تیسرافرنٹ محض قیا س آرائیاں، آئین ہند کے تحت انتخابات لڑنے والے ملک دشمن نہیں ہوسکتے:مظفر حسین بیگ
ریاست کے دوٹکڑوں میں تقسیم کیلئے محبوبہ مفتی کے ’اشتعال انگیز‘اوردھمکی آمیز‘بیانات ذمہ دار
جان محمد
جموں؍؍سابق ممبر پارلیمنٹ اور پی ڈی پی رہنما مظفر حسین بیگ نے جمعرات کو یہ وکالت کی کہ جموں وکشمیر کو ’’ پہاڑی ریاست ‘‘ دیا جائے اور سابقہ ریاست کو آرٹیکل 371 کے تحت تمام آئینی مراعات دی جائیں۔بیگ نے پارٹی سربراہ محبوبہ مفتی پر آرٹیکل 370 پر "اشتعال انگیز” اور "دھمکی آمیز” بیانات دے کر جموں وکشمیر کو دو مرکزی علاقوں میں تنزلی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔جموں میں یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ، بیگ نے کہا: ’’جموں و کشمیر کیساتھ کیوں امتیاز برتنا چاہئے؟۔ ہمیں آرٹیکل 371 کے تحت بھی شامل ہونا چاہئے جو ہمارے حقوق کے لئے مستقل تحفظ کی خصوصیت ہے۔ اس سے کشمیریوں ، ڈوگروں ، گوجروں ، پہاڑیوں اور دیگر برادریوں کے حقوق کا تحفظ ہوگا۔انہوں نے تین سابق وزرائے اعلیٰ سمیت دیگرمین اسٹریم لیڈران کی مسلسل نظر بندی کوبلا جواز قرار دیتے ہوئے سوالیہ انداز میں کہا کہ آئین ہند کے تحت انتخابات لڑنے والے ملک دشمن نہیں ہوسکتے ہیں ؟۔مظفر حسین بیگ نے کہا کہ ’فسٹ اور اسیکنڈ فرنٹ ‘ کی عدم موجودگی میں کسی تیسرے فرنٹ کے قیام سے متعلق رپورٹس محض قیاس آرائی کے سوا کچھ اور نہیں ۔جموں وکشمیرسے370اور35اے کے خاتمے اورریاست کے دومرکزی زیرانتظام علاقوںمیں تقسیم کئے جانے کے بعد پہلی مرتبہ منظرعام پرآتے ہوئے پی ڈی پی کے قدآوررہنمانے یہاں جموں پریس کلب میں ایک پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔بیگ نے کہا کہ جموں وکشمیر کی ڈیمو گرافی، وحدیت اور تشخص کو ملحوظ نظر رکھ کریہاں ریاست کے درجہ کی بحالی ناگزیر ہے ،کیونکہ کسی قدیم ریاست کی تنزلی کرکے دو مرکزی علاقوں میں منقسم کرنے کا فیصلہ نا انصافی کے مترادف ہے ۔ان کا کہناتھا کہ دفعہ 370 کے ساتھ لوگوں کا جذباتی لگائو تھا لیکن یہ ناقابل تردید حقیقت بھی ہے کہ کل 96 مرکزی قوانین کی مدوں میںسے پہلے ہی جموں و کشمیر میں 92 لاگو کئے گئے تھے ۔انہوں نے کہا کہ سال 1962 میں پنڈت جواہر لعل نہرو نے پارلیمنٹ میں اپنی تقریر کے دوران کہا کہ دفعہ 370 کھوکھلا ہو چکا ہے۔ ان کا کہناتھا کہ دفعہ370کی تنسیخ کا فیصلہ بھارتیہ جنتاپارٹی کا ایجنڈا تھا ،جوکہ سمجھ میں آتا ہے لیکن جموں وکشمیر کو ریاست کے درجے سے محروم کرنا غیر متوقع تھا ۔مظفر حسین بیگ نے کہا کہ حکومت ہندکی جانب سے5اگست کو دفعہ370کی منسوخی سے متعلق اچانک فیصلہ لینے سے قبل ہی عوامی اورٹی وی مباحثوں میں میرے سمیت بہت سارے لوگوں نے یہ خدشہ ظاہرکیاتھاکہ جموں وکشمیرکوخصوصی آئینی پوزیشن فراہم کرنے والے آئین ہندکی دفعہ کومنسوخ کیاجاسکتاہے۔لیکن یہ سارے خدشات دفعہ370کے بارے میں ظاہرکئے جارہے تھے ،اورمجھے اسبات کاکوئی اندیشہ نہیں تھاکہ جموں وکشمیرکاریاستی درجہ گھٹاکراسے مرکزی زیرانتظام علاقہ بنایاجائے گا۔انہوں نے کہا ’میری دانست میں ریاست کادرجہ ختم کرناایک سزادینے کی طرح ہے۔بی جے پی نے اپنے ایجنڈے میں دفعہ370اور35Aکی تنسیخ کاوعدہ کیاتھالیکن جموں وکشمیرسے ریاست کادرجہ چھین لینابھاجپاکے ایجنڈے میں نہیں تھا۔5،اگست سے پہلے غالباًکچھ ایساہوا ہوگاجس نے وزیراعظم اورمرکزی وزیرداخلہ کویہ سخت قدم اُٹھانے کی ترغیب دی ۔میری دانست میں ریاست کادرجہ ختم کرناتعزیری قسم کافیصلہ ہے‘۔انہوں نے کہا ’دفعہ35اے کے تحت جموں وکشمیر کے عوام کو اندرونی طور کئی حقوق حاصل تھے ،جن میں جائیداد کے مالکانہ اور نوکریوں کے حقوق شامل ہیں ‘۔مظفر حسین بیگ نے کہا کہ شمالی ،مشرقی ریاستوں کے طرز پر جموں وکشمیر کو ’ڈومیسائل ‘ حقوق کے تحفظ کی ضمانت ملنی چاہئے جبکہ جموں وکشمیر کا ریاستی درجہ دوبارہ بحال ہونا چاہئے ۔8سابق ممبران اسمبلی کی لیفٹیننٹ گور نر سے ملاقات کے پس منظر میں انہوں نے کہا’لیفٹیننٹ گور نر سے کوئی بھی ملاقی ہوسکتا ہے اور جمہوری نظام میں ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے ،لیکن جہاں تک ریاست کے درجہ اور ڈومیسائل حقوق کی بحالی کا تعلق ہے ،اس حوالے سے لیفٹیننٹ گورنر کا کوئی رول نہیں بنتا ہے ‘۔سابق نائب وزیر اعلیٰ نے جموں وکشمیر کا ریاستی درجہ اور ڈومیسائل حقوق کی بحالی کا حتمی فیصلہ بھارتی پارلیمان اور حکومت ہند ہی لے سکتی ہے ۔انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ وزیر اعظم ہند ،مرکزی وزیر داخلہ اور قومی سلامتی کے مشیر جموں وکشمیر کے عوام کے جذبات اور احساسات کا خاص خیال رکھیں گے ۔مظفر حسین بیگ نے کہا’میری دانست اور میری نظر میں دفعہ 370 اور 35-A نیز جموںو کشمیر کی تقسیم اور ریاست کا درجہ ختم کیا جانا اہم معاملے ہیں ‘۔انہوں نے مرکزی حکومت کو تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ اس کو ایک پہاڑی ریاست کا درجہ بھی دیا جائے ۔ان کا کہناتھا’ ہم مرکزی سرکار سے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پہاڑی ریاستوں کو آئین ہند کے دفعہ 371 کے تحت خصوصی درجہ دیا جاتا ہے اور میری نظر میں دفعہ 371 اور دفعہ 35-A میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے‘ ۔مظفر حسین بیگ نے کہا’ ہم مرکز کو یہ بھی بتاسکتے ہیں کہ اگر ملک کی پہاڑی ریاستوں کو دفعہ 371 کے تحت تحفظ فراہم کیا گیا ہے تو جموں و کشمیر کو اس سے محروم نہیں رکھا جائے‘۔۔انہوں نے تین سابق وزرائے اعلیٰ سمیت دیگرمین اسٹریم لیڈران کی مسلسل نظر بندی کوبلا جواز قرار دیتے ہوئے سوالیہ انداز میں کہا کہ آئین ہند کے تحت انتخابات لڑنے والے ملک دشمن نہیں ہوسکتے ہیں ؟۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ سبھی نظر بند لیڈران کو رہا کیا جا نا چاہئے اور اگر کسی کے خلاف رشوت ستانی کا کوئی کیس ہے تو اس پر مقدمہ چلایا جائے ۔ان کا کہناتھا ’سیاستدانوں کی رہائی کے حوالے سے پِک اینڈ چوز پالیسی اختیار کرنا نا مناسب ہے ‘۔جب مظفر حسین بیگ سے پوچھا گیا کہ امن اور نارملسی میں کیا فرق ہے ؟تو انہوں نے کہا کہ پائیدار امن کی بحالی کیلئے سیاسی سر گرمیاں ناگذیر ہیں جبکہ ’نار ملسی ‘یہی ہے جو اس وقت آپ کشمیر میں دیکھ رہے ہیں کہ لوگ چپ ہیں ۔مظفر حسین بیگ نے پارٹی صدر محبوبہ مفتی کے اُس بیان جس میں انہوں نے کہاتھا ’اگر دفعہ370کیساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تو کشمیر میں ترنگا اٹھانے والا کوئی نہیں ملے ‘پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ’اس بیان کے حوالے سے اُنہیں کوئی علمیت نہیں ہے ،تاہم اس طرح کا بیان غیر ضروری ہے ‘ ۔پنچایت اور بی ڈی سی انتخابات میں این سی ،پی ڈی پی کی جانب سے شرکت نہ کرنے کو مظفر حسین بیگ غلط فیصلے سے تعبیر کیا ۔پاکستان کے کیساتھ تعلقات کو استوار کرنے مذاکراتی عمل کی بحالی کو لازمی قرقر دیتے ہوئے مظفر حسین بیگ نے کہا کہ پاکستان کیساتھ شمولہ سمجھو تہ کے تحت بات چیت ہونی چاہئے ۔بیگ نے پارٹی سربراہ محبوبہ مفتی پر آرٹیکل 370 پر "اشتعال انگیز” اور "دھمکی آمیز” بیانات دے کر جموں وکشمیر کو دو مرکزی علاقوں میں تنزلی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔سابق نائب وزیر اعلی ، بیگ نے یہاں ایسے وقت میں صحافیوں سے ملاقات کی جب 15 ممالک کے سفیر کشمیرمیں تھے ،5 اگست کے بعد جب ریاست کو دومرکزی علاقوں میں تقسیم کیاگیا‘یہ میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ کسی بھی پی ڈی پی رہنما کی پہلی بات چیت تھی ۔’’یہ بیان محبوبہ مفتی نے میری غیر موجودگی میں دیا تھا۔ جب یہ بیان دیاتھا تو میں وہاں موجود نہیں تھا۔ میرے پاس ریکارڈ پر موجود ہے کہ اس طرح کے بیان کے نتیجے میں ریاست (جے کے) کو مرکزی علاقوں میں ڈائوگریڈکیاگیا ،” بیگ نے کہا۔مفتی نے سنہ 2017 میں مرکز کو متنبہ کیا تھا کہ اگر آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت جموں و کشمیر کے عوام کو خصوصی حقوق اور مراعات سے محروم کیاجاتاہے تو ریاست میں ہندوستان کا ترنگا اُٹھانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اس کے بعد بھی وہ متعدد مواقع پر اسی طرح کے بیانات دے چکی ہیں۔بیگ نے مفتی کے "اشتعال انگیز” بیانات کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ نئی دہلی میں اعلی قیادت کو کسی کی شکایت سننے کے لئے "دھمکی” نہیں دی جاسکتی ہے۔اگر جموں وکشمیر کو ساتھ رہنا ہے اور اگر ہمیں اپنے حقوق کے لئے بیٹنگ کرنا ہے تو ہمیں شائستگی اور عاجزی کے ساتھ بات کرنا ہوگی