آٹورکھشاوالوں کیلئے بھی صورتحال سونے پے سہاگا
سرینگر؍ :کے این ایس / ’سوناسستاگوشت و مرغ مہنگا‘ہوگیا ہے جبکہ سبزی اور پھل فروشوں کی بھی چاندی ہی چاندی ہے ۔اُدھرآٹورکھشاوالوں کیلئے بھی صورتحال سونے پے سہاگابن چکی ہے کیونکہ وہ مجبورلوگوں کولوٹنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑتے ہیں ۔ کشمیر نیوز سروس ( کے این ایس ) کے مطابق کشمیر وادی میں گراں بازاری اور ناجائز منافع خوری کی تاریخ بہت پرانی ہے کیونکہ یہاں گزشتہ کئی دہائیوںسے کھانے پینے کے سامان اور دیگر چیزوںکے دام کبھی کنٹرول میں نہیں رہے ہیں ۔خاص طور پر گوشت اور مرغا کا چونکہ کشمیری زیادہ استعمال کرتے ہیں ،اس لئے اس کے دام کبھی تنزلی کا نام نہیں لیتے بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ گوشت کے دام ایسے بڑھائے جاتے ہیں جیسے کہ قصاب بے حساب ہو کر گاہکوں کولوٹنا اپنا بنیادی فرض سمجھتے ہوں ۔ تقریباً3برس قبل ریاستی سرکار کے دور میں صوبائی حکام نے کوٹھداروں اور قصابوں کے ساتھ صلاح مشورہ کر کے گوشت کے مختلف اقسام کی قیمتیں مقرر کیں لیکن ان قیمتوں پر عمل در آمد تو دور کی بات کوٹھداروں اور قصابوںنے گوشت کی قیمتوں کو ایسے بے لگام بنا دیا جیسے کوئی لا پرواہ بچہ اپنے والدین سے بغاوت کر بیٹھاہو۔ شہر کے مختلف بازاروں میں جا کر قصابوں کی طرف سے گوشت فروخت کئے جانے کے بارے میں جو معلومات حاصل کیں ،ان کے مطابق سرینگر شہر میں بغیر اجڑی گوشت فی کلو کی قیمت500سے 520روپے بہ بانگ دہل فروخت کیا جا رہا ہے ۔قصابوںسے اس بارے میں بات کی تو انہوں نے گوشت کی قیمتیں بڑھ جانے کیلئے کوٹھداروں کی من مانی کو وجہ بتایا لیکن کوٹھداروںکا ماننا ہے کہ وہ منافعے کا فرق رکھ کر ہی قصابوں کو ہول سیل میں بھیڑ بکریاں فروخت کرتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ قصاب اب ایسے بے حساب ہو چکے ہیں کہ وہ نہ تو سرکاری اور نہ انتظامیہ کے مقرر کردہ ریٹ لسٹ پرکوئی عمل کر رہے ہیں ۔اس دوران نمائندے نے سرینگر میںکچھ ایک مقامات پر سبزیاں فروخت کر رہے سبزی فروشوںکی من مانیوں کا بھی مشاہدہ کیا ۔رپورٹر نے بچشم خود دیکھا کہ آلو سے لیکر پیازاور ساگ سے لیکر پالک تک فی کلو 50تا80روپے میں فروخت کی جا رہی تھی جبکہ ٹماٹر ،مٹر،شملہ مرچی،ساگ،بند گوبی،پیاز پھول گوبی اور ندرووغیرہ کی قیمتیں اس سے بھی زیادہ رکھی گئی ہیں ۔اس بارے میں کئی ایک صارفین نے سٹی رپورٹر کو بتایا کہ سونا گر چہ سستا ہو گیا ہے لیکن کشمیر میں گوشت اور سبزیاں اتنی مہنگی ہوچکی ہیں کہ غریب لوگ بغیر سبزی کھانا کھانے پر مجبور ہو رہے ہیں ۔ سبزی فروشوں اور دیگر کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرنے والے دکانداروں اور بالخصوص چھاپڑی فروشوں کی کوئی پڑتال نہیں ہوتی ہے تو اس وجہ سے یہ لوگ صارفین سے سبزیوں کے منہ مانگے دام وصول کر لیتے ہیں ۔سبزی فروشوں کی سنیں تو وہ کہتے ہیں کہ انہیں پارمپورہ میں واقع منڈی سے ہی اونچے داموں پر سبزیاں ملتی ہیں اور وہ صارفین سے زیادہ ریٹ وصول کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں ۔اس دوران مرغ فروشوں کی من مانیاں شباب پر ہے جبکہ150روپے فی کول کے حساب سے مرغ کے نہیں بلکہ صارفین کے گلے پر چھری پھیرائی جارہی ہے۔مرغ فروشوں کی مانے تو انہیں فارموں سے ہی اضافی قیمتوں پر فرغ سپلائی کئے جا رہے ہیں اور فارم والوں کا ماننا ہے کہ سردیوں کی وجہ سے انہیں کافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بہت کم سپلائی برآمد ہوتی ہے۔اسی طرح نان فروش اور دودھ فروشوں کا تو خدا ہی حافظ ہیں کیونکہ ان کا تو کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ہے۔ماہرین اور لیابرٹریوں کی طرف سے غیر معیاری قرار دینے کے باوجود لفافہ بند اور ڈبہ بند دودھ کی قیمتوں میں اضافہ اور سرکار و انتظامیہ کی خاموشی معنی خیز ہے۔گھر گھر دودھ فروخت کرنے والے تاجروں کی مانے تو چارے میں اضافہ ہوا تاہم دودھ میں،دودھ کتنا اور پانی کتنا ہے اس کا حساب شائد اب وہ بھی بھول چکا ہے۔اس تمام صورتحال کیلئے اگر ایک لفظ میں ذمہ داری ٹھرائی جائیے تو وہ سرکار کے وہ محکمے ہیں جن کو یہ کام سونپا گیا ہیں جبکہ ان محکموں میں ملازمین موٹی موٹی تنخواہیں بھی وصول کررتے ہیں مگر کام کتنا کرتے ہیں شاہد ان سے پوچھا جائے تو ان کو گوارہ نہیں ہوگا۔اب لیفٹنٹ گورنر کے ہاتھوں میں جب زمام اختیار آیا ہیں تو دیگر معاملات کی طرح عام لوگوں سے جڑے ہوئے ان معاملات کا پوسٹ مارٹم بھی اگر ہوتا تو غیرب عوام کو اسکا استفادہ مل ہی جاتا۔