ریپ کو معاشرے کے لئے ناقابل برداشت عمل قرار دیتے ہوئے اسے عالمی سطح پر غیر قانونی قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ نے کہا کہ ہے کہ زیادہ تر ریپ کے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہوتا یا انہیں سزائیں نہیں ہوتی ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر فمزیلے ملامبو نے خواتین پر تشدد کے خاتمہ کے لئے منائے جانے والے عالمی دن کے موقع پرگذشتہ روز کہا کہ دنیا کے اس وقت نصف سے زائد ممالک میں ‘ازدواجی ریپ’ یا ‘مرضی کے اصولوں کے مخالف’ ہونے والے ریپ کو مجرمانہ عمل قرار دینے کے قوانین موجود نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘‘ریپ کرنے والوں کے احتساب کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام کو اس طرح کے واقعات کی تحقیقات کرنے کی صلاحیت کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے ، اس کے علاوہ متاثرین کے ساتھ تعاون کے لئے کرمنل جسٹس پراسیس کے ذریعہ میکانزم تیار کیا جانا چاہئے جس کی رسائی قانون، پولیس اور انصاف کی فراہمی کے نظام سمیت صحت اور سماجی سروسز تک ہو’’۔ ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر ان کی ایک خواہش پوری ہوسکے تو وہ دنیا سے ریپ کے خاتمہ کی خواہش کریں گی۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ‘‘ریپ تنہائی میں کیا گیا مختصر سا عمل نہیں بلکہ اس کی وجہ سے جسمانی و ذہنی نقصانات ہوتے ہیں، اس سے زندگیاں تبدیل ہوجاتی ہیں اور اس کے دیرینہ اور تباہ کن اثرات اہلخانہ، دوست، شراکت داروں اور دیگر افراد پر بھی ہوتے ہیں’’۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے خواتین میں حملہ یا کلنک کا خوف پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ برادری کو چھوڑ بھی سکتی ہیں اور ایسی صورتحال میں خواتین یا لڑکیاں غیر محفوظ ٹرانسپورٹ اور غیر محفوظ زندگی کے حالات سے گزرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔دوسری جانب کم عمر میں کی گئی شادیوں کی وجہ سے جوان سال لڑکیوں کو ازدواجی ریپ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کے بعد وہ وہاں سے بھاگنے اور کہیں پناہ لینے کی خواہش مند ہوتی ہیں۔ ان کے بیان میں کہا گیا کہ ‘‘دنیا کے کئی ممالک میں موجودہ، سابقہ شوہروں، شراکت داروں یا بوائے فرینڈ کی جانب سے خواتین پر جنسی تشدد کا خدشہ ہے ، لاکھوں لوگوں کے لئے گھر محفوظ جگہ نہیں ہے ’’۔ ان کا کہنا تھا کہ جرائم زیادہ تر رپورٹ نہیں ہوتے یا ملزمان کو سزا نہیں ہوتی کیونکہ اس کے لئے متاثرین کا سامنے آنا بھی ضروری ہوتا ہے جبکہ متاثرین کے لئے اہم چیز انہیں حوصلہ دیا جانا، انہیں کہاں جانا چاہئے اس کی معلومات دینا اور واقعہ کے بعد زندگی دوبارہ جینا سکھانا شامل ہے ’’۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘کئی ممالک میں خواتین سمجھتی ہیں کہ جب وہ جنسی تشدد کا واقعہ رپورٹ کریں گی تو ان کی بات پر یقین نہیں کیا جائے گا اور الٹا ان ہی کو قصوروار ٹھہرایا جائے گا’’۔ بیان کے مطابق‘‘بہت کم خواتین ایسی ہیں جو ریپ کے بعد ماہرین کی مدد طلب کرتی ہیں اور ان میں سے صرف 10 فیصد ہی پولیس کے پاس جاتی ہیں’’۔ ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کامزید کہنا تھا کہ اس مسئلہ کے حل کے لئے اقوام متحدہ نے پولیس میں خواتین کی تعداد میں اضافے کی تجویز بھی دی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘‘پولیس میں خواتین کی تعداد کے اضافے اور ان کی تربیت اہم ہے تاکہ متاثرین کا بھروسہ بحال ہوسکے اور انہیں احساس ہو کہ ان کی شکایت پر ہر مرحلہ میں سنجیدگی سے عمل کیا جائے گا’’۔ انہوں نے مزید کہا کہ‘‘جو ریپ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ کتنا طاقتور ہتھیار ہے جس سے متاثرہ شخص ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ اس کی آواز کو بھی دبایا جاتا ہے ۔