یواین آئی
نئی دہلی؍؍چین نے مغربی میڈیا میں صوبہ شنزیانگ میں ایغور مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کی رپورٹوں کو بے بنیاد، منفی اور دوہرے معیار کا ثبوت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو یقین ہے کہ شنزیانگ میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ کرنے کی کوششیں اقوام متحدہ کی پالیسیوں کے تحت ہو رہی ہیں اور لوگوں کے تمام قانونی حقوق محفوظ ہیں۔چینی سفارت خانے کی طرف سے یہاں جاری ایک بیان میں ہندوستان میں چین کے سفیر سن ویڈونگ نے [؟][؟]یہ باتیں کہیں۔ مسٹر سن ویڈونگ نے [؟][؟]کہا کہ حال ہی میں کچھ مغربی میڈیا تنظیموں نے شنزیانگ سے کچھ نام نہاد لیک دستاویزات کی بنیاد پر اور صوبے میں کاروباری تعلیم اور تربیت کو لے کر بڑھا چڑھا کر رائے پیش کی ہے ۔ ان کے منفی رویہ کایہ ثبوت ہے کہ وہ انسداددہشت گردی اور تعصب کے خاتمے کے اقدامات کو لے کر دوہرا معیار اپنا رہے ہیں اور شنزیانگ سے متعلق معاملات کا استعمال چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے لئے کر رہے ہیں۔سفیر نے کہا کہ شنزیانگ کا موضوع مکمل طور پر چین کا گھریلو معاملہ ہے ۔ اس کامعاملہ نسل، مذہب یا انسانی حقوق سے منسلک نہیں ہے بلکہ تشدد، دہشت گردی اور علیحدگی پسندی سے نمٹنے کو لے کر ہے ۔ سال 2015 سے چین نے شنزیانگ میں انسداد دہشت گردی اور کٹر پن کے خاتمے کی کوششوں اور کاروباری تعلیم و تربیت کے کاموں پر سات قرطاس ابیض جاری کئے ہیں جن میں بہت واضح طور پر اور تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ شنزیانگ میں کیا ہو رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ صوبے میں کاروباری تعلیم و تربیت کے مراکز قانون کے مطابق ہی قائم کئے گئے ہیں اور وہ کہیں بھی نظر بندی کے کیمپ نہیں ہیں۔ تربیت حاصل کرنے والوں کو تمام قانونی حقوق مکمل طور پر محفوظ ہیں اور ان کی آزادی پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔ شنزیانگ میں گزشتہ تین سال سے کوئی پرتشدد دہشت گردانہ حملہ نہیں ہوا ہے اور اب وہاں تیزی سے اقتصادی ترقی ہو رہی ہے ، سماجی استحکام، نسلی اتحاد اور مذہبی ہم آہنگی بڑھ رہی ہے ۔ لوگوں کی زندگی، صحت اور ترقی اور دیگر حقوق محفوظ کئے گئے ہیں اور حکومت کے اقدامات پر تمام فرقہ کے گروپوں نے حمایت کی ہے ۔مسٹر سن ویڈونگ نے [؟][؟]کہا کہ گزشتہ ایک سال میں ایک ہزار سے زائد غیر ملکی سفارت کاروں، بین الاقوامی تنظیموں کے افسران اور 90 سے زائد ممالک کی میڈیا نے ان پیشہ ورانہ تربیت کے مراکز کا جائزہ لیا ہے اور ان میں سے زیادہ تر نے کہا ہے کہ شنزیانگ کی مثال دہشت گردی سے نمٹنے اور انسانی حقوق کی حفاظت کے لئے اقوام متحدہ کی پالیسیوں کے مطابق ہے اور دیگر ممالک اس سے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ چین حکومت شنزیانگ کے ایغور اور دیگر نسلی اقلیتوں سمیت تمام چینی شہریوں کے مذہبی عقیدہ کی آزادی کی حفاظت کرتی ہے ۔ چین میں تقریبا 20 کروڑ مختلف مذہبی عقائد میں یقین کرنے والے لوگ آباد ہیں جن میں دو کروڑ مسلم اور تین لاکھ 80 ہزار علما ہیں۔تقریباً ساڑھے پانچ ہزار مذہبی گروپ ہیں اور ایک لاکھ 40 ہزار مذہبی عبادت گاہیں ہیں۔ شنزیانگ میں تقریباً 24 ہزار 400 مساجد ہیں یعنی ہر 530 مسلمانوں پر ایک مسجد ہے ۔چینی سفیر نے کہا کہ پورے چین میں مکمل طور پر عدالتی عمل کی پیروی ہوتی ہے ۔ شنزیانگ میں عدالتی ادارے مجرمانہ ملزمان کو آئین و قانون کے مطابق خاص طرح سے رکھتی ہے ۔ چین کے شہریوں کی رازداری اور مواصلات کی آزادی قانون کے تحت محفوظ ہے ۔ عوام کی نگرانی اور مواصلات پابندی اس صوبہ میں کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ صوبہ اس بات کی مثال ہے کہ دہشت گردی سے مقابلہ قانون کے دائرے میں کرتے ہوئے لوگوں کے تحفظ، سماجی ہم آہنگی اور استحکام کے حقوق کے مؤثر تحفظ ہو سکتی ہے اور اس طرح سے لوگوں کو خوش اور محفوظ رکھا جا سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ چین شنزیانگ میں پالیسی کا نفاذ جاری رکھے گا اور علاقے کو مجموعی ترقی کو یقینی بنائے گا۔