شکریہ !وزیر اعظم مودی صاحب

0
0

 

دل تو چاہتا ہے کہ آپ کی تمام یقین دہانیوں پر یقین کرلیں

 

جیلانی خان علیگ

فی الحال آسام کے گواہاٹی سے 150کلو میٹر مغرب میں گوواپارہ ضلع کے ماٹیا نامی جگہ پر مرکزی حکومت کی ہدایت پر زیر تعمیر ہے، جس کے لئے جنوری2019میں مرکزی وزارت داخلہ نے ہدایت جاری کی تھی۔میڈیارپورٹ کے مطابق،اس میں 3000افراد کو رکھا جاسکتا ہے، کل لاگت 45کروڑ کی آئے گی۔اسی طرح، ایک ڈٹنشن کیمپ کرناٹک میں بن رہا ہے جو بنگلوروسے30کلو میٹر دور سندیکپا گائوں میں ہے، جس میں سات کمرے، ایک کچن، کچھ باتھ روم ہوں گے جہاں منجملہ 51بستر ہوں گے۔ اسے یکم جنوری 2020باضابطہ شروع کردیا جائے گا۔ آپ نے ملک کے تمام شہریوں بشمول مسلمانوں کے د ل و دماغ میں این آر سی ا ورشہریت ترمیمی قانون کے تعلق سیپائے جارہے خدشات کو دور کرنے کیلئے تقریباََ ایک گھنٹہ کااپنا قیمتی وقت تقریر میں صرف کیا۔ اپنے جانے پہچانیا نداز میں یہ تقریر قومی راجدھانی کے تاریخی رام لیلا میدان میں کی جہاں کی ریلیاں، جلسے اکثر اقتدار تک پہنچانے یا منصب سے بے دخل کرنے کیلئے مشہور رہے ہیں۔اس سے قبل بھی اس میدان میں آپ سحرا نگیز تقاریر کرچکے ہیں مگر اس تقریر کی خصوصی اہمیت بطور خاص ملک کی سب سے بڑی اقلیت کیلئے ہے کیونکہ جب سے آپ مرکزکے اقتدارمیں ہیں اس طبقہ کا عرصہ حیات تنگ کرنے میں آپ کی پارٹی کے لوگ، آپ کی نظریہ ساز تنظیم کے لیڈران اور متعصب افسران اور پولیس حکام نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ آپ کے بیانات پر جن لوگوں کو بھی یقین رہا ہے،وہ انہیں آپ کے دل کی آواز ، حکومت کی پالیسی کا آئینہ مانتے رہے ہیں، وہ یقیناََ اس تقریر کو موجودہ اضطرابی صورتحال کے لئے مرہم مانتے ہیں۔ حالانکہ،ایک بہت بڑاحلقہ بھی ہے جسے آپ اور آپ کے سخت گیر حامی ’گروہ‘کہتے ہیں، بھی ہے جو رام لیلا میدان کی ا س تقریر کو بھی جھوٹ ہی بتارہاہے۔اس حلقہ کے لوگ اپنی دلیل میں آپ کے پچھلے ان بیانات کا حوالہ دیتے ہیںجو اکثر غلط ثابت ہوئے ہیں۔ خیر! میرے پاس اس نئی تقریر پرصد فیصدیقین کرلینے اور سرے سے خارج کردینے دونوں صورت کیلئے جواز ہیں۔اس لئے، کچھ معروضات آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔ بات وہیں سے شروع کررہا ہوں جس پر سب سے زیادہ زور آپ نے دوران تقریر دی تھی۔ یعنی ڈٹنشن کیمپ۔ہمارے وزیر اعظم کا کھلا اعلان ہے کہ ملک میں ایک بھی ڈٹنشن کیمپ نہیں ہے۔جہاں تک میری جانکاری ہے فی الحال آسام کے گواہاٹی سے 150کلو میٹر مغرب میں گوواپارہ ضلع کے ماٹیا نامی جگہ پر مرکزی حکومت کی ہدایت پر زیر تعمیر ہے، جس کے لئے جنووری 2019 میں مرکزی وزارت داخلہ نے ہدایت جاری کی تھی۔میڈیارپورٹ کے مطابق،اس میں 3000افراد کو رکھا جاسکتا ہے، کل لاگت 45کروڑ کی آئے گی۔اسی طرح، ایک ڈٹنشن کیمپ کرناٹک میں بن رہا ہے جو بنگلوروسے30کلو میٹر دور سندیکپا گائوں میں ہے، جس میں سات کمرے، ایک کچن، کچھ باتھ روم ہوں گے جہاں منجملہ51بستر ہوں گے۔ اسے یکم جنوری 2020باضابطہ شروع کردیا جائے گا۔اسی طرح،’’ Scroll‘‘کی رپورٹ کے مطابق،مہاراشٹرا میںڈٹنشن کیمپ کی تعمیرکی تیاری تھی مگر فڑنویس حکومت کے بیا قتدار ہوجانے سے معاملہ تعطل میںہے۔حالانکہ، مرکز کی ہدایت پر اس وقت کی فڑنویس سرکار نے نوی ممبئی کے’ نیمل‘ میں پلاٹ کی نشاندہی کرلی تھی۔اس وقت کے پرنسپل سکریٹری ، وزارت داخلہ کے مطابق جولائی 2019 میں ہی زمین کی نشاندہی کی کارروائی شروع ہوگئی تھی، جب مرکز نے تمام ریاستوں کو اس تعلق سے نوٹس جاری کیا تھا۔ چند سوالات :کیا آسام میں واقعی ڈٹنشن کیمپ نہیں ہے؟۔اگر، نہیں ہے توکیا میڈیا رپورٹ جھوٹی ہے؟۔کیا کرناٹک اور نوی ممبئی میں ڈٹنشن کیمپ قائم کرنے کی کارروائی شروع نہیں ہوئی ہے؟۔ اگر نہیں تو اچھی بات ہے۔مگر، جواب مثبت ہو تو کیا آپ یا آپ کی حکوم کے نمبر -۲امت شاہ حقیقت بتانے کی زحمت اٹھائیں گے ؟کس کے لئے یہ کیمپ زیر تعمیر ہیں ؟جب ملک بھر میں این آر سی نافذ نہیں کیا جانا ہے تومختلف ریاستوں میں اس طرح کے کیمپ کی کیا ضرورت ہے؟۔کیا آسام یا دیگر شمال مشرقی ریاستیوں میں اتنی بھی زمین سرکار کے پاس نہیں کہ یہ وہیں قائم کئے جاتے،کیونکہ غیر قانونی درا ندازی کا سب سے زیادہ مسئلہ تو انہی ریاستوں میں ہے ؟۔ ان تمام باتوں پرمرکزی حکومت بالخصوص وزارت داخلہ کو موقف واضح کرنا چا ہئے۔ آپ نے 2014میں’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کا نعرہ دیا اور اقتدار تک پہنچ گئے۔زمینی سطح پر اس پر کتنی ایمانداری سے عمل کیا ہم اس کی بات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس سے پورا ملک واقف ہے۔ ۹۱۰۲ئ￿ میں آپ کو اس سے بھی بڑا مینڈیٹ ملا۔تب آپ نے نیا نعرہ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس‘ اچھالاتومیرا ہی نہیں ان تمام لوگوںکادل باغ باغ ہوگیا،جنہوں نے 2014سے ملک میں جاری مسلم مخالف مہم دیکھی تھی۔ ایک بار پھر آپ کے وعدے پر یقین کرنے کا دل چاہا حالانکہ دماغ اس کے سخت مخالف تھا۔ مگر، دل کی آواز عقل و شعور پر حاوی ہوگئی اور پھر سے بھروسہ کرلیا۔مگر، نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ اب کچھ بات آپ کی تقریر کے دیگر پہلوئوں کی۔ در اصل، آپ نے اپنی تقریر کے ذریعہ ان خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی جو ان دنوں پورے ملک کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہیں۔لوگ بیچینی میں سڑکوں پر ہیں،ہر طرف اضطرابی کیفیت ہے۔لوگ کہیں پولیس سے تو کہیں اپنے آپ سے متصادم ہیں۔حسب معمول بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں کی حکومتیں بے دردی سے ان شہریوں کے آئینی حقوق و اختیارات کو سلب کرتے ہوئے انہیں مظاہرے و احتجاج سے روک رہی ہیں۔اس کا نتیجہ تشدد کی شکل میں سامنے آرہا ہے۔ حالانکہ، یہ کہنا قبل ا ز وقت ہوگا کہ تشدد کی شروعات اصل مظاہرین یا ان کی صفوں میں شامل جے چند اور میر جعفرکررہے ہیںیا پھر یہ حکومت اورپولیس کی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔بہر حال،حکومتی موقف (بطور خاص یوگی حکومت کا)یہی ہے کہ یہ مظاہرین اورمظاہرے میں شامل باہری عناصر کررہے ہیںجنہیںاحتجاج کیلئے بطور خاص بلایا جاتا ہے۔اپوزیشن جماعتوں کوبھی سازش کا حصہ بتایا جارہا ہے۔ حالانکہ،ابھی تک یہی مشاہدہ ہوا ہے کہ ان مظاہروں کی لیڈر شپ شہریوں نے خود اپنے ہاتھوں ہی رکھی ہے۔ کسی بھی پارٹی یا تنظیم کاکا کوئی خاص چہرہ فرنٹ پر نظرنہیں آیا ہے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ کسی بھی ہندوستانی کو گھبرانے،پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔مگر،جو طریقہ کار آپ کی حکومت اپنا رہی ہے،جوجارح بیان بازی آپ کے وزرا، پارٹی کے اکرگزار صدر کررہے ہیں اس کا کیا مطلب نکالا جائے۔کیا انہیں بھی آپ کے درجنوں وعدوں کی طرح سیاسی جملے سمجھ کر نظرا نداز کردیا جائے۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ کابینہ میں این ا?ر سی کے نفاذ پر کوئی بحث نہیں ہوئی ہے۔اچھا لگا یہ سن کر، خوشی ہوئی کہ یہ محض افواہ ہے۔ مودی جی! آپ نے ایک اور سنہرا موقع گنوا دیا۔اگر آپ ا مت شاہ اوراپنی پارٹی سے وابستہ وزرائے اعلیٰ کو واضح ہدایت دے دیتے کہ مظاہرین بطور خاص طلباپر لاٹھی چارج نہ کیا جائے، بے قصور گرفتار لوگوں کو رہا کردیں،شہریوں کو پر امن احتجاج کرنے دیں،ان کے میمورنڈم، جن کے بھی نام ہوں،لے کران تک پہنچا یا جائے۔اگر آپ ان باتوں کو اپنی تقریر کا حصہ بنالیتے توشاید آپ کایہ خطاب زیادہ موثر ہوتا۔لوگوں کو لگتا کہ ان کے پی ایم نے ان کے درد کو سمجھا، ان کے زخم پر مرحم رکھنے کی کوشش کی۔مگر، شاید آپ ایسا کرنا یا کہنا چاہتے ہی نہیں۔آپ کو اپنے ہی شہریوں کے صاف ستھرے لباس سے غداری وطن کی بو تو آتی ہے مگرہفتہ سے زائدعرصہ سے کنپکنپاتی سردی میں آپ کی آنکھوں کے سامنے دہلی میں دھرنے پر بیٹھے طلبہ کی تکلیف اور پریشانہ دکھائی نہیں پڑتی۔ان کے لئے ہمدردی کا ایک لفظ بھی آپ کے پاس نہیں۔آپ نیا ن سپاہیوں کے خلاف کارروائی کے تعلق سے بھی کوئی بات نہیں کہی جنہیں مظلوم طلبا بشمول لڑکیوں پر بے دریغ تشدد کرتے ہو ئے دیکھا جاسکتا ہے۔ پی ایم سر! شاید یہی وجہ ہے کہ آپ کی ان یقین دہانیوں پروہ لوگ ابھی بھی بھروسہ نہیں کررہے ہیں، جنہیں آپ کی باتوں کو جھوٹ ماننے کی عادت ہے۔ان کا سوال ہے کہ آپ کی پارٹی کے لیڈر روزانہ ہی این آر سی نافذ کرنے کی بات کہہ رہے ہیں۔ملک کا دوسرا سب سے پاور فل شخص جس کے ذمے ہی اس طرح کے قوانین کا نفاذ ہے، بھی ببانگ دہل چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ یہ ملک بھر میں نافذ ہوگا۔شہریت ترمیمی قانون پر بھی یہ لوگ دھمکی آمیز لہجہ میں کہتے نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں کوئی آپ کی باتوں پر بھروسہ کرے یا آپ کے وزرا کی دھمکیوں پر؟۔اگر، ان پریشان حال شہریوں کی طرح آپ بھی اسی مخصوص فرقہ سے ہوتے تو کیا آپ کی حکومت یہ قانون بناتی ؟۔کیا آپ واقعہ بابائے قوم کیا صولوں پرواقعی یقین رکھتے ہیں جنہوں نے’ہندوستان صرف  ہندئوں کا‘ نظریہ کے حامی ایک سر پھرے کی گولیاں کھاکر اپنی جان دے دی؟۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا