میری سرزمیں کو سیاحت کی چاہت !!!!

0
0

کاش ایک نظر ادھر بھی دیکھ لیتے؛
محمد ریاض ملک
9858641906
جموں وکشمیر کے ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی وادی کشمیر سے کچھ کم نہیں – پت جڑ کا موسم شروع ہوتے ہی منڈی کے بلندوبالاچناروں اخروٹ کے پیڑوں ودیگر پھلدار اور بغیر پھلوں کے پیڑوں سے گِرتے پتے خوبصورت نظارہ پیش کرتے ہیں – اگر چہ یہاں سیاحوں کی آمد کا سرکاری طور کوئی بندوبست نہیں ہے- مگر یہاں کے لوگ اس بات کے خواں ہیں اور ان باتوں کا ثبوت بھی ماضی میں دے چکے ہیں کہ وہ مہمان نواز ہیں – سیاحوں کی آمد کے منتظر ان لوگوں نے ہمیشہ اس علاقع کی خوبصورتی کو ریاستی ہوکہ مرکزی حکومتوں کے ساتھ اٹھایامگر جواب اج تک نہیں آیا- ایک منڈی ہی لے لیجے دریا کے دونوں جانب بلندوبالاپہاڑیاں ہر موسم میں موسم کے ساتھ بدلتا نظارہ پیش کرتی ہیں -تھوڑی دور منڈی کے اطراف واکناف کی بلند وبالاپہاڑیوں پر برف کی سفید چادر دلفریب منظر پیش کرتے ہوے گویااپنی طرف مدعو کررہی ہیں – دریا لورن اور ساوجیاں کے دونوں طرف آباد بہت ہی چھوٹاسا قصبہ منڈی جو چھوٹاضرور ہے لیکن خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے- منڈی تاراجپورہ صرف قریب دوکلومیٹر اور منڈی تاجالیاں قریب ڈھائی کلومیٹر زمین ہموار ہے- اور دونوں جانب سے بلندوبالاپہاڑوں کے آغوش میں یہ قصبہ بہت کچھ اہم مقامات رکھتاہے-منڈی قصبہ میں داخل ہوتے ہی پونچھ کی جانب سے جاتے پورے علاقع کی خوبصورت میناروں والی مرکزی جامع مسجد رضاے مصطفے نظر آتی ہے- کھڑیاں عبور کرتے ہوے بازار سے بازارسے گزرکر پونچھ کو منڈی لورن ساوجیاں سے ملانے والے واحد پْل سے گزر ہوتاہے- جہاں منڈی آعظم آباد منڈی لورن منڈی پونچھ اور تحصیل کمپلکس کا سنگم بھی ہے- پْل عبور کرتے ہیں تو مسجد شریف سے بازار شروع ہوکر بڈھاامرناتھ تک سڑک کی دونوں جانب بازار ہی بازار ہے-اسی بازار کے اطراف واکناف میں مسجدیں مزار اور سرکاری عمارتیں بھی پائی جاتی ہیں – اس ایک کلومیٹر سفر کے شروع میں ایک بلندوبالا چنار جہاں سے منڈی پھاگلہ روڈ کا سنگم ہے- دائیں جانب مرکزی جامع مسجد بائیں جانب مردانہ ہائیر سیکنڈری سکول قریب 200 میٹر کی دوری پر بائیں جانب مسجد مصطفے اور دائیں جانب اندر زیارت سید علی شاہ رضوی ہمدانی جو قریب سوسال پرانی ہے- وہاں سے تھوڑاآگے پورے علاقع کا ہسپتال واقع ہے- جہاں سے قریب بائیں جانب ہائیر سیکنڈری سکول براے خواتین ہے- اس سڑک پر عیدگاہ بازار جس کو کھڑی بازار سے بھی یاد کیا جاتاہے- اس کے بلکل اوپر قدیم عیدگاہ ہے- جہاں سے منڈی ساوجیاں لورن بائیلہ وغیرہ کا باآسانی نظارہ کیا جاسکتاہے- یہاں سے تھوڑا وقفہ پر جامع مسجد قاسمی جس کے ساتھ قریب سومیٹر کی دوری پر دینی ادارہ جامعہ فیض القران موجود ہے- مسجد سے قریب پچاس میٹر کی دوری پر دائیں جانب ایک خوبصورت لزیز چشمہ ہے- جو سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں سرد ہوجاتاہے- سینکڑوں لوگ ہر روز اس سے فیضیاب ہوتے ہیں – یہاں سے آگے اعلی پیر بازار کے قریب تکیہ شریف اعلی پیر منڈی جہاں پر تاریخی نورانی عیدگاہ اور نورانی جامع مسجد شریف ہیں – اعلی پیر بازار سے آگے مندر منڈی جہاں سے لورن اور ساوجیاں سڑک الگ ہوتیں ہیں – یہاں سے قریب بڈھاامرناتھ کا مندر ہے- جہاں پر ساراسال جموں وکشمیر کے ساتھ ساتھ ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں یاتری اتے جاتے رہتے ہیں – اور روڈ کی دوسری جانب بھی ایک مندر اور ایک گردوارہ ہے- مندر چوک سے ساوجیاں روڈ پر کنڈن کے مقام پر آبائی قبرستان کے ساتھ حضرت باباعبداللہ صاحب بغدادی رحمت اللہ علیہ کا مزار ہے-جو مقامی شخص ماسٹر عبدالرحمان ودیگر لوگوں کے مطابق سات سو سال قبل یہاں حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی کے ساتھ یہاں آئے اور ان ہی حکم کے مطابق یہاں رکے اور یہاں ہی ان کا مزار بنا- اور جہاں سے سامنے صدیوں پرانی جگہ جس کو پانڈوں نے پتھر کاٹ کر بنایاہے- جو آج وہاں کے مقامی لوگ جنازگاہ کے طور استعمال کرتے ہیں -قلیل مگر بہت ہی عمدہ جگہ ہے- کنڈاں سے قریب دو سومیٹر کہ دوری پر محکمہ سیاحت کہ جانب سے مغل ڈاب کے مقام پر مغل گارڈن ایک وسیع وعریض جگہ پر سیلانیوں کا منتظر ہے-منڈی کے ہونہار نوجوان اور بلاک ڈوپلمنٹ کونسل چیر مین شمیم احمد گنائی کے مطابق لاکھوں کا صرفہ کرکے اس باغ کو تیار کیا جارہاہے – ابھی مزید خوبصورت بنانے کے لئے کوششیں جاری ہیں – یہاں سے آگے جالیاں میں زیارت میراں بڈھ شاہ جس کیقریب ہی قریب ساڑے پانچ سوسال قدیم زیارت حضرت پیر نورالدین مخدومی رحمت اللہ علیہ ہے- جن کے بارے میں پیرزادہ بلال مخدومی نے جانکاری فراہم کی ہے- جہاں دریا ساوجیاں کے قریب قریب برلب سڑک دونوں جانب پہاڑوں کے درمیان سے آگے سرحدی علاقع شروع ہوجاتاہے- جس میں بیدار کھیت چھمبر گنتڑ سندری ساوجیاں میدان بریاڑی گلی میدان گگڑیاں وغیرہ سرسبزوشاداب مقامات ہیں – جو ہر موسم ایک نیا نظارہ پیش کرتے ہیں – یہاں سے قریب ہی ہمارے ملک اور پاکستان کا سرحد بھی ہے- ایک طرف سرحد دوسری جانب سرسبز مختلف قسم کے گھنے جنگلات گنگناتے لہلہاتے نظر آتے ہیں – سامنے کشمیر کو ملانے والی پہاڑیاں مَرگ جو سال بھر برف کی سفید چادر لپیٹے رکھتی ہیں – انہیں پہاڑیوں سے نکل کر جڑی بوٹیوں کی امیزش سے لبریز آبشاروں اور چشموں کا پانی بہتاہوا گگڑیاں میدان ساوجیاں گنتڑ چھمبر کھیت بیدار باغاں جالیاں آعظم آباد سے ہوتاہوا کنڈن کے مقام پر دریالورن میں مل جاتاہے-جو لورن اور ساوجیاں کے درمیان کی پہاڑی کی دوسری جانب سے مَرگ اور برفانی بلندوبالاپہاڑیوں سے نکل کر مختلف راستوں سے ہوتاہوا اگے بڑھتاہے- کٹھاں کْلیاں وانسی تریآڑ بڑی بہیک سے آنے والاسفید اور لزیز چشموں کا پانی چھپراں بَن ناگاناڑی ہِل براچھڑ سے ہوتاہوا لوہیل بیلہ میں دریالورن کے ساتھ مل جاتاہے- جو پلیرہ سے ہوتاہوا عمراباد کے مقام پر آڑائی کھٹہ کے ساتھ مل جاتاہے- جو جبّی توتی اندروالا سے نکل کر اپنے سے مزید چشموں کو ملاتاہوا بیساں والی چانو والالمی والا حویلی بیلی سکڑ مل سے ہوتاہوا اڑائی کھٹہ سے لورن کے دریامیں مل جاتاہے-دریائی سلسلہ ایک خوبصورت آبشاروں کا مجموعہ ہے- اس کے علاوہ لورن کی زیارت سائیں الہی بخش رحمت اللہ علیہ جہاں ساربھر زائیرین کا تانتاباندھارہتاہے- اس زیارت کی الگ شناخت یہ کہ یہاں ہندو سیکھ زائیرین بھی بڑی تعداد میں آتے ہیں اور عرس کے دوران الگ لنگر کا اہتمام بھی کرتے ہیں -اس کے علاوہ سڑک سے محروم چکھڑی میں حضرت پیر پستونی رحمت اللہ علیہ کا مزار موجود ہے- اس کے علاوہ متعدد زیارتیں اور بیٹھکیں اس منڈی کی سرزمین پر واقع ہیں لورن سے قریب میں ایک قدرتی آبشار جو ساراسال سیلانیوں کا مرکز رہتاہے- نندی چھول آبشار سے یاد کیا جانے والایہ مقام نہائیت صحت افزامقام ہے- لورن سے چار کلومیٹر سلطان پتھری سڑک پر ڈنہ کا خوبصورت میدان ہے- جہاں سیانسان لورن کے تمام گاوں کے علاوہ چکھڑی بن اڑائی اور دیگر برفانی پہاڑیوں کانظارہ کرسکتاہے- یہی پر بس نہیں – منڈی سے پانچ کلومیٹر دور اڑائی نام سے موسوم گاوں آباد ہے- جہاں پر مختلف مساجد اور جامعہ تعلیم کے علاوہ صدیوں پرانی زیارتیں بھی موجود ہیں جن میں زیارت عالیہ بخاریہ زیارت سید بہادر شاہ کے علاوہ بھاگ سر ڈھیریاں اور سنکھ میں بھی بیٹھکیں موجود ہیں – اڑائی کھٹہ سے داخل ہوتے ایسالگتاہیکہ یہاں کوئی آبادی نہیں ہوگی مگر جب انسان گاوں میں داخل ہوتاہے- تو آر پار نظر دوڑانے سے علاقع کی وسعت کا پتہ چلتاہے- یہ گاوں بیچ میں گزرنے والے نالاکے دونوں جانب آباد ہے- جو سرنکوٹ ہاڑی بائیلہ ہاڑی بڈھا موربن راجپورہ چکھڑی بن سے ملاہواہے- اس کا اکثر حصہ گھنے جنگلوں سے ڈھکہ ہواہے- اس کی چوٹیوں کے دامن میں گرمیوں میں سرسبزوشاداب اور سردیوں میں برف کے سفیدی سے مزین وسیع وعریض میدان ہیں – جن میں بھاگسر جبی توطی اندروالا رہوالا سنکھ گلی وغیرہ کے خوبصوتی میں بے مثال ہے – بس فرق اتناکہ ان مقامات پر قدرتی حسن وجمال قدرتی آبشار اور چشمے قدرتی پھول اور جڑی بوٹیاں قدرتی برف اور ہریالی قدرتی جنگلی پرندوں کی سریلی آوازیں کوئی قیمت چکاے بغیر ہمیں میسر ہیں – جس قدر یہ منڈی کا حسین وجمیل قصبہ خوبصورت ہے- اسی قدر حکومت کی نظروں سے اوجھل نہیں جان بوجھ کر آنکھیں بند ہیں – سیاسی قائیدین یا حکومت کے کارندے آنکھیں بند تو کرناان کی سابقہ روائیت ہے پر کرسی اور اقتدار کی حوس میں قدم بھی نہیں اٹھتے ہمارے اس دیار کی طرف آب جبکہ ملک بھی میں ایک ملک ایک قانون ایک جیسی ترقی ایک جیسا انصاف ایک ہر گھر تک پہونچانے کے اعلان سرعام ہورہیہیں – ایک اعلان ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے نام بھی ہوجاے تاکہ یہ علاقع سیاحت کے نقشہ پر دیکھاجاسکے- سیاحوں کی آمد کا مرکز بنے عوام کو توروزگار کے مواقع نصیب ہونگے پر ملک کی معیشت میں خاطر خواں اضافہ کا امکان ممکن ہے- کاش ایک نظر ادھر بھی دیکھ لیتے کہ میری سرزمیں کو سیاحت کی چاہت!!!
کس سے ہو اْمیدِ وفااور کون سنے فریاد اس چمن کی
میرے گلشن میں سبھی کچھ ہے پر نہیں جو وہ آپ کا خیال ہے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا