ہندو -مسلم اتحاد کی کامیاب کوشش پر انگریزوں نے بھی تختۂ دار پر لٹکایا تھاتحریر:
آنند پٹواردھن
ترجمہ و تبصرہ: عبدالعزیز
مسٹر آنند پٹواردھن ایک فلم ساز ہیں، انھوں نے بابری مسجد پر دستاویزی فلم بنائی ہے۔ اور اس وقت بنائی جب رام مندر کیلئے بدنام زمانہ ایل کے ایڈوانی نے رتھ یاترا نکالی تھی۔ آج (4دسمبر) ان کا ایک مضمون ’’1857ء سے اجودھیا کی کہانی‘‘ کے عنوان سے انگریزی روزنامہ ’دی انڈین ایکسپریس‘ میں شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں جو سب سے خاص بات ہے وہ یہ ہے کہ بابا رام چرن داس اور اَچھّن خان کا ہندو/ مسلم اتحاد کی کامیاب مساعی کا بابری مسجد اور رام چبوترے کے تعلق سے ذکر خیر ہے۔ دو قوموں کا اتحاد انگریزوں کو ایک آنکھ نہ بھایا۔انھیں غدارِ وطن قرار دے کر انگریزوں نے تختۂ دار پر لٹکا دیا۔ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ انگریزوں کی پالیسی ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کے خلاف ہندومسلم اتحاد کیلئے کوشش کی تھی۔ انگریزوں ہی نے رام مندر کا شوشہ چھوڑا تھا۔ ہندو بھائیوں کو سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر ان کے کان میں یہ بات ڈال دی تھی کہ بابری مسجد جس جگہ ہے وہیں رام کا جنم ہوا تھا۔ مضمون کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں: ایڈوانی نے جب ٹوئیٹا ایئرکنڈیشن ٹرک جس کا ڈیزائن بالی ووڈ کے مطابق تھا، رام کے نام پر رتھ یاترا نکالی تھی تو ہم نے اس کا پیچھا کیا تھا۔ یہ رتھ ہندستان کے مختلف دیہاتو سے گزرتا ہوا ہندو جنونیت پیدا کرتے ہوئے یہ چیختے چلاتے یاترا جاری تھی کہ رام مندر وہیں بنے گا جہاں اجودھیا میں بابری مسجد ہے۔ مسلم مخالف نعروں کی وجہ سے بہت سی جگہوں پر فسادات رونما ہوئے اور بہت سے لوگوں کا خون بہا۔ آخر میں ایڈوانی کو بہار میں گرفتار کیا گیا جس کی وجہ سے رتھ آگے نہیں بڑھ سکا، لیکن کارسیوک اجودھیا کی طرف آگے بڑھتے گئے ۔ 30 دسمبر1990ء کو ان لوگوں نے اجودھیا پہنچ کر دم لیا۔ بابری مسجد کے نقش و نگار اور کتبے سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ مغل بادشاہ بابر کے کمانڈر میر باقی نے 1528ء میں بابری مسجد کی تعمیر کی تھی۔ اس وقت بالمیکی رامائنا اسکالر یا پنڈت پڑھتے تھے جو سنسکرت جانتے تھے۔ اس کے بعد 16ویں صدی میں تلسی داس نے ’رام چرتر مانس‘ اَودھی ہندی زبان میں لکھا جو عام لوگوں کیلئے پہلی بار پڑھنے اور سمجھنے کے لائق ہوا۔ تلسی داس ایک غریب اور یتیم برہمن تھے جس کی وجہ سے رجعت پسند برہمنوں نے ان پر حملہ کیا۔ اپنی اس رزمیہ کو لکھنے کیلئے ان کو مسجدوں میں پناہ لینی پڑی۔ بادشاہ اکبر کے زمانے میں رام چرتر مانس کو گانے اور اس کی کارکردگی انجام دینے سے عوام میں کافی مقبولیت ہوگئی ۔ اسی زمانے سے رام مندر کی تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اکتوبر 1990ء میں کارسیوکوں کے پہنچنے سے پہلے ہماری فلم کے دو اشخاص اجودھیا پہنچے۔ ہم لوگوں نے وہاں رام کے نام پر20سے زیادہ مندروں کو دیکھا اور ہر ایک پنڈت اور پروہت اپنے اپنے مندر کو رام مندر کہتا تھا اور کہتا تھا کہ رام یہیں پیدا ہوئے۔ یہ اس لئے کہتا تھا کہ ان کے مندر کے زائرین کی تعداد زیادہ ہو اور انھیں چندہ بھی زیادہ ملے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ تلسی داس جس جگہ بیٹھ کر یعنی اجودھیا میں رامائن لکھا نہ تو رزمیہ میں اور نہ کسی اور جگہ لکھا ہے کہ رام مندر توڑ کر بابری مسجد کی تعمیر کی گئی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مندر-مسجد کا تنازعہ 300 سال تک نہیں تھا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میںلکھا ہے کہ برطانوی نو آبادیاتی حکومت کے زمانے میں 1856-57ء میں یہ تنازعہ پیدا ہوا۔ جب چھ فٹ کی دیوار مسجد سے متصل بنائی گئی اور وہاں رام چبوترہ کی بنیاد پڑی۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ یہ کام 1857ء ہی میں کیوں ہوا؟ اس کی وجہ ہے کہ آزادی کی پہلی جنگ انگریزوں سے 1857ء میں لڑی گئی۔ جب ہندو اور مسلمان جواں مردی کے ساتھ متحد اور منظم ہوکر انگریزوں سے لڑے اور تقریباً انگریزوں کو شکست دی۔ دوسرے الفاظ میں میدانِ جنگ میں ہندو اور مسلمانوں نے مل کر انگریزوں کو سبق سکھادیا اور اس کے بعد اجودھیا کا تنازعہ بھی ختم ہوگیا۔ سپریم کورٹ نے 1857ء کی تاریخ کو نہ جانے کیوں نظر انداز کیا کہ اسی سال برطانوی حکومت نے تنازعے کو جنم دیا۔ اور اس گہرائی میں بھی سپریم کورٹ نے اترنے کی کوشش نہیں کی کہ تنازعے نے جڑ کیوں نہیں پکڑی۔ ریکارڈ بتاتا ہے کہ 1856ء اور 57ء میں ہندو بابا رام چرن داس کی رہنمائی میں اور مسلمان اجودھیا کے مقامی زمیندار اچھن خان کی قیادت میں فرقہ وارانہ اتحاد قائم کیا۔ ہندو اور مسلمانوں میں یہ معاہدہ ہوا کہ مسلمان مسجد کے اندر نماز قائم کریں گے اور ہندو مسجد کے باہر رام چبوترے پر پوجا پاٹ انجام دیں گے۔ یہ اتحاد 23دسمبر 1949ء تک قائم رہا۔ 22/23 دسمبر 1949ء کی درمیانی رات کو چند ہندو شرپسندوں نے بابری مسجد کے اندر رام کی مورتی رکھ دی۔ ایک فلم کار کی حیثیت سے ہم نے ایک ایسے شرپسند کی گواہی لی ہے جس نے چند شرپسندوں سے مل کر مسجد کے اندر مورتی رکھی اور ہمیں بتایا کہ اس نے خواب میں دیکھا تھا کہ بھگوان رام مسجد میں پرکٹ (نمودار) ہوئے ۔ اس کو اس حرکت کی وجہ سے جیل جانے کی نوبت آئی لیکن جلد ہی اسے رہا کردیا گیا۔ اس نے یہ بتایا کہ کچھ سالوں کے بعد وشو ہندو پریشد نے ایک ویڈیو کی تقسیم گھر گھر میں کی جس میں دکھایا گیا کہ رام ایک بچہ کی شکل میں معجزاتی طور پر مسجد کے اندر نمودار ہوئے۔ مقامی ضلع کے مجسٹریٹ کے کے نائر نے لاء اینڈ آرڈر کے بہانے مورتی ہٹانے سے انکار کردیا۔ بعد میں اس نے جن سنگھ (جو اب ’بی جے پی‘ ہے) میں شمولیت اختیار کی اور پارلیمنٹ کا ممبر بنا۔ عدالت نے 1949ء میں جب سے مسجد میں مورتی رکھی گئی مسلمانوں کو مسجد میں نماز پڑھنے پر روک لگادی گئی۔ اس کے برعکس ہندو پجاریوں کو متعین کیا جو مسجد میں جاکر پوجا پاٹ کرتے تھے ، ان پجاریوں میں سب سے مشہور پجاری لال داس سے ہم نے انٹرویو لیا، جس نے 30 اکتوبر کو جب مسجد پر پہلا حملہ ہوا تو بہت افسوس کا اظہار کیا ۔ اس کا کہنا تھا کہ وشو ہندو پریشد اور آر ایس ایس کے عناصر نے رام مندر میں کبھی بھی پوجا پاٹ نہیں کیا۔ ان کی ساری تحریک اور مہم سیاسی اقتدار اور دولت کیلئے تھی۔ ایسی بہت سی بدعنوانیوں کا ثبوت اور مثال دھرم کے نام پر ان کے تعلق سے لوگوں میں مشہور ہے۔ 6 دسمبر 1992ء کو بی جے پی جب اتر پردیش میں حکومت میں تھی تو ہندو دہشت گردوں نے مسجد کو منہدم کر دیا۔ بہت سے مسلمان مارے گئے۔ جس میں امام کا وہ لڑکا بھی شامل ہے جو 1949ء میں مسجد میں آخری بار نماز ادا کی تھی۔ ایک سال بعد لال داس کا بھی قتل کردیا گیا ۔اس کہانی کا غمناک باب یہ ہے کہ اچھن خان اور بابا رام داس جنھوں نے برسوں بابری مسجد اور رام چبوترے کے تعلق سے ہندو مسلم اتحاد قائم کیا تھا، 1857ء میں انگریزوں نے آزادی کی جدوجہد میں شکست کھانے کے بعد دونوں کو غدارِ وطن کے قانون کے تحت پھانسی پر لٹکا دیا۔ 9 نومبر 2019ء کو ایسے لوگوں کو جنھوںنے ہماری قومی یادگار (بابری مسجد) کو منہدم کیا اور جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ برصغیر میں مارے گئے ان کو اپنے جرم اور گناہ کی سزا کے بجائے قانونی طور پر وہ انعام اور مقصد حاصل ہو گیا جس کے وہ متمنی تھے۔ سیکولر ڈیموکریسی بالآخر سپرد خاک کردی گئی۔ تبصرہ: فلم ساز آنند پٹواردھن کا مضمون مختصر ہے لیکن بابری مسجد کی شہادت اور مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی اور زیادتی کی پوری کہانی اس میں پڑھی جاسکتی ہے۔ مضمون جامع ہے اور مختصر ہے۔ اس لائق ہے کہ اسے عام لوگوں میں تقسیم کرایا جائے۔ مضمون انگریزی میں ہے جسے اردو کا جامہ بھی پہنا دیا گیا ہے۔ اردو اور انگریزی میں ایک ساتھ یا الگ الگ اسے پمفلٹ یا کتابچہ بنایا جاسکتا ہے۔ بابری مسجد کی تصویر بھی کتابچے یا پمفلٹ میں دی جاسکتی ہے۔ کتابچے کا عنوان اردو میں ’’بابری مسجد کی دوسری شہادت‘‘ اور انگریزی میں "Babri Masjid Demolition II” دیا جاسکتا ہے۔ فلمساز نے بابا رام چرن داس کو دو بار پھانسی دینے کا ذکر کیا ہے۔ ایک بار 1857ء میں جب انگریزوں نے قومی یکجہتی کی بنیاد پر غدارِ وطن قرار دے کر پھانسی دی تھی اور 9 نومبر 2019ء کو جب قانون شکن اور مجرمانہ حرکت کرنے والوں کو مسجد قانوناً سپرد کردی گئی تو دوسری بار ان دو بڑی اور عظیم شخصیتوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ قومی اتحاد، امن اور انصاف، سیکولرزم اور جمہوریت ، انسانیت و اخوت، محبت اور بھائی چارہ سب کو دفنا دیا گیا۔ مضمون نگار نے یہ لکھ کر قلم توڑ دیا۔ اس مضمون کے پڑھنے سے پہلے خاکسار نے انگریزی کے کئی مضامین کو جو مرتب کیا اور اس کا عنوان رکھا ’’بابری مسجد کی دوسری شہادت‘‘ ("Babri Masjid Demolition II”) تو ہمارے بعض ساتھیوں نے اعتراض کیا کہ کہیں یہ عنوان قانون کے خلاف نہ ہوجائے۔ آج جب میں نے فلمساز کا مضمون پڑھا تو مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ انھوں نے 9 نومبر 2019ء کو قومی اتحاد اور انصاف کی موت کا دن قرار دیا ہے۔ دو ہندو مسلم شخصیتوں کو ذکر کیا ہے جن کو انگریزوں نے محض اس لئے تختۂ دار پر چڑھا دیا کہ انھوں نے ہندو مسلم اتحاد اور یکجہتی کی کامیاب کوشش کیوں کی تھی۔ ملک کی بدقسمتی دیکھئے کہ آج بھی انگریزوں کے اس بنائے ہوئے قانون کو جس کو Sedition Act (غدارِ وطن) کہتے ہیں آج بھی ہندستانی دستور کا حصہ ہے جو ذرا بھی ہندو مسلم اتحاد کی کوشش کرتا ہے یا ماب لنچنگ کے خلاف بیان دیتا ہے اسے اسی قانون سے آج کی حکومت ڈرانے اورپس زنداں کرنے کی دھمکی دیتی ہے۔ اسی کا زمانہ ہے، اسی کے زمانے میں جبکہ یوپی میں اس کا اقتدار تھا اور مرکز میں آر ایس ایس ذہنیت کا کانگریسی وزیر اعظم تھا۔ عجب اتفاق ہے کہ آج بھی ان کی حکومت ہے اور انہی کے دورِ اقتدار میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آیا ہے۔ اقتدار تک پہنچنے کیلئے بابری مسجد کو زینے کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ پارلیمنٹ کی دو سیٹوں سے 303 سیٹوں پہنچ گئی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ آثار زوال کے بھی نظر آرہے ہیں۔ خدا کرے کہ ان کا مکمل زوال جلد ہوجائے اور بابری مسجد ان کا پیچھا کبھی نہ چھوڑے۔