چلو تم کہ جہاں تک سیاہ رات چلے

0
0

حنیف ترین

جھوٹ کا ہے بول بالا اور سچ ہے بے زباں
آدمی کی روح پر بے چہرگی کاخول ہے
کسی بھی ملک کے رہنماوہاں بودوباش کرنے والے لوگوں کیلئے مثالی ہواکرتے ہیں۔ ان کے اقوال لوگوں کی زبان پر ہوتے ہیں اور لوگ ان پر دل وجان سے عمل کرتے ہیں اور کتابوں کے ذریعہ ان کے قول وعمل تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں مگر شاید یہ ’کل یگ‘ ہے کہ آج ہمارے بڑے بڑے لیڈر ہزاروں کے مجمع میںبھی باربار جھوٹ بولتے ہیں اور بڑے اعتماد سے جھوٹ بول کر عوام کوبہکاتے ہیں۔ ابھی پچھلے اتوار( 22؍دسمبر2019)کوہمارے’ پردھان سیوک‘ نے رام لیلا میدان میں ایک بہت بڑی ریلی سے خطاب کیا،جس میںانہوںنے دعویٰ کیا کہ ’ملک کی ساری اپوزیشن جماعتیں این آرسی پر طرح طرح کے جھوٹ پھیلا رہی ہیں۔ میں دیش کے 130کروڑ لوگوں کے سامنے کہتاہوں کہ’ این آرسی پر حکومت کی طرف سے کوئی بات نہیں ہوئی ہے اور یہ سب جھوٹ ہے، جھوٹ ہے، جھوٹ ہے، بلکہ یہ ایک بہت بڑا سفیدجھوٹ ہے‘۔یہ خبریں این ڈی ٹی وی پرچل رہی تھیں، جس میں امت شاہ کے اس بیان کوبھی دکھایاگیاجوانہوں نے این آرسی پرنہ صرف راجیہ سبھامیں بلکہ کئی ریلیوں وپروگراموں میںبھی بڑے طمطراق سے دیے تھے۔
رام لیلامیدان کی اسی تقریر میں وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ’کچھ پڑھے لکھے لوگ جنہیں ’شہری نکسلائٹ‘ کہاجائے توبہترہے، یہ افواہیں پھیلارہے ہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں کو ڈٹینشن سینٹر بھیج دیاجائے گا، جو سراسرجھوٹ ہے۔ ملک میں کہیں بھی ڈٹینشن سینٹر ہے ہی نہیں اور نہ ہمارااس طرح کا سینٹر بنانے کا کوئی پروگرام ہے‘لیکن این ڈی ٹی وی نے وہ ڈٹینشن سینٹرجوآسام اور کرناٹک میں بن رہے ہیں، دکھلائے اورکرناٹک ہائی کورٹ میں دائراس عرضی کابھی ذکر کیا جو اس طرح کے سینٹربنانے کے لیے سرکار نے دی رکھی ہے۔
اس ریلی کی ایک خاص بات یہ بھی رہی کہ مودی جی نے دہلی پولیس کی حد سے زیادہ تعریف کی اور ملک بھرمیں جواحتجاج چل رہے ہیں، اس میں کچھ فسادیوں کے ذریعہ پبلک اورسرکاری پراپرٹی کوجلانے اور برباد کرنے پراپناغصہ بھی ظاہرکیا۔ اس ضمن میں مجھے یہ کہنا ہے کہ قومی میڈیا اور سوشل میڈیاپر پولیس کے ذریعہ تشدد اور پبلک یا سرکاری پراپرٹی کونقصان پہنچانے والا ویڈیوگردش کررہا ہے،جس میںقانون نافذکرنے والے اداروں کے بھی بعض صاحبان کوبھی گاڑیوں وغیرہ کونقصان پہنچاتے دکھایا گیاہے،جس سے بادی النظرمیںپولیس کی شبیہ داغدار اور مشتبہ بن رہی ہے،پھربھی ہمارے وزیر اعظم اس حوالہ سے خاموش رہے اور طلبہ پر مظالم کے تعلق سے بھی انہوںنے زبان نہیں کھولی۔
خیروقت جیسے جیسے گزررہاہے، احتجاج کا دائرہ بھی بڑھتاجارہاہے اور اب اس درمیان اس مسئلہ میںگھری حکومت ’شہریت ترمیمی قانون‘ کی پوری معلومات عوام کو دینے اور قانون میں کی گئی تبدیلی کے بارے میںرابطہ مہم چلانے جارہی ہے،تاکہ احتجاج سے عوام کو دور کرنے کے مقصد میں اسے کامیابی مل سکے۔
 آسام کے بعد اس کالے قانون کے خلاف سب سے زیادہ احتجاج یوپی میںہوئے اورپورے ملک میں سب سے زیادہ نقصان بھی یہیں ہوا ۔ اس احتجاج میں مرنے والوں کی تعداد16ہوگئی ہے اوران میں سے 14کی موت پولیس کی گولی لگنے سے ہوئی ہے جب کہ پولیس مسلسل اس بات سے انکار کررہی ہے۔حالانکہ انڈین ایکسپرس کی رپورٹ کے مطابق سینئرپولیس افسران نے اس بات کی تصدیق بھی کردی ہے۔ اس کے باوجود یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہاہے کہ جو لوگ دورانِ مظاہرہ پبلک پراپرٹی کونقصان پہنچا رہے ہیں، اس کی بھرپائی انھیں ہی کرنی پڑے گی۔ ان کے گھروں پر قبضہ کرلیا جائے گا، انھیں بھی اسی طرح تباہ کردیاجائے گا جیسے انہوں نے گورنمنٹ یاپبلک پراپرٹی کوتباہ کیاہے۔ انہوں نے نہ صرف یہ زبانی طورپر کہا ہے بلکہ عملی لحاظ سے مظفرنگر میں70دکانوں کوسیل کروا کر انہوںنے اس کی شروعات بھی کردی ہے۔وزیر اعلیٰ یوپی کاالزام ہے کہ ان دکانوں کے دکان مالکان نے بھی احتجاج میں گورنمنٹ اور پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچایاہے۔اس کی نہ کسی جانچ کی ضرورت محسوس کی گئی اور نہ ہی عدالت کے ذریعہ جرم کو ثابت کرنا لازمی سمجھا گیا۔تاناشاہی والے انداز میںیوگی کا فرمان جاری ہوا اور پولیس نے کارروائی شروع کردی۔ یقینایہ عمل ہندوستانی جمہوریت سے میل نہیںکھاتاہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ این آرسی اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں ہورہے احتجاج سے بی جے پی خائف ہے۔اسی لیے جہاں جہاں اس کی حکومت ہے، وہاںہاں وہ دفعہ144نافذکرتی ہے، پھرہزاروں لوگوں کوگرفتار کرتی ہے اور ان پردفعہ144کی خلاف ورزی کا مقدمہ قائم کردیتی ہے اورمظاہرہ کرنے والوں پر پولیس کے ڈنڈے چلتے ہیں اور ان میں سے بہتوں کو پکڑ کر جیل میں بھی ڈال دیاجاتاہے۔
اترپردیش سے قومی دارالحکومت دہلی کی حالت احتجاج کی سنگینی کے حوالہ سے بہت زیادہ مختلف نہیںہے۔البتہ یہاںاموات کسی کی نہیں ہوئی ہے،حالانکہ مسلسل مظاہروں کا دور جاری ہے۔پچھلے دنوںدہلی کی جامع مسجد پر پرامن احتجاج ہورہے تھے اوریہ لوگ جنترمنتر تک جاناچاہتے تھے۔احتجاج کرنے والے دن ڈھلنے کا انتظار کرتے رہے، انھیں ایسا لگ رہاتھا کہ مغرب کے بعدپولیس وہاں سے ہٹ جائے گی مگر جب 7بج گئے اورپولیس وہاں سے نہیں ہٹی تو کچھ لوگ دلّی گیٹ پرآگئے،جہاں پولیس بیری کیڈلگا رکھے تھے۔ اسی دوران چند فسادیوں نے ایک کار اورایک موٹرسائیکل میں آگ لگادی، جس کے بعد پولیس نے طاقت دکھائی اورلاٹھی چارج کردیاگیا۔ مطلب صاف ہے کہ گورنمنٹ لوگوں کی آواز دباناچاہتی ہے اوراحتجاج کوکسی طرح سے روکناچاہتی ہے۔ جہاں نہیں رکتے ،وہاں پولیس زبردست اور خطرناک ایکشن بھی لیتی ہے بلکہ فائرنگ کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف جمعہ کے دن ہی یوپی میں 16لوگوں کی جانیں چلی گئیں اورسیکڑوں زخمی ہوگئے۔ حالانکہ پولیس کہتی ہے کہ اس نے ایک بھی گولی نہیں چلائی لیکن پولیس کا یہ دعویٰ جھوٹا ثابت ہوا کیوں کہ اس سے متعلق ایک ویڈیو بھی سامنے آگیا ہے جس میں پولیس والے احتجاجیوں پر فائرنگ کرتے دیکھے جارہے ہیں۔
اس وقت حالات بہت ہی خراب ہیں اور ملک ایک خطرناک سمت میں بڑھ رہا ہے۔ مسلمان اب ’تنگ آمد بجنگ آمد‘ کے حالات سے دوچار ہیں، تبھی توبغیرکسی لیڈرشپ کے جوانوں کے ہمراہ بزرگ بھی سڑکوں پرآچکے ہیں ،جو مسلمانوں کیلئے ان حالات میں صحیح عمل ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ اب نئی لیڈرشپ کے اُبھرنے اوراسدالدین اویسی جیسے پڑھے لکھے اورحکمت ودانشوری سے لبریز اور لوگ بھی سامنے آئیں گے۔
بہرحال ہندوستانی مسلمان ایک ایسی گھاٹی میں رواں ہے جس کے ایک طرف گہراغارہے تودوسری طرف پہاڑ۔ ان دوراستوںمیں سے اُسے ایک کا انتخاب کرناہے۔ اس وقت حالات کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان اکیلے بالکل سڑکوں پر نہ اتریںبلکہ ہرقیمت پر سیکولرخیالات کے ہندوؤں کے قدم سے قدم ملا کراحتجاج کا حصہ بنیںجوبڑی تعداد میں آئین کی روح کو بچانے کیلئے شریکِ مظاہرہ ہورہی ہیں۔ دوسری بات احتجاج چھوٹاہویابڑا، اس کے انتظام کرنے والوں میںایک گروپ ایسالازماً ہوناچاہیے جوصرف یہ دیکھے کہ وہاں ایسے لوگ تو نہیں ہیںجوفتنہ وفسادپھیلاسکتے ہیں۔ ان کی نشان دہی کرکے انھیں احتجاج سے فوریً طوری پرالگ کردیناچاہیے اور اس کی خبرپولیس کو بھی دینی چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر حالت میں احتجاج پر امن ہواور شانتی کے ساتھ جمہوری انداز میںمضبوطی کے ساتھ ایسی آواز اٹھائی جائے،جو سرکار کو اپنے قدم پیچھے ہٹانے پر مجبور کردے:

 

 

ڈالا ہے نیا بیج خیالوں کی زمیں میں
ممکن ہے نئی فصل بہاروں سے ملا دے
جل جائے گا تو بھی تو مرے ساتھ ذرا سوچ
اس شعلۂ نفرت کو نہ یوں اور ہوا دے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا