26جنوری یومِ جمہوریہ کے موقع پر یومِ جمہوریہ کا جشن اور’ سیکولراِزم‘ کا مستقبل

0
0

اختر جمال عثمانی
بارہ بنکی

26 جنوری یومِ جمہوریہ سے چند روز قبل 22 جنوری 2024 کو منائے جانے والے ’ پران پرتشٹھا ‘ اور رام مندر کے افتتاح کے پروگرام میں اکژیت کی نہ صرف شمولیت اور عدیم المثال تھی بلکہ جوش و خروش بھی ایسا کہ کبھی نہ دیکھا گیا تھا۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس پیمانے پر عوام کی شمولیت یومِ آزادی اور یومِ جمہوریہ کے موقعوں پر کبھی نظر نہیں آئی۔ اس کی بنیادی وجہ لوگوں کو دانستہ طور پر اس مفروضے پر یقین دلا دینا ہے کہ پانچ سو سال قبل مغل شہنشاہ بابر نے ایودھیا میں رام چندر جی کے جائے پیدائش پر بنے مندر کو مسمار کر کے مسجد بنا دی تھی جس کی جگہ پر موجودہ حکمرانوںکی کاوشوں سے عظیم الشان مندر بنا دیا گیاہے اور بھگوان رام کا مجسمہ نسب کر دیا گیاہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے کہا کہ’’22 جنوری2024 محض کیلنڈر پر لکھی تاریخ نہیں ہے بلکہ ایک عہدنو کا آغاز ہے یہ وقت عام وقت نہیں ہے یہ وقت کی گردش پر کنندہ دائمی لکیریں ہیں‘‘۔ ظاہر ہے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے نتیجے میں تعمیر رام مندر کو اپنے دس سالہ دور حکومت کی سب سے بڑی حصولیابی بتانے کا مقصد اپنی حکومت کی ساری ناکامیوں کی پردہ پوشی کرتے ہوئے اگلے پارلیمانی الیکشن میں عوام کے سامنے جانا ہے۔ حکمراں پارٹی کے اکثر لیڈران ملک میں سیکولر آئین تبدیل کر کے ہندو راشٹر قائم کرنے کا لوگوں کو یقین دلاتے رہتے ہیں۔ ایسے مجوزہ ہندو راشٹر کو رام راجیہ کے مماثل قرار دیتے ہیں۔ چونکہ عوام میں رام کانام نہایت قابلِ احترام ہے اور رام راجیہ کو ایک بہترین حکومت تصور کیا جاتا رہا ہے اس لئے اب لوگ رام راجیہ کا خواب دیکھنے لگے ہیں۔ لیکن کوئی شخصی حکومت جمہوریت کا متبادل نہیں ہو سکتی خواہ اسے رام راجیہ کا نام ہی کیوں نہ دے دیا جائے۔ آزادی طویل جد و جہد اور بے حساب قربانیوں کا ثمرہ تھی۔ مجاہدین آزادی کے قافلہ سالار مہاتما گاندھی نے ایک بار اپنے خوابوں کے ہندوستان کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا تھا’ میں ایک ایسا ہندوستان بنانا چاہتا ہوں جس میں سماج کا غریب ترین آدمی بھی فخر کر ے، اسے یہ احساس ہو کہ اسے بنانے میں اس کا بھی ایک حصہ ہے، ایک ایسا ہندوستان بنانا چاہتا ہوں جس میں ذات پات کی بنیاد پر کوئی تفریق اور امتیاز نہ ہو ، ایسا ہندوستان جس میں سبھی اقوام ایک ساتھ امن و امان سے رہتے ہوں، چھوا چھوت کے لئے جس میں جگہ نہ ہو، عورتوں کو بھی وہی حقوق و تحفظ حاصل ہوں جو مردوں کو ہیں ۔ یہی میرے خوابوں کا ہندوستان ہے‘‘۔اب ایک ایسے آئین کی ضرورت تھی جو غلامی کے دور نکل کر آذادی کی فضا میں سانس لینے والے عوام کی امنگوں کے مطابق ہو۔چنانچہ آزاد ہندوستان کا آئین تیار کرنے کے لئے آزادی کے ایک سال قبل ہی سات ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گیء جسکے صدر ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر بنائے گئے۔ کڑی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ کام کرتے ہوئے تقریباََ تین سال کا عرصہ لگا دستور کو تیار ہونے میں۔ دستور ساز اسمبلی میں دستور کی ہر ہر شق پر طویل بحث کے بعد 26 نومبر1949کو اسے منظور کیا گیا۔24 جنوری1950 کو اس پر ارکان نے اس پر دستخط کردئے ۔
بہر حال 26جنوری 1950کو یہ نیا آئین لاگو ہوا۔ اس دن کو پہلا یومِ جمہوریہ منایا گیا۔ اس کے بعد سے ہر سال چھبیس جنوری کو یومِ جمہوریہ بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا رہا ہے ۔ عظیم قومی رہنمائوں نے جو آئین مرتب کیا تھا اس کی بنیاد جمہوریت اور کثرت میں وحدت ( unity in diversity) پر ہے اس لئے ایک ایسا دستور بنایا گیا کہ سماج میں انصاف قائم ہو اور آپس میں بھائی چارہ بنا رہے۔ اس کی شروعات ہی’’ ہم بھارت کے لوگ ( we the people of india ) سے کی گئی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اقتدار کے اصل مالک عوام ہی ہیں۔ بلا کسی امتیاز کے عوام کو ووٹ کے ذریعے اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرنے اور ان کو تبدیل کرنے کا حق ہے۔ آئین اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ ہر شہری کے ساتھ زندگی کے ر شعبے میں انصاف کیا جائے گا۔کسی بھی عقیدہ پر قائم رہنے، کوئی بھی مذہب اختیار کرنے، یا ترک کرنے ، عبادت کا کوئی بھی طریقہ اختیار کر نے اور اپنے خیالات کے اظہار کرنے میں ہر فرد کو آزادی حاصل ہے ۔یہ دنیا کا تحری طور پرطویل ترین دستور ہے۔ بنیادی حقوق کے سلسلے میں ایک چیپٹر موجود ہے جس میںشہریوں کے چھ بنیادی حقوق مساوات کا حق، آزادی کاحق، استحصال کے خلاف حق، مذہبی آزادی، تعلیمی اور ثقافتی آزادی اور چارہ جوئی کا حق شامل ہیں۔ یہ تمام حقوق مذہب ، ذات ، رنگ،جنس ، علاقہ یا زبان کی بنیاد پر تفریق نہ کرتے ہوئے ہر شہری کو یکساں طور پر حاصل ہیں۔ اقلیتوں کو دئے گئے تعلیمی اور ثقافتی حقوق کے لئے دفعہ 29اور30 میں وضاحت کی گئی ہے ان کی زبان تہذیب اور ثقافت کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا ہے۔ انھیں زندگی کے مختلف شعبوں میں آگے بڑھنے اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور انھیں چلانے کی آزادی حاصل ہے۔ ملک کے ہر شہری کو کوئی بھی مذہب اختیار کرنے اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا بھی اختیار آئین نے دیا ہے۔ ایک طبقہ تو ملک کے سیکولر آئین کو تبدیل کر کے ایک مذہبی ہندو راشٹر قائم کرنے کا خواہش مند ہے ۔ ا۔ ٔ۱۹۴۷؁ء میں ہی سینٹرل پراونسس ( اب مدھیہ پردیش) کے وزیر اعلیٰ روی شنکر شکلا فرما چکے تھے ’’ ہندوستان کو ہندو راشٹر بن جانا چاہئے ہندئوں اور غیر مسلموں کو آئینی عہدے ملنے چاہئے، جو لوگ ہندو ثقافت پر یقین نہیں رکھتے انھیں کوئی سرکاری عہدہ نہ دیا جانا چاہئے۔‘‘
جہاں تک سیاست دانوں کا سوال ہے آئینی تقاضوں کو پورا کرنے کا حلف لینے کے باوجود نفرت انگیز تقریریں کرتے ہیں۔ عوامی فلاحی کاموں کے بارے میں بھی ان کا رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے وہ راجا مہا راجا ہیں اور عوام کو خیرات دے رہے ہیں۔جمہوری حکومتوں کا طرز عمل تانا شاہوں جیسا ہوتا ہے جن طبقات کے مسائل کو لے کر قانون سازی کی جاتی ہے ان کی مرضی یا مشورے کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ ’’ ہندوستان ‘‘ نام صدیوں سے چلا آرہا ہے اور اسکے معنی ہی ہیں ہندئوں کا ملک، واضح ہو کہ صدیوں تک مسلمان سلطانوں اور بادشاہوں کی حکومت کے باوجود ملک کا نام ہندوستان ہی رہا۔ہندو راشٹر کا موجودہ تصور ابھی پچھلی صدی کا ہے ہندو مہا سبھا کے لیڈر ساورکر اس کے سب سے بڑے علم بردار تھے۔ یہ تصور تعلیم یافتہ ہندئوں کے لئے بہت پر کشش تھا۔ ایک اسلامی ملک کی حیثیت سے پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو کے زیرِ اثر یہ ملک سیکولر بنا تو لیکن ہندو راشٹر کے خواہش مند افراد کا دائیرہ وسیع ہوتا گیا۔ اس راہ میں میں سب سے بڑی رکاوٹ سیکولرازم اور مسلمان سمجھے گئے اس لئے معتوب ٹہرے۔اکثریتی طبقے کے ایک بڑے حصے کے ذہنوں میں یہ سوال بٹھا دیا گیا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم ہونے کے بعد ہندوستان کو ہندو راشٹر کیوں نہیں بنایا گیا۔اس کے لئے اس دور کے عظیم قومی رہنمائوں میں سب سے زیادہ مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو کی تذلیل کی جاتی ہے بلکہ سوشل میڈیا پر ان کی کردار کشی کی لگاتار مہم چلائی جا رہی ہے آر ایس ایس جو شروع سے اس مقصد کے حصول کے لئے کوشاں تھی رام مندر تحریک نے اسے بامِ عروج پر پہونچا دیا اور اسکا سیاسی بازو کہی جانے والی پارٹی بی جے پی کی مقبولیت بڑھتی گئی، الیکشن در الیکشن فتوحات حاصل کرتے کرتے یہ پارٹی مرکز اور دیگر بہت سی ریاستوں میں حکمراں ہے۔ اور اب نوبت یہاں تک پہونچ گئی ہے کہ کوئی اپوزیشن لیڈر بھی سیکولرازم یا مسلمان کا نام اس خوف سے لینے کو تیار نہیں کہ اکثریت کا ووٹ نہ گنوانا پڑے۔ کانگریس پارٹی بھی ان حالات میں خود کو مجبور پا کر نرم ہندتوا کی سیاست کرتی نظر آتی ہے۔ بی جے پی کو مرکزی حکومت میں دو تہائی سے زیادہ اکثریت حاصل ہے اس لئے وہ آئین میں کسی بھی طرح کی تبدیلی لانے کی مجاز ہے، اگلے پارلیمانی ا نتخابات کے بعد پارٹی کو دونوں ایوانوں میں بہت بڑی اکثریت حاصل ہونے کی امید ہے ۔ان حالات کے تناظر میں ملک کوہندو راشٹر قرار دئے جانے کا امکان بہر حال موجود ہے۔ کیا مجوزہ ہندو راشٹر میں بھی ملک کے ہر شہری کو حاصل آئنی حقوق کو بر قرار رکھا جائے گا؟
آنکھوں پر پڑا مذہبی انتہا پسندی کا پردہ یہ سوچنے کی مہلت ہی نہیں دیتا کہ اگر مذہبی مملکت قرار دینے سے مسائل حل ہو سکتے توآج پاکستان کی یہ حالت نہ ہوتی ۔گاندھی جی کے قتل کے بعد جب ملک میں فرقہ پرستی کے خلاف شدید جذبات تھے تو فرقہ پرستوں کی اصلیت عوام کے سامنے لانے اور فرقہ پرستی کی بیخ کنی کرنے کا موقع ضائع کر دیا گیا اور کچھ ہی عرصے بعد انکو نئے سرے سے منظم ہونے اور اپنا دائرہء اثر بڑھانے کا موقع مل گیا۔ او ر آج نوبت یہاں تک آ پہونچی ہے کہ ملک میں سیکولرازم کا مستقبل ہی غیر یقینی نظر آنے لگا ہے ۔
Mb.9450191754, )

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا