طالبان – امریکہ کے درمیان امن معاہدہ کے مثبت اشارے

0
0

یواین آئی

کابل// افغانستان کے طالبان نے اعلان کیا ہے کہ وہ ملک بھر میں عارضی جنگ بندی پر رضامند ہیں جس سے امریکہ کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔ میڈیا میں شائع ہونے والی امریکی خبررساں ایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق امن معاہدے کے نتیجے میں واشنگٹن افغانستان میں 18 سال سے جاری رہنے والی جنگ کے بعد اپنی افواج کو واپس ملک میں بلاسکتا ہے ۔اس معاہدہ میں امریکہ طالبان کی جانب سے اس بات کی ضمانت چاہتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو دہشت گرد گروہ کے لئے بیس کے طور پر استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔اس وقت امریکہ کے 12 ہزار فوجی افغانستان میں موجود ہیں، توقع ہے کہ طالبان سربراہ معاہدے کو منظور کرلیں گے ۔طالبان کی جانب سے جنگ بندی کی مدت کے بارے میں نہیں بتایا گیا تاہم اطلاعات ہیں یہ کہ 10 روز تک جاری رہ سکتی ہے ۔جنگ بندی پر رضامند ہونے سے قبل طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے 4 اراکین نے حکمران کونسل سے ایک ہفتہ تک ملاقاتیں کیں جس کے بعد مذاکرات ٹیم اتوار کے روز اپنے سیاسی دفتر قطر واپس آگئی۔تنازع میں دونوں طرف کے افغانوں کے درمیان براہ راست مذاکرات انتہائی اہم ستون ہے جس کیلئے ایک سال سے امریکہ اور طالبان کے درمیان ادھیڑ بن جاری ہے ۔امریکہ اور طالبان کے مابین معاہدہ پر دستخط ہونے کے بعد 2 ہفتوں میں ‘بیان الافغان مذاکرات ’ہونے کی توقع ہے جو اس بات کا تعین کریں گے جنگ کے بعد افغانستان کا منظر نامہ کیسا ہوگا اور طالبان اس میں کیا کردار ادا کریں گے ۔ان مذاکرات میں متعدد پہلوؤں پر بات کی جائے گی جن میں خواتین کے حقوق، آزادی اظہار رائے اور ہزاروں طالبان قیدی کے ساتھ ساتھ افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے دولت اور طاقت کا غلط استعمال کرنے والی مسلح ملیشیا کا مستقبل شامل ہے ۔اس عارضی جنگ بندی کی تجویز امریکی سفیر برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے مذاکرات کے گزشتہ دور کے دوران پیش کی تھی۔حالیہ جنگ بندی ایک ہفتہ سے 10 روز تک قائم رہے گی اور اس دوران امریکہ کے ساتھ معاہدہ پر دستخط کیے جائیں گے ، ایک طالبان عہدیدار کے مطابق جنگ کے بعد افغانستان کا منظر نامہ تنازع کے دونوں اطراف موجود افغانوں کے درمیان بات چیت سے طے کیا جائے گا۔یاد رہے رواں برس 8 ستمبر کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان کر کے سب کو حیران کردیا تھا کہ انہوں نے سینئر طالبان قیادت اور افغان صدر اشرف غنی کو کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات کی دعوت دی تھی، تاہم آخری لمحات میں انہوں نے طالبان کے ایک حملہ میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت پر مذاکرات منسوخ کردئیے تھے ۔اس پر ردعمل دیتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کا سلسلہ معطل کردیا تاہم اب امریکہ کو پہلے کے مقابلہ میں زیادہ ‘غیر معمولی نقصان’ کا سامنا ہوگا لیکن پھر بھی مستقبل میں مذاکرات کے لئے دروازے کھلے رہیں گے ۔امریکا کے ساتھ مذاکرات منسوخ ہونے کے بعد طالبان وفد 14 ستمبر کو روس بھی گیا تھا، جس کے بارے میں طالبان رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ دورہ کا مقصد امریکہ کے ساتھ مذاکرات بحال کرنے کی کوشش نہیں بلکہ امریکہ کو افغانستان سے انخلا پر مجبور کرنے کے لیے علاقائی حمایت کا جائزہ لینا ہے ۔بعد ازاں طالبان وفد نے 29 ستمبر کو بیجنگ کا دورہ کیا تھا اور چینی نمائندہ خصوصی ڈینگ ژی جون سے ملاقات کی تھی۔ان مذاکرات کی معطلی سے قبل قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری مذاکراتی عمل کے حوالے سے امریکی اور طالبان نمائندوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے ایک طریق کار پر اتفاق کیا جسے جلد حتمی شکل دے دی جائے گی۔لہٰذا اگر یہ معاہدہ ہوجاتا تو ممکنہ طور پر امریکہ، افغانستان سے اپنے فوجیوں کو بتدریج واپس بلانے کا لائحہ عمل طے کرتا جبکہ طالبان کی جانب سے یہ ضمانت شامل ہوتی کہ افغانستان مستقبل میں کسی دوسرے عسکریت پسند گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہیں ہوگا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا