ڈاکٹر مجیر احمد آزاد
اردو غزل مواد وموضوع کے اعتبار سے کافی توانا ہو چکی ہے۔ روح عصر کو اپنے اندر جذب کرنے اور اجالنے میں اس کافر ادا صنف سخن کاکوئی ثانی نہیںہے۔ اکیسویں صدی میں غزلوں کے اشعار ہماری منھ بولتی تصویریں ہیں۔عصری موضوعات سے اس کا دامن کشادہ ہے تو ان موضات جن پر کبھی خزاں نہیں آسکتی کو بھی زیور شاعری سے آراستہ کیا جا رہا ہے۔واردات قلب اور حسن و عشق کے جذبے کا بیان اردو غزل کی روایت رہی ہے۔ہر دور میں شعراء نے اسے اپنایا اور قاری کا وسیع حلقہ اس دام میں گرفتار رہا ۔آج جب زندگی کی پیچیدگیاں ناک تک پہنچ چکی ہیں ،انسان ہر سو مسائل سے گھرا ہوا ہے ،رفتار زندگی بن چکی ہے، تو جذبۂ حسن و عشق سے آراستہ شاعری کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ایسے میں نوجوان شاعر منصور خوشتر کے شعری سرمایے میں اپنی پسند کا موضوع پاکر میں مسرت و شادماںلمحوں سے سرشار ہوں۔یہ جذبہ ان کی شاعری کا شناخت نامہ نہیں تو ان کی پہچان کا طاقت ور وسیلہ ضرور ہے ۔ ان کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ زندگی محبت کے بغیر کتنی بے رس ہے۔فی زمانہ جب دنیا جہان کے موضوعات ہمارے روبرو ہیں تب شاعر کی نگاہ جاناں اور جانجاناں کی جانب بھی ہے تو کہنے میں آسانی ہو رہی ہے کہ یہ جذبہ فطری میلانات کے اثرات کا نتیجہ ہے۔ شاعر کو جذبۂ محبت کو بیان کرنے والا اور واردات قلبی کو لفظوں کا پیرہن عطاکرنے والا فن کار کہنے کو جی چاہتا ہے۔ان کا دل محبتوں سے لبریز ہے۔وہ محبت کو زندگی کا منبع و مقصد مانتا ہے ۔لفظ محبت کو جن معنوں استعمال کریں ،اس کے جس روپ سے آشنائی ہو ،اس کا کوئی گوشہ ہو ،اس کو مجازی مطلب سے پرکھیں یا حقیقت کی دنیا میں تپائیں۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت محبت ہے اور اس جذبے کو شاعری کرنادل والوں کا شیوہ ہے۔منصور خوشتر کی غزل کے چند اشعار پیش ہیں جس کے تمام اشعار رنگ تغزل سے بھرپور اور دلی کیفیت کے آئینہ دار ہیں۔ آپ جب مسکرائے ،غزل ہوگئی کچھ قریب اور آئے غزل ہوگئی توڑکر اپنے گلشن سے تازہ گلاب میری خاطر وہ لائے غزل ہوگئیلب پہ فریاد تو دل میں سو اضطراب اشک آنکھوں میں آئے غزل ہوگئی وائے محرومیاں، ہائے مجبوریاں درد دل میں دبائے غزل ہوگئی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شاعر کی فکری اساس کی بنیاد عشق ہے ۔ان کے نزدیک مسکرانا،قریب آنا،تازہ گلاب پیش ہونا،توبہ شکن انگرائی لینا وغیرہ محبوب کی دلفریب ادائوں سے محظوظ ہونا فطری عمل ہے لیکن اپنے محبوب کی نازو ادا کو غزل سے تعبیر کر کے انہوں نے اس جذبے کو وقار عطا کیا ہے۔ان کی مذکورہ غزل میں اپنے صنم کو چاہنے اور اس کی مسکراہٹ پر جان و دل نچھاور کرنے کی کیفیت حاوی ہے ۔درجہ ذیل اشعار میں محبوب کا مسکرانا اور دل میں شورش طوفان بپا ہونا ،مشکلیںاٹھا کر محبت نبھانا،غم عشق کا چھپانا،بے وفا کے نام پر ان کا شرمانا،بڑے ہی سلیقے سے باندھا گیا ہے جو ان کی خوش فکری کی علامت ہے:۔مسکرا کر اس نے دیکھا ہی تو تھا دل میں کیوں ہے شورشِ طوفان کچھ مشکلیں جاں پہ کیا کیا اٹھاتے رہے پر محبت بھی ہم ہی نبھاتے رہے کیسے چھٹکارا پاتے غمِ عشق سے درد ،درماں ہی سے جب چھپا تے رہے یہ کسی اک بے وفا کا ذکر تھا سن کے لیکن آپ کیوں شرما گئے ان کے بیاض میں شامل ایک غزل میرے اس خیال کو تقویت پہنچاتی ہے کہ ان کے یہاںواردات عشق کے بیان سادگی اور برجستگی ہے ۔وہ واقعات اور ماجرا والی کیفیات کو بھی غزل میں پروتے ہیں ۔ گمان ہوتا ہے کوئی نظم پڑھ رہے ہوں ۔شایداس کی وجہ کسی موضوع خاص کا تسلسل سے ذہن میں آنا اور اس کو بیان کرکے سکون دل حاصل کرناہے۔درجہ ذیل غزل کے اکائی خیال میں صداقت ہو سکتی ہے ،ممکن ہے جوجوانوں کے عشق میں جو مراحل ہوتے ہیں اس سے مشابہت ہو اور ایسا بھی ممکن ہے کہ شاعر نے اس تجربے کو عالم تخیل میں بھوگا ہو ۔مگر میری مدعا یہاں شاعر کے احساسات و جذبات سے ہے جو ان کی شاعری کا نمایاں پہلو قرار پاتاہے(یہ میری ذاتی رائے ہے )اور اس قبیل کے اشعار ان کے یہاں بہ آسانی دستیاب ہوجاتے ہیں ۔غزل مسلسل سے رو برو ہوئیے:ایک خط آج سرِ شام کسی کا آیا دل بیتاب کی خاطر وہ تسلی لایا میں نے ارمانوں کی بنیاد بنایا اس کو گلشن ِ شوق کو بھی جس سے شگفتہ پایا جلد ہی اس سے ملاقات کی ٹھانی میں نے تحفہ کچھ دینے کو بازار سے جا کر لایا
منصور خوشتر کے یہاں ترکیب کا استعمال ہنر مندی سے کیا گیا ہے ۔کوچۂ یار ،شہر صنم ،دیدۂ نم ،کی ترکیب کا حسن ملاحظہ کیجئے: کو چۂ یار کے اب جور و ستم یاد نہیں شوقِ دل ،راہ گذر، شہرِ صنم یاد نہیں ہائے وہ تیری محبت ، ترا اظہار وفا التجا کر تے ،ترے دیدۂ نم یاد نہیں اپنے محبوب کو پالینے کی خواہش ان کے دل میں مچل رہی ہے ۔یہ معصوم تمنا ان کا اثاثہ ہے جس کی بنیاد پر وہ سچا عاشق کہلانے کا حق رکھتے ہیں۔چاند پر گھر بسانا ،محبت بھرے نغمے سنانا،دلہن بنانا وہ خواہشیں ہیں جسے سنکر نوجوانوں کے دل مچل جائیں۔یہ شاعری عمر خاص کے لئے عزیز تو ہے ہی ساتھ ساتھ سادگی اور عشقیہ جذبات کی پیش کاری کے سبب سبھی کو متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے نیز شاعر کے فکری ابعاد میں ایک خوش کن گوشے کو دریافت بھی کرتی ہے:۔ چاند پر ہم بھی خرید یں گے جگہ گھر نبائیںگے ،بسائیں گے تجھے جو یہاں لکھی غزل تیرے لئے ہم وہیں اُس کو سنائیں گے تجھے چاند کے ہی لوگ ہوں گے میہماں جانِ من! دلہن بنائیں گے تجھے محبت میں جو وارفتگی اور سپردگی ہوتی ہے اس میں کوئی شرط و شرائط نہیں ہوتی بلکہ کسی میں خود کو ضم کر دینے کا جذبہ ہوتا ہے۔عاشق کے لئے صرف اس کا معشوق ہی محور و منبع ہوتا ہے۔وہ ہرہر طریقے سے معشوق کو اپنی دلی کیفیت ظاہر کرنا چاہتا ہے ۔اس کی نگاہوں میں ہر سو اسی کا چہرا ہوتا ہے ۔اس کے اعمال و افکار میں بھی معشوق کو اس طرح مرکزیت حاصل ہو جاتی ہے کہ اس کے علاوہ کچھ دکھائی بھی نہیں دیتا ہے۔رات دن پھرتی نگاہوں میں ہے تیری صورتاپنی صور ت بھی نہیں اب رہی اپنی صورتحسن کے شہر میں محر اب پہ لکھا دیکھا دل کو جو بھائے وہی سب سے ہے اچھی صورت منصور خوشتر کی شاعری میں عاشق کے دل کا جذبہ جب اظہار کا روپ لے لیتا ہے تو اس کی دلکشی دیکھتے ہی بنتی ہے ۔ایک سچے عاشق کا اپنے معشوق سے مکالمے کا یہ انداز اچھوتا ہے اور متاثر کرتا ہے۔چند اشعار ملاحظہ کیجئے: توہے محفل کی دلکشی اے دوست تجھ سے میری ہے زندگی اے دوستاک اشارے پہ تیری ہے موقوف میرا غم یا مری خوشی اے دوست ان کی شاعری میں حسن و عشق کے جذبات کا بیان متاثر کرتا ہے۔اس بارے میں ڈاکٹر عطا عابدی کی رائے میرے خیال کو تقویت پہنچاتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ’’غم جاناں سے متعلق اشعار خوشتر کے یہاں بہت ہیں،لیکن وہ سب عمر کے فطری تقاضے کے سبب ہیں۔ اس تعلق سے اہم بات یہ ہے کہ ایسے معاملے میں بھی شاعر شائستگی اور بیدار ذہنی کا ثبوت دیتا ہے۔‘‘ محبت شاعر کے لئے آلام و مصائب کا سبب ہے۔وہ ’’دل دیا درد لیا ‘‘ کی حقیقت سے آشنا ہیں۔ جب انہوں نے رشتہ ٔدل جوڑا تو محبوب انہیں گلوں کی نرمی کے بجائے خاروں کی چبھن سی لگی اس لئے جب یہ رشتہ منقطع ہوا تو اسے آرام و سکون کا احساس ہوا۔اس دشمن جاں کی وفا کی اسیری کو وہ اس طرح یاد کرتے ہیں۔ رشتہ ٹوٹا جب سے اک گلفام سے اب گزرتی ہے بڑے آرام سے دشمنِ جاں کی وفا کا تھا اسیر روز و شب تھا واسطہ آلام سے ان کے یہاں محبت کا رجائی پہلو ابھرتا ہے تو ایک ٹیس کا احساس ہوتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ محبت کرنے والے کی زندگی کا ماحصل وصال نہیں ہے ۔یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اگر معشوق مل جائے تو عشق کا وجود کہاں رہ جاتا ہے۔اس لئے عاشقوں میں معشوق کے لئے تڑپ ہوتی ہے ،جنون رہتا ہے،دیوانگی ہوتی ہے اور انجام کار درد بھوگنا ہوتا ہے ۔ شاید یہی نکتہ شاعر منصو رخوشتر کی عشقیہ شاعری کا ایک نمایاںرنگ ہے۔یہ شعر ملاحظہ کیجئے: تیری محبت کا یہی اے جان جاں ہے ماحصل تنہائی و آزردگی، آشفتگی، آوارگی محبوب کی بے وفائی کے حوالے سے ایک غزل کے اشعار ملاحظہ کیجئے : آپ کو مجھ سے محبت بھی نہیں اور ’نہیں‘ کہنے کی جرأت بھی نہیں جاتے ہیں محفل سے میری جایئے روکنا کچھ میری فطرت بھی نہیں ’’منصور خوشتر کی شاعری میں عشق و محبت کے مختلف شیڈس کے اظہار کی خوبصورت کوشش کی گئی ہے روٹھنا،منانا،بھولنا ،بے رخی ،بے وفائی ،بے بسی اور بے چارگی کے احساسات سے نئے شعری منظر نامے کی ترتیب میں کامیاب ٹھہرتے ہیں شاعر کے یہ اشعار اسکے علاوہ بہت سے ایسے اشعار منصور خوشتر کی غزلوں سے پیش کئے جا سکتے ہیں جن میں واردات ِ عشق و حسن کو پیش کیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ نوجوان شاعرمنصور خوشتر کی شاعری میں زندگی کے کئی شیڈس موجود ہیں ۔حسن ذات اور حسن کائنا ت کی گفتگو ہے ،عصری مسائل بھی ہیں اور روداد دل کا بیان بھی ہے۔ ان تمام رنگوں میں چٹک رنگ واردات حسن و عشق کا ہے جسے سلیقے اور ہنر مندی سے انہوں نے سجایا ہے اور وسیع ادبی حلقے تک رسائی حاصل کی ہے۔