جموں وکشمیرمیں بے روزگاری ساتویں آسمان پرہے، نوجوان نسل بے روزگاری کے باعث تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، دفعہ370کاخاتمہ اور ریاست سے یوٹی کادرجہ ملنے کے بعد توجموں وکشمیر کے نوجوانوں میں بے چینی اوربڑھ گئی ہے،بے روزگاری کس حد تک بڑھ گئی ہے، اس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ کشمیر یونیورسٹی کی طرف سے حال ہی میں مشتہر کئے گئے محض 22 اسامیوں کے لئے زائد از 70 ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ امیدواروں نے فارم جمع کئے ہیں، تاہم کثیر تعداد میں امیدواروں کی طرف سے فارم جمع کرنے سے یونیورسٹی کے بنک اکائونٹ میں قریب 4 کروڑ روپے جمع ہوئے ہیں۔یو این آئی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق کشمیر یونیورسٹی نے سال رواں کے ماہ اکتوبر کے اواخر میں اسسٹنٹ رجسٹرار اور اسسٹنٹ کنٹرولر آف ایگزامنیشنز کی 7 اسامیوں اور جونیئر اسسٹنٹ کی 15 اسامیوں کے لئے خواہشمند امیدواروں سے درخواستیں طلب کی تھیں۔ اسسٹنٹ رجسٹرار پوسٹ کے لئے تعلیمی قابلیت 55 فیصد نمبرات کے ساتھ کسی بھی مضمون میں پوسٹ گریجویشن مقرر تھی جبکہ جونیئر اسسٹنٹ پوسٹ کے لئے تعلیمی قابلیت 50 فیصد نمبرات کے ساتھ گریجویشن کے علاوہ چھ ماہ کا کمپیوٹر کورس کا ہونا لازمی تھا جس کے لئے زائد از 70 ہزار امیدواروں نے فارم جمع کئے۔ذرائع نے کہا کہ وادی میں انٹرنیٹ پر جاری پابندی کے باعث صرف 20 فیصدی امیدوار ہی آن لائن فارم جمع کرسکے جبکہ 80 فیصدی امیدواروں کو لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں تک کھڑا رہنے کے بعد فارم جمع کرنے پڑے تھے۔کشمیر یونیورسٹی نے متذکرہ اسامیوں کے لئے اْس وقت درخواستیں طلب کی تھیں جب وادی میں تمام طرح کی انٹرنیٹ سہولیات پر پابندی کے علاوہ ہڑتالوں کا ایک طویل سلسلہ جاری تھا۔اب اس سنگین صورتحال کاسنجیدہ نوٹس لیتے ہوئے مرکزی سرکار کو چاہئے کہ اب بہت کچھ ہوگیا، جموں وکشمیراورلداخ کابڑاآپریشن ہوچکا،دفعہ370کاخاتمہ ہوا،ریاست کے درجے کاخاتمہ ہوا،جموں وکشمیراورلداخ کے نوجوانوں نے بڑاصبرکرلیا، اب انہیں مرکزی حکومت کے اعلانات ،وعدوں اوروزیراعظم مودی سے بندھی اُمیدوں کے عین مطابق کوئی بڑاروزگارکاتحفہ ملناچاہئے تاکہ نوجوان نسل کی صلاحیتیں قوم کی تعمیرمیں صرف ہوں اور پریشانیوں میں مبتلاہوکر منشیات فروش گروہ کے ہاتھوں کاکھلونابن کرملک کامستقبل تباہ نہ ہوجائے۔