معمولات زندگی کہیں نصف دن تک تو کہیں نصف دن کے بعد بحال
سری نگر؍؍وادی کشمیر میں گزشتہ 121 دنوں سے جاری غیر یقینی صورتحال اور اضطرابی کیفیت کے بیچ منگل کے روز بھی معمولات زندگی کی رفتار جوں کی توں رہی۔ شہر سری نگر کے تمام علاقوں میں دوپہر کے بعد بازار بند ہوئے جبکہ دیگر اضلاع میں کہیں دوپہر تک تو کہیں دوپہر کے بعد بازاروں میں رونق رہی تاہم ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل میں دن بھر کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔بتادیں کہ مرکزی حکومت کی طرف سے جموں کشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے فیصلے کے خلاف وادی میں گزشتہ چار ماہ سے اضطرابی کیفیت سایہ فگن ہونے کے بیچ غیر اعلانیہ ہڑتال کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔وادی کے گوشہ وکنار میں منگل کے روز بھی جوں کی توں صورتحال سایہ فگن رہی اور معمولات زندگی دن میں کہیں دوپہر تک تو کہیں دوپہر کے بعد بطور کلی بحال رہے۔شہر سری نگر کے پائین وبالائی علاقوں بشمول تجارتی مرکز لالچوک میں صبح کے وقت بازاروں میں چہل پہل بام عروج پر رہی تاہم دوپہر کے بعد بازاروں میں تمام دکانیں یکایک مقفل ہوئیں۔عینی شاہدین نے بتایا کہ سری نگر کی تمام چھوٹی بڑی سڑکوں پر چھاپڑی فروش صبح سے لے کر شام تک ڈیرا زن رہے۔ وادی کے دیگر اضلاع و قصبہ جات میں منگل کے روز بھی کہیں دوپہر تک تو کہیں دوپہر کے بعد بازار کھلے رہے بعض قصبہ جات سے دن بھر بازاروں میں بیشتر دکانیں دن بھر کھلے رہنے کی اطلاعات ہیں۔وادی کی سڑکوں پر ٹرانسپورٹ کی بھرپور نقل وحمل برابرجاری ہے اگرچہ ٹرانسپورٹ کا بیشتر حصہ نجی گاڑیوں کا ہے لیکن پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی دن بہ دن اضافہ درج ہورہا ہے سومو اور منی بسوں کے ساتھ ساتھ اب بڑی بسیں بھی چلنا شروع ہوئی ہیں۔عینی شاہدین نے بتایا کہ گزشتہ دنوں سے کئی علاقوں میں نجی اسکولوں کی گاڑیاں بھی نمودار ہونے لگی ہیں اور روز بروز ان کی نقل وحمل میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔وادی میں اگرچہ فون خدمات جزوی اور ریل خدمات کو کلی طور پر بحال کیا گیا ہے تاہم انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس خدمات کی بحالی، سماج کے مختلف طبقوں کی طرف سے آواز بلند کرنے کے باوجود بھی، کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔قابل ذکر ہے کہ انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس خدمات کی مسلسل معطلی سماج کے مختلف شعبوں سے وابستہ لوگوں بالخصوص صحافیوں، طلبا اور تاجروں کے لئے سوہان روح بن گئی ہے۔ایک صحافی نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ سماج کے مختلف شعبوں سے وابستہ لوگوں کی طرف سے انٹرنیٹ کی بحالی کے بار بار مطالبے کے باوصف اس ضمن میں انتظامیہ کی سرد مہری باعث حیرانگی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک طرف وادی میں حالات نارمل ہونے کا ڈھندورا پیٹا جارہا ہے تو دوسری طرف انتظامیہ صرف براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس بحال کرنے پر بھی راضی نہیں ہے۔مین اسٹریم سیاسی جماعتوں سے وابستہ وادی کے بیشتر سیاسی لیڈران جن میں تین سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی مسلسل نظر بند ہیں اگرچہ انتظامیہ نے ایک طرف سیاسی لیڈروں کی مرحلہ وار رہائی کا سلسلہ شروع کیا ہے تو وہیں سردی کے پیش نظر حالیہ دنوں 33 سیاسی لیڈروں کو سنتور ہوٹل سے مولانا آزاد روڑ پر واقع ایم ایل اے ہوسٹل منتقل کیا گیا۔ذرائع کے مطابق سردی کے پیش نظر ایم ایل اے ہوسٹل میں محبوس لیڈروں کو اپنی رہائش گاہوں میں منتقل کرنے کا امکان ہے۔مزاحمتی لیڈران بشمول سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق بھی مسلسل خانہ یاتھانہ نظر بند ہیں۔ادھر سری نگر۔جموں قومی شاہراہ آئے روز بند رہنے کی وجہ سے جہاں ہوائی کرایہ میں اضافہ درج ہوا ہے وہیں اشیائے خورد ونوش کی بیشتر چیزوں کی قیمتیں آسمان پر ہیں۔