملے قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ یورپی یونین کو کوئی رپورٹ پیش نہیں کریں گے۔ حسن اتفاق ہے کہ سابقہ یورپی یونین کی وفد کی طرح یہ وفد جو امریکہ، ویتنام، بنگلہ دیش، ناروے، جنوبی کوریا، نائیجیریا جیسے ممالک کے سفارتکاروں پر مشتمل ہے بھی وارد سری نگر ہوتے ہی براہ راست بادامی باغ علاقے میں واقع فوج کی 15 ویں کور کے ہیڈ کوارٹر پہنچے اور وہاں سے ایک نجی چار ستارہ ہوٹل میں تشریف لے کر مختلف وفود سے ملاقی ہوئے۔غیر ملکی وفد کو بادامی باغ براستہ مصروف ترین مولانا آزاد روڈ پہنچایا گیا تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ وادی میں حالات سازگار اور بمطابق معمول ہیں۔ذرائع کے مطابق غیر ملکی وفد سے ملاقی ہونے والے وفود بالخصوص این جی اووز اور صحافی حکومتی چنندہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ وفد سے ملاقی ہونے والوں میں بعض سیاسی افراد جیسے سابق وزرا و ممبران اسمبلی سید محمد الطاف بخاری، غلام حسن میر، نور محمد شیخ، عبدالمجید پاڈر، عبدالرحیم راتھر، رفیع احمد میر، شعیب لون اور ہلال احمد شاہ بھی شامل تھے تاہم وادی کی تجارتی انجمنوں نے متذکرہ وفد سے ملنے سے بائیکاٹ کیا ہے۔الطاف بخاری جو جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کے ساتھ اپنی حالیہ ملاقات کی وجہ سے گزشتہ کچھ روز سے خبروں میں ہے، نے غیر ملکی سفارتکاروں سے ملاقات کے بعد کہا کہ انہوں نے وفد کے ساتھ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر بات کی۔ انہوں نے کہا: ‘ہم نے کشمیر کی موجودہ صورتحال پر بات کی۔ میں نے سیاسی قیدیوں کی رہائی کا معاملہ ان کے ساتھ نہیں اٹھایا کیونکہ یہ ان کے حد اختیار میں نہیں ہے۔ یہ ریاستی اور مرکزی حکومتوں کے حد اختیار میں ہے’۔ ڈی پی این کے سرپرست اور سابق وزیر غلام حسن میر نے کہا کہ اس وفد کا یہاں آنا ایک مثبت قدم ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا: ‘اس کی بدولت اس پروپیگنڈہ کا بھی جواب دیا جاسکتا ہے جو کشمیر کی صورتحال پر دنیا کے مختلف حصوں میں کیا جارہا ہے۔ یہ وفد یہاں کی صورتحال کا نزدیک اور قریب سے جائزہ لے گی’۔ذرائع نے بتایا کہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے یہ سفارتکار جمعرات کو سری نگر میں مختلف وفود اور سیکورٹی افسروں سے ملاقات کے بعد جموں روانہ ہوئے جہاں وہ مختلف وفود کے علاوہ لیفٹیننٹ گورنر گریش چندرا مرمو اور ان کی ٹیم سے ملاقات کرسکتے ہیں۔ادھر مختلف ممالک کے سفارت کاروں کے وفد کے دورہ وادی کے پیش نظر جمعرات کو جہاں ایئر پورٹ روڑ پر کئی اہم مقامات پر 5 اگست سے نصب بیریکیڈس کو کہیں کلی تو کہیں جزوی طور پر ہٹایا گیا تھا وہیں حساس علاقوں اور اہم چوراہوں اور چوکوں پر سخت سیکورٹی بندوبست کیا گیا تھا اور پولیس کی گاڑیوں کو کھڑا کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں وفد کے دورہ وادی کے پیش نظر سری نگر کے حساس علاقوں میں گزشتہ روز سے سیکورٹی فورسز اہلکاروں کی طرف سے راہ گیروں اور گاڑیوں کی تلاشی کا سلسلہ بھی شروع ہوا تھا۔مختلف ممالک کے سفارت کاروں کے وفد کا دورہ وادی اس وقت ہورہا ہے جب وادی میں جہاں ایک طرف انٹرنیٹ خدمات اور پری پیڈ موبائل سہولیات گزشتہ زائد از پانچ ماہ سے مسلسل معطل ہیں اور وادی سے تعلق رکھنے والے مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے بیشتر لیڈران جن میں تین سابق وزرائے اعلیٰ بھی شامل ہیں، مسلسل خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں نیزمزاحمتی تنظیموں کے تمام لیڈران بھی خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں وہیں دوسری طرف وادی میں معمولات زندگی بحال ہیں، بازاروں میں دکانیں حسب معمول کھلی رہتی ہیں اور سڑکوں پر بھی ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل بمطابق معمول جاری وساری ہے نیز وادی میں ایس ایم ایس سروس کی بحالی کے علاوہ چند سرکاری ہسپتالوں میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس بھی گزشتہ کئی روز سے بحال ہے۔ماضی کی روایات کے برعکس وفد کے دورہ وادی کے پیش نظر وادی میں کوئی ہڑتال ہوئی نہ کسی نے ہڑتال کال دی اور اہلیان وادی کو بھی وفد کے دورہ وادی کے تئیں لاتعلق ہی پایا گیا۔لوگوں کا کہنا ہے کہ ہڑتال کی کال دینے والے مزاحمتی لیڈران پانچ اگست سے مسلسل خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں اور تجارتی انجمنوں کے بڑے لیڈران بھی بند ہیں اس لئے کسی نے کال دی نہ ہی لوگوں نے ہڑتال کی۔ لوگوں کا الزام ہے کہ ملکی وغیر ملکی وفود کا دورہ وادی تضیع اوقات کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔لوگوں کے ایک گروپ کے ساتھ یو این آئی ارود نے جب مختلف ممالک کے سفارت کاروں کے وفد کے دورہ وادی کے متعلق بات کی تو انہوں نے کہا: ‘یہ وفد بھی مرکزی حکومت نے ہی یہاں بھیجا ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ یہ لوگ بھی وادی کے خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز ہوکر یہاں کی قدرتی خوبصورتی پر مبنی رپورٹ داخل دفتر کریں گے’۔ایک معزز شہری نے کہا کہ آج تک جتنے بھی وفود یہاں آئے ہیں کسی سے بھی کوئی ٹھوس کام نہیں ہوا ہے۔انہوں نے کہا: ‘وفد ملکی ہو یا غیر ملکی، سفارت کاروں کا ہو یا سیول سوسائٹی اراکین کا ہو، یہ سب تضیع اوقات ہے۔ یہ سب نشستن، خوردن و برخاستن جیسی بات ہی ہے، یہ لوگ بھی یہاں آرام دہ ہوٹلوں میں بیٹھ کر رپورٹ تیار کریں گے’۔قابل ذکر ہے کہ وفد کے دورہ وادی سے قبل این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مرکزی حکومت کی دعوت پر کشمیر کا دورہ کرنے والے وفد میں شامل یورپی ممالک کے سفارت کاروں نے میزبان ملک کے ساتھ وادی میں کسی سے بھی ملنے پر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے وفد میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یورپی ممالک کے سفارت کاروں نے مرکز پر واضح کیا تھا کہ وہ کشمیر میں کسی سے بھی ملنا چاہیں گے اور انہیں ملنے دیا جانا چاہئے۔ انہوں نے واضح کیا تھا کہ وہ پانچ ماہ سے نظر بند تین سابق وزرائے اعلیٰ سے بھی ملاقی ہوں گے۔سابقہ یورپی یونین کی وفد جس نے 29 اکتوبر کو وادی کا دورہ کیا تھا، نے یہاں آنے سے قبل قومی راجدھانی نئی دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کی تھیں۔ یورپی پارلیمان کا وہ وفد دراصل 27 یورپی اراکین پارلیمان پر مشتمل تھا جن میں سے چار اراکین نئی دہلی سے ہی اپنے وطن واپس ہوئے تھے جس کے نتیجے میں اس وفد کی تعداد سمٹ کر 23 پر آگئی تھی۔ ملک کی اپوزیشن جماعتوں بالخصوص کانگریس نے تب یورپی اراکین پارلیمان کے دورہ کشمیر پر سوال اٹھائے تھے۔ کانگریس کا کہنا تھا کہ جب ملک کے سیاستدانوں کو جموں وکشمیر میں لوگوں سے نہیں ملنے دیا جارہا تو یورپی پارلیمان کے اراکین کو اس کی اجازت کیونکر دی گئی۔ اکتوبر کے اواخر میں کشمیر آنے والے یورپی پارلیمان کے تین اراکین کو چھوڑ کر باقی سب کا تعلق یورپ کی انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں سے تھا۔ وہ مبینہ طور پر اسلام مخالف بیان بازی کے لئے بھی مشہور تھے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا