پٹنہ میں مختلف مذاہب کے ہندوستانی شہریوں کا زبردست احتجاج

0
0

خواتین اور طالبات آخری سانس تک اپنے آئین کی حفاظت کے لیے پابند عہد: مدیحہ رحمانی
یو این این

پٹنہ۔//باری پتھ ،فقیرباڑہ نزد پٹنہ کالیجئیٹ اسکول سے شہریت ترمیمی قانون۲۰۱۹، قومی آبادی رجسٹر( این پی آر)، قومی رجسٹر برائے شہری( این آر سی ) کی مخالفت میں مجوزہ پرامن جلوس کو پولس انتظامیہ نے نکلنے نہیں دیا اور جلوس کو شروع ہوتے ہی پٹنہ کالیجیٹ کے پاس ہی روک دیا گیا ۔ پٹنہ میں مختلف مذاہب کے نمائندوں کی طرف سے بلائے گئے احتجاجی مارچ میں سیکڑوں لوگوں نے شرکت کی۔ جس میں کثیر تعداد خواتین اور طالبات کی بھی تھیں۔پٹنہ کالیجئیٹ اسکول کے پاس بلائے گئے اس احتجاجی مارچ کو گاندھی میدان تک جاناتھا لیکن پولیس اور انتظامیہ کی مداخلت کے بعد اسے آگے جانے سے روک دیا گیا۔مظاہرین نے پولیس اور انتظامیہ کا تعاون کرتے ہوئے جلوس کو آگے جانے سے روک دیا لیکن احتجاجی مظاہروں پر پولیس اور حکومت کی طرف سے لگائی جا رہی بندشوں پر سوالات بھی کھڑے کیے ۔ اس پرامن جلوس کو روکنے کیلئے مقامی کئی تھانہ کے تھانہ انچارج موجود تھے ۔ جس میں پیربہور تھانہ کے تھانہ انچارج رضوان احمد خان، سلطان گنج تھانہ کے تھانہ انچارج غلام سرور وغیرہ موجود تھے ۔احتجاج میں شامل مظاہرین کے ایک نمائندہ وفد نے موجود پولس انتظامیہ کو ایک میمورنڈم سونپ کر ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے توسط سے ہمارے اندیشے اور مطالبات ڈی ایم، وزیر اعلیٰ اور حکومت تک پہنچائیں۔ گلزار احسن، عظیم الرحمن، محمد خطیب، پرنس اور محمد توفیق نے بھی احتجاجی جلسہ سے خطاب کیا۔مظاہرین نے زور دے کر کہا کہ ان کا احتجاج کسی بھی طرح دبایا نہیں جا سکتا وہ جمہوری اور پر امن طریقے سے اپنے مطالبات کے لیے آواز بلند کرتے رہیں گے۔اس میمورنڈم میں شہریت ترمیمی قانون کو واپس لینے کی مانگ کے ساتھ ، این پی آر پر فوری اثر سے روک نیر این آرسی پر روک کیلئے آخر وقت تک قائم رہنے کی مانگ کی گئی ہے ۔ اس میمورنڈم میں وزیر اعلیٰ بہار اور انکی پارٹی کے ذریعہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں شہریت ترمیمی بل کے حق میں ووٹ دینے، آرٹیکل ۳۷۰ ، اور تین طلاق کے معاملے میں اپنے موقف سے الگ ہونے پر زبردست مایوسی کا بھی اظہار کیا گیا ہے اور اب یہ امید ظاہر کی گئی ہے کہ این آر سی معاملہ میں وہ اپنی پرانی عادتوں سے باز آئینگے ۔ ان لوگوں نے مظاہرہ کرنے والے قائدین سے وزیر اعلیٰ کے نام لکھے گئے میمورنڈم کو لیا اور اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ ان لوگوں کا یہ میمورنڈم مناسب ذریعہ سے وہاں تک پہنچا دیا جائیگا۔ پرامن جلوس کی قیادت انجینئیر گلزار احسن، توفیق عالم، عظیم الرحمٰن، منٹو، خطیب الرحمٰن، مسسو ملک، ثاقب، نسیم، ارمان ، سبحان، شمشامل، ارشاد نے مشترکہ طور کی ۔ ۔ آصف حیات نے شدید غم وغصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پر امن احتجاج کو روکنا جمہوریت کا قتل ہے۔ جمہوریت میں اظہار رائے کی آزادی ہے لیکن اکثر جگہوں پر حکومت کے اشارے پر پولیس پرامن احتجاج کو بھی کچلنے کی کوشش کر رہی ہے۔راجیو پرتاب سنگھ، پرکاش مانجھی، جبیر جنگ سنگھ، شمبھو دیو اور متعدد مقررین نے اپنے خطاب میں کہا کہ آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ تمام ہندوستانیوں کا مسئلہ ہے اسی لیے ہم سب مل کر حکومت کے فیصلوں کی کھل کر مخالفت کر رہے ہیں۔مسلم مجلس مشاورت کے سکریٹری جنرل انوار الہدی نے اپنے خطاب میں شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این آر پی کو جمہوریت اور آئین مخالف قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی ایک بڑی آبادی ملک کے بدلتے حالات سے فکر مند ہے لیکن حکومت غریبی، بے روزگاری، تباہ ہوتی معیشت سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے فرقہ وارانہ ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ عوام اس سازش کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں اسی لیے بلاتفریق مذہب و ملت آج پورا ہندوستان سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طالبہ مدیحہ رحمانی نے علیگڑھ کیمپس میں پولیس مظالم کی داستان بیان کرتے ہوئے طلبہ و طالبات پر پولیس کے ذریعہ ہوئے مظالم کو حکومت کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ طاقت کے زور پر کسی تحریک کو دبایا نہیں جا سکتا۔ دنیا سب کچھ دیکھ رہی ہے کہ کون ظلم کر رہا ہے اور کون ظلم کا شکار ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں خواتین اور طالبات کی نمائندگی اس بات کا اعلان ہے کہ ہم اپنے ملک کی جمہوریت کی آخر دم تک حفاظت کے لیے پابند عہد ہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا