مستقبل کاتحفظ کون کرے گا؟

0
0

آج کی نئی نسل کو دیکھ کر مستقبل کے ہندوستان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، کیوں کہ یہی نونہال کل سماج کا سرگرم حصہ بننے والے ہیں، لیکن جس تیزی سے بچے جرائم کے آغوش میں جا رہے ہیں، اُس کو دیکھ کر معاشرہ کو بیدار ہوجانا چاہیے، خاص طور پر گریٹر نوئیڈا کی ایک سوسائٹی میں ماں اور بہن کا قتل کرنے والے نوجوان کا اعتراف جرم ہمارے معاشرہ میں زیر پرورش اور بڑے ہوتے بچوں کی مجرمانہ ذہنیت کی وہ بے رحم سچائی ہے جس کا سامنا کرنے سے ہم بچنا چاہتے ہیں۔ نظر انداز کئے جانے، ڈانٹ ڈپٹ اور پٹائی نے اس لڑکے کو اتنا تنہا اور مایوس کر دیا تھا کہ اس کی زندگی کے سارے شگفتہ احساسات سوکھ کر مرجھا گئے اور انتقام کی آگ نے اسے اِتنا اندھا بنا دیا کہ اُسے اپنی ماں کا ہی قتل کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں ہوئی جو اُسے اس دنیا میں لائی تھی اور اِس کے لئے اُس نے اُسی کرکٹ بیٹ کو ہتھیار بنایا جو اُسی ماں نے اُسے سالگرہ پر تحفہ میں دیا تھا۔ اس بے رحم دور میں کسی بچے یا نوجوان کے قاتل بن جانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ چھوٹی عمر میں قتل سے لے کر عصمت ریزی تک کے حیران کر دینے والے اِتنے واقعات ہمارے سامنے تسلسل سے آرہے ہیں کہ دم بخود ہوجانا پڑتا ہے۔ خواہ جھگی جھوپڑی ہو یا بڑی سوسائٹیاں سبھی جگہ نئی نسل کے بچے تشدد، ظلم اور تنہائی کے بیچ بڑے ہورہے ہیں۔ اُن کے پاس مشترکہ خاندان کا ساتھ، بڑے بزرگوں کی تھپکیاں اور کھیل کے میدان نہیں، بلووہیل اور ہائی اسکول گینسٹر ایسکیپ جیسے خودکش موبائل گیم ہیں جو کئی بار انہیں تنہائی سے عارضی راحت دیتے ہیں تو کئی بار خودکشی سے لے کر قتل کی انتہا تک لے جاتے ہیں۔ حکومت کے ہی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ۲۰۱۵ء کے مقابلے میں ۲۰۱۶ء میں کمسنوں کے جرائم میں نو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس کے باوجود چھوٹی عمر میں بڑھتا جرم نہ تو خاندان اور سماج کو بے چین کرتا ہے نہ ہی اِس خطرناک رجحان پر لگام لگانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر آتی ہے۔ گریٹر نوئیڈا کے اِس لڑکے کے خاندان میں اُس کے دادا دادی تھے اور اسکول میں بھی اُس کے غیر معمولی رویہ کے بارے میں اُس کے ہم جماعتوں اور اساتذہ کو علم تھا۔ اِس کے باوجود اِس لڑکے کو سمجھنے اور بدلنے کی کوشش نہیں ہوئی۔ شاید ہمارا پورا سماج ہی یہ مان بیٹھا ہے کہ تعلیم میں اوسط لیاقت کے طالب علم نظر اندازی اور بائیکاٹ کے ہی مستحق ہوتے ہیں۔ اِس نوجوان نے جو جرم کیا اُس کی سزا تو اُسے ملے گی ہی مگر ہمارے معاشرے میں نوجوانوں کو نظر انداز کرنے کا ایسا ہی سلوک ہوتا رہا تو صورت حال اور بھیانک ہوجائے گی۔ آخر ہم کب سمجھیں گے کہ بچے ڈانت اور پٹائی سے نہیں ہمدردی اور سمجھداری دکھانے سے ہی بدلتے ہیں۔ بے جا تنبیہ و تشدد تو انہیں خود سر بنا کر بے قابو کر دیتے ہیں۔(عارف عزیز(بھوپال))

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا