مودی حکومت کی شاندار واپسی

0
0

ایس پی-بی ایس پی، کانگریس شیوسینا کا ساتھ آنا اہم رہا
یو این آئی

نئی دہلی؍؍ مودی حکومت کی بھاری اکثریت کے ساتھ واپسی، اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، مہاراشٹر میں کانگریس کا شیوسینا سے ہاتھ ملانا اور آندھرا پردیش میں جگن موہن ریڈی کی سونامی جیسے سیاسی واقعات کے لئے سنہ 2019 کو یاد کیا جائے گا ۔ اس برس اپریل مئی میں ہوئے لوک سبھا انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو جس طرح کی زبردست حمایت ملی اس کے لئے 2019 طویل عرصے تک زیر بحث رہے گا ۔ مودی لہر میں سوار بی جے پی کو اترپردیش ، مغربی اور وسطی ہندوستان میں بھاری عوامی حمایت حاصل ہوئی اور لوک سبھا میں اس کی سیٹوں کی تعداد تین سو سے تجاوز کر گئی۔ مودی کی آندھی میں کانگریس کے پاؤں ایک مرتبہ پھر اُکھڑ گئے اور وہ مسلسل دوسری مرتبہ لوک سبھا میں حزب اختلاف کی جماعت بننے کے لئے ضروری سیٹیں حاصل کرنے میں ناکام رہی ۔ لوک سبھا انتخابات میں اپنی شاندار کارکردگی کو بی جے پی ریاستوں میں دہرا نہیں سکی اور مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات میں اس بڑا دھچکا لگا ۔ یہ دونوں ریاستیں اس کے ہاتھ سے نکل گئی ۔ اکتوبر میں ہریانہ اور مہاراشٹر میں ہوئے انتخابات میں وہ اپنی کارکردگی دہرا نہیں سکی ۔ ہریانہ میں انتخابات کے بعد اس نے دشینت چوٹالہ کی جن نائک جنتا پارٹی سے ہاتھ ملا کر دوبارہ حکومت بنا لی لیکن مہاراشٹر میں اس کے پرانے اتحادی شیوسینا سے ناطہ ٹوٹا اور ریاست بھی ہاتھ سے نکل گئی ۔ مہاراشٹر میں کانگریس کا شیوسینا کے ساتھ مل کر حکومت بنانا چونکانے والا قدم رہا ۔ سابق مرکزی وزیر اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے سربراہ شرد پوار کنگ میکر کر بن کر ابھرے اور ان کی کوششوں سے ریاست میں این سی پی، کانگریس اور شیو سینا کی حکومت بنی اور مسٹر ادھو ٹھاکرے وزیر اعلی بنے ۔ بی جے پی کا مہاراشٹر میں این سی پی کو توڑ کر حکومت بنانے کا داؤ الٹا پڑا ۔ ریاست میں جس طرح جلد بازی میں بی جے پی لیڈر دیویندر فڑ نویس کو وزیر اعلی کے عہدے کا حلف دلایا گیا ۔وہ بحث کا موضوع بن گیا لیکن مسٹر فڑ نویس کو تین دن میں ہی اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا ۔ گزشتہ برس سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آ نے کے باوجود کرناٹک میں حکومت بنانے میں ناکام رہی بی جے پی اس سال ریاست پر دوبارہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئی ۔ کانگریس اور جنتا دل (ایس) کے کئی اراکین اسمبلی کو نااہل قرار دیا جانے سے اسے حکومت بنانے کا موقع مل گیا ۔جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ جھارکھنڈ مکتی مورچہ، کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل کے اتحاد نے 81 میں سے 47 سیٹیں جیت کر بی جے پی کو اقتدار سے باہر کر دیا ۔ پانچ سال وزیر اعلی رہے رگھوور داس بھی اپنی سیٹ بچا نہیں پائے ۔ سال کے اوائل میں ایک بہت بڑاسیاسی واقع اتر پردیش میں دیکھنے میں آیا جب ریاست کے دو اہم سیاسی جماعتوں سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی نے مل کر لوک سبھا الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ۔ پچیس برس کے بعد نہ صرف سیاسی حریف ساتھ آئے بلکہ بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے ایس پی لیڈر ملائم سنگھ یادو کی حمایت میں انتخابی مہم چلائی ۔ دونوں کا اتحاد لمبے وقت تک نہیں چل سکا اور لوک سبھا انتخابات میں متوقع نتائج سامنے نہیں آنے پر انہوں نے اپنے راستے الگ کر لیے ۔ آندھرا پردیش میں کانگریس سے الگ ہوکر وائی ایس آر کانگریس پارٹی بنانے والے جگن موہن ریڈی کو اس برس عوام کی زبردست حمایت حاصل ہوئی ۔ ریاست میں لوک سبھا کے ساتھ اسمبلی انتخابات ہوئے تھے ۔ ان کی پارٹی نے لوک سبھا کی 25 میں سے 23 اور اسمبلی کی 175 سیٹوں میں سے 151 پر کامیابی حاصل کی ۔ برے دور سے گزر رہی کانگریس کی کمان ایک بار پھر محترمہ سونیا گاندھی کے اپنے ہاتھ میں لینا بھی اہم رہا ۔ لوک سبھا انتخابات میں کراری شکست کے بعد مسٹر راہل گاندھی نے کانگریس صدر کے عہدے سے استعفی دے دیا اور پارٹی لیڈ روں کے بار بار منانے کے باوجود وہ یہ عہدہ سنبھالنے کے لیے تیار نہیں ہوئے جس سے کافی وقت تک تعطل رہا ۔ اگست میں محترمہ سونیا گاندھی پارٹی کی عبوری صدر بنیں اور پارٹی مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں اقتدار میں آنے میں کامیاب رہی ۔ نہرو گاندھی خاندان کی ایک اور رکن پرینکا گاندھی واڈرا کا اس سال سرگرم سیاست میں داخل ہونا بھی اس سال موضوع بحث رہا ۔ لوک سبھا انتخابات سے قبل انہیں پارٹی کا جنرل سکریٹری بنا کر مشرقی اتر پردیش کی ذمہ داری سونپی گئی ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا