امتحانی مراکز میں گرمی کا انتظام کیوں نہیں کیا گیا

0
0

 

سرینگر؍ :کے این ایس / کشمیروادی میں گزشتہ کئی دہائیوں سے ہرسال ماہ ستمبر،اکتوبر ،نومبراوردسمبرمیں پرائمری تایونیورسٹی سطح تک کے سالانہ امتحانات کاانعقاد کیاجاتاہے ،اورلاکھوں چھوٹے ،نوعمر اوربالغ طلباء اورطالبات ان امتحانات میں شامل ہوتے ہیں ۔اسکولی سطح کے امتحانات اسکولوں میں ہی لئے جاتے ہیں جبکہ کالج اوریونیورسٹی سطح کے امتحانات کاساراانتظام اوربندوبست یونیورسٹی آف کشمیر کی جانب سے کیاجاتاہے ۔تاہم دسویں ،گیارہویں اوربارہویں جماعت کے سالانہ امتحانات کے انعقادکی ذمہ داری بورڈآف اسکول ایجوکیشن پرعائدہوتی ہے ،اوریہی بورڈتینوں جماعتوں کے طالب علموں کیلئے سوالنامے اورجوابی پرچے تیارکراتاہے ۔ سوالنامے اورجوابی پرچے تیارکرانے اوردیگرضروری انتظامات کرانے کیلئے بورڈآف اسکول ایجوکیشن کی جانب سے امتحانات میں شامل ہونے والے اُمیدواروں سے ایک مقررہ فیس پیشگی وصول کی جاتی ہے ۔ دسویں ،گیارہویں اوربارہویں جماعت کے طلباء اورطالبات نے ماہ اکتوبرکے اوائل سے اپنے اپنے امتحانی فارم جمع کراناکاسلسلہ شروع کیا،اوران امتحانی فارموں کیساتھ طلاب نے مقررہ فیس کے بینک ڈرافٹ بھی رکھے ۔امسال یعنی 2018میںدسویں جماعت کے سالانہ امتحانات میں شامل ہونے والے دسویں جماعت کے اُمیدواروں یعنی طلباء اورطالبات کی کل تعدادتقریباً65ہزارہے۔میٹرک کے ہرطالب علم نے امتحانی فارم کیساتھ مبلغ800روپے کابینک ڈرافٹ رکھا۔اس طرح سے بورڈآف اسکول ایجوکیشن کے بینک کھاتے میں دسویں جماعت کے اُمیدواروں کی جانب سے مقررہ امتحانی فیس کی صورت میں 5کروڑ20لاکھ روپے کی رقم جمع ہوئی ۔بارہویں جماعت کے سالانہ امتحانات میں امسال شامل ہونے والے اُمیدواروں یعنی طلباء اورطالبات کی کل تعدادتقریباً48ہزارہے ،اوربارہویں جماعت کے طالب علموں نے فی طالب علم امتحانی فارم کیساتھ مبلغ 1000روپے کابینک ڈرافٹ بصورت امتحانی فیس رکھا۔اس طرح سے بورڈآف اسکول ایجوکیشن کے بینک کھاتے میںبارہویں جماعت کے اُمیدواروں یعنی طلباء اورطالبات کی جانب سے مقررہ امتحانی فیس کی صورت میں 4کروڑ80لاکھ روپے کی رقم جمع ہوئی۔کل ملاکربورڈآف اسکول ایجوکیشن کودسویں اوربارہویں جماعت کے سالانہ امتحانات میں شامل ہونے والے ایک لاکھ 13ہزارطلباء و طالبات سے بطورمقررہ امتحانی فیس کل ملاکر10کروڑروپے کی آمدن حاصل ہوئی ۔اُدھردونوں جماعتوں کے طالب علموں سے اسکولوں میں مقررہ امتحانی فیس سے زیادہ کی نقدرقم وصول کی گئی ۔بیشتراسکولوں کے منتظمین نے دسویں جماعت کے طالب علموں سے مقررہ800روپے کے بجائے850اور900روپے کی فیس وصول کی جبکہ بارہویں جماعت کے طالب علموں سے مقررہ ایک ہزارروپے کے بجائے کہیں1100توکہیں1200روپے تک کی امتحانی فیس لی گئی ۔جہاں تک خرچہ جات کاتعلق ہے توبورڈآف اسکول ایجوکیشن کودسویں اوربارہویں جماعت کے طلباء و طالبات کیلئے سوالناموں کیساتھ جوابی پرچے تیارکروائے گئے ۔اس کے علاوہ بورڈآف اسکول ایجوکیشن کی جانب سے ہی امتحانی سینٹروں میں تعینات کئے جانے والے عملے کاانتظام بھی کرناپڑتاہے ،اورنامزدامتحانی عملے کواس اضافی ڈیوٹی کامقررہ معاوضہ دیاجاتاہے ۔ایک اوربھی خرچہ بورڈکوبرداشت کرناپڑتاہے ،اوروہ خرچہ اُن مدرسین بشمول ماہروتجربہ کارٹیچراورلیکچررہیں ،جن کواُمیدواروں یعنی طلباء اور طالبات کے جوابی پرچے چیک کرکے نمبرات دیناپڑتے ہیں ۔دسویں اوربارہویں جماعت کے سالانہ امتحانات میں شامل ہونے والے طلباء اورطالبات کے والدین کاسوال ہے کہ کیابورڈآف اسکول ایجوکیشن کوامتحانی فیس کی صورت میں حاصل ہونے والی مبلغ10کروڑروپے کی بھاری بھرکم آمدن میں سے سارے خرچہ جات نکال کراتنی رقم بھی نہیں بچتی ہے کہ کل1046امتحانی سینٹروں میں کم سے کم یاکسی حدتک گرمی کاانتظام کیاجائے ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا