فہد نذیر
ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی
علی الصباح اپنے گھر کی کھڑکی کھول کر پانچویں منزل سے میں سر سبز و شاداب اور دلکش و دلفریب منظر سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک ایک چڑے کی چہچہاہٹ سنی، جو زبان حال سے کچھ کہنا چاہ رہی تھی، لہذا میں بے تحاشہ دوڑ کر نیچے اترا، جیسے ہی میں قریب پہوںچا تو دیکھتا ہوں کہ ایک بے وزن سی چڑیا پرواز سے عاری موت وزیست کی کشمکش میں مبتلا ہے، اس کے کھال کاغذ کی طرح چپکے ہوئے تھے،اس کے پر مرجھائے ہوئے تھےاور شاید اسکے دل کا بھی وہی حال تھا ،ٹانگیں ناتواں، سینہ پچکا ہوا، اس کی چوںچ کبھی کبھی کھلتی تھی اور کھلی چونچ کچھ لمحوں تک کھلی کی کھلی رہ جاتی تھی، جیسے اسے بند کرنے کی بھی ہمت نہ ہو، اس کی زندگی کی موم بتی کا سارا موم پگھلا پڑاتھا، اس کی زندگی کا شمع بجھنے کیلئے آخری ہچکولے لے رہا تھا کہ میرے پڑوس کی ایک رحم دل خاتون شمائلہ عروج اور اس کی بہن طوبی عروج دوڑی ہوئی پانی لے کر آئیں اور اس کی چوںچ میں قطرے ٹپکانے لگیں ، پہلے پہل تو وہ پی نہیں رہی تھی، لیکن جیسے ہی پہلا قطرہ اس کے حلق میں گیا، قطرے کے جاتے ہی اس معصوم چھوٹے سے پرندے کے پورے جسم میں ایک عجیب سا ارتعاش پیدا ہوا، وہ جان کنی کی کیفیت میں تھی، تھوڑی دیر کے بعد چڑیا کی سانس رک رک کر آنے لگی، ایک بار وہ چونچ کھول لیتی تو جلدی چونچ بند نہ ہوتی، ہم تمام لوگ اس کو سہلانے لگے، اس کی سانسوں میں وقفے بڑھنے لگے، اب وہ سانس لے پا رہی تھی لیکن سانس لینے کے بعد لرز جاتی تھی اور اس کے پیر اندر کی طرف مڑجاتے تھے، خاتون فطرتا دل کی نرم ہوتی ہے، لہذا وہ خدا سے دعائیں مانگنے لگیں، اللہ اسے بچالے، مجھے تھوڑا غیر مناسب یعنی اوور (over)لگا، بالآخر ان دو نو ں کی دعا قبول ہوئی، پھڑ پھڑاکر اس نے ایک لمبی سانس لی اور ہمیں غور سے دیکھنے لگی، ہمیں سمجھ نہیں آیا کہ وہ شکریہ ادا کر رہی ہے یا شکایت کرنا چاہتی ہے،، وہ یوں مخاطب ہوئی کہ تم بندہ خدا پر لعنت ہو،
کککک،کککک، کیوں؟؟؟
تم سب صحیح میں اداکار ہو، ھکلا کے شاہ رخ خان کی کوپی بھی کر رہے ہو،
نہ نہ نہ نہیں میری پیاری چڑیا، ہم بھلا کیوں اداکاری کرنے لگے، منافقت ہمارا شیوا نہیں ہے، البتہ ہم لوگ تمہارے تعلق سے قدرے گھبرائے ہوئے ہیں ، لیکن تم تو بڑی احسان فراموش ہو، ہم تمہاری جان بھی بچا رہے ہیں، پانی بھی پلا رہے ہیں، پھر بھی ہمیں الٹا لعن طعن کر رہی ہو، تم انسانوں نے اہل بیت تک کو تو بخشا انہیں ، کربلا کے نوجوانوں کو چھوڑ و بھی، معصوم سے بچے کو تو پانی نہیں نصیب ہونے دیا ،تم سب کے سب خونی ہو اور ہمارا خون کرکے تم بھی نہیں بچ پاؤگے، مجھے نہیں پتہ کہ قرب قیامت کی دلیلیں ظاہر ہوچکی ہیں یا ہونے والی ہیں، لیکن خدا کی کائنات سے دست درازی تم سب کو فنا کرنے کیلئے کافی ہے اور تمہیں قیامت کا انتظار کر نے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے ،چونکہ قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بنی نوع انسانی کی تباہی کو دستک دے رہا ہے،
کیسے؟؟ کچھ سمجھا نہیں، کیا تم نے علم ماحولیات نہیں پڑھا، میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا، ہاں ، ہاں ،پڑھا ہے، جب میں ممبئی کی مونسیپل اسکول میں پڑھتا تھا، اور ابھی نیٹ NET کا امتحان دینے کیلئے بھی پڑھا تھا اور ماشاء اللہ اسکولرشپ بھی جلد ملنے والی ہے، پھر تو تمہیں پتہ ہوگا کہ تمہارے یہاں قدرتی توازن اور ماحولیات کا کیا حال ہے، تم انسان زمیں دوز اور فلک بوس عمارتیں بنا بنا کر داد عیش دینے لگے ہو ، پہلے تمہارے گھر کے آنگن میں چڑیا دکھائی پڑتی تھی،گوریا اور قسم قسم کے چڑیوں کی چہچہاہٹ تمہارے کانوں میں رس گھولتی تھی اور تمہارے قدرتی توازن کو بگڑنے سے بچاتی تھی، لیکن وقت کی تبدیلی دیکھئے کہ کنکریٹ کے مکانوں ،سیٹلائٹ اور موبائل کی وجہ سے ہماری نسلوں کی تعداد میں کمی آئی،میرا ایک چھوٹا سا ننھا سا فرشتہ بھی تمہاری نام نہاد ترقی کے نام پہ قربان ہو گیا.
اس بار چڑیا نے غضبناک ہوکر اپنا ایک سوال داغا،
تم نے ہمارے لئے کیا کیا ہے ،بتاؤ ؟؟؟ بہت کچھ کیا ہے،سٹپٹاتے ہوئے میں نے جواب دینے کی کوشش کی ، جیسے کہ کوئی جواب نہ بن رہا ہو، پھر بھی اٹکل پچو مارنے لگا ، کیوں نہیں؟ شاعروں نے پرندوں کی کئی صنفوں کا ذکر کیا ہے، علامہ اقبال نے بال جبرئیل میں تمہارا ذکر کیا ہے، ذرا سناؤ!! ایسا کیا خاص کہا ہے؟ جی ضرور، کیوں نہیں گرماؤں غلاموں کا لہو سوز یقیں سے کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑادو
اسی طرح ہفت کشور میں ہے، خانہ داروں میں سپہدار جو آ بیٹھے ہیں ایک ہی شاخ میں کنجشک و ہما بیٹھے ہیں تم لٹریچر والے بھی نہ،بالکل عجیب ہو ،دو چار عبارتیں سپرد قرطاس کرکے اور پانچ دس شاعری لکھ کر یہ سوچتے ہو کہ تم نے قوم پر بڑا احسان کردیا ہے،قوم کے مسائل کا حل ڈھونڈ لیا ہے ،یہ سب باتیں چھوڑو بھی، کام کی بات کریں، تمہیں تو پتہ ہی ہوگا کہ باغات خشک ہو رہے ہیں، زمیں پھٹ رہی ہے، بارش نہیں ہوتی، ہوتی ہے تو ضرورت سے زیادہ ہوتی ہے، یا پھر بے وقت بے موسم ہوتی ہے، ابھی رواں سال کا ہی اندازہ لگا لو دھوپ کی جو تمازت مئی جون میں ہونا چاہئے وہ مارچ میں ہی نظر آرہی ہے ایسا لگتا ہے جیسے فروری کے بعد سیدھا جون آگیا ہے ،بیماریاں نئے روپ میں سامنے آرہی ہیں، چرند وپرند اور انسان سب حیران ہیں کہ آخر ایسا کیوں، کیا نظام قدرت بدل گیا ہے، یا انسانی دست درازیوں نے کائنات میں بے چینی کی کیفیت پیدا کردی ہے، اگر غور کریں تو محسوس ہوگا کہ یہ تمام پریشانیاں اور بے چینیاں انسان کے اپنے کئے کا نتیجہ ہے، سائنس کی ترقی اور صنعت و حرفت میں عروج نے جہاں انسانیت کو فائدے پہوںچائے ہیں، وہاں انسان کی بے احتیاطو ں کو جنم بھی دیا ہے، اور اسی بے احتیاطی نے ہمیں اس انجام تک پہونچا دیا ہے، ورنہ 1850 تک یہ وہم و گمان میں نہیں تھا کہ ماحولیات میں پراگندگی نوع انسانی کو مصیبت میں مبتلا کر سکتی ہے، لیکن انیسویں صدی سے اب تک جو ماحولیاتی تبدیلی دیکھی گئی ہے وہ حیران کن ہے
میں اس بار تھوڑا جھنجھلاکر اور کھسیا کر مخاطب ہوا : ارے!! گوریا جی، ہم کیا کر سکتے ہیں، اور ہمیں کیا؟ دنیا میں کچھ بھی ہو
ہاں، بالکل درست فرمایا، ہمیں کیا گلوبل وارمنگ سے برف پگھل رہی ہے ،پہاڑ ،ندیاں اور یہ دنیا بربادی کی طرف جا رہی ہے، لیکن ہمیں کیا،گرین ہاؤس گیسز دن بہ دن بڑھ رہے ہیں، لیکن ہمیں کیا،تم انسان موبائل ٹاور لگا لگا کر ہوا کو زہر آلود کررہے ہو،لیکن تمہیں کیا، ہوا میں پراگندگی کی وجہ سے میں اور میری جنس کے مختلف چرند و پرند دنیا سے ناپید ہو رہے ہیں، لیکن تمہیں کیا.
شرم سے اپنا سر جھکا کرمیں نے کہا کہ ہم انسان آپ کے تحفظ کیلئے کچھ کرتے ہیں ۔
اس بار چراغ پا ہوکر وہ مخاطب ہوئی کہ تم انسان ہمارے تحفظ کی چنداں فکر نہ کرو، بلکہ اپنے تحفظ کی فکر کرو، ہم چرند و پرند تم انسانوں کی طرح مفاد پرست، موقع پرست اور منافق نہیں ہوتے، ہم اپنی بقا کی نہیں بلکہ تم انسانوں کی بقاءکی بات کر رہے ہیں، ہم تو تمہاری نام نہاد ترقی کے نام پر اپنی جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں، مزید دینے کیلئے تیار ہیں ، لیکن تمہاری بقاءاور اس دنیا کا وجود ہماری بقاء پر منحصر ہے،اسی لئے میں یہ سب کہنے کیلئے مجبور ہوں ،ایسا نہیں ہے کہ تم انسانوں نے اس دنیا کا وجود برقرار رکھنے کیلئے پروجیکٹ نہیں بنائے ،مجھے اور مجھ جیسی تمام نسلوں کو بچانے کیلئے فنڈ تو پاس کئے، لیکن افسوس صد افسوس یہ پروجیکٹس اور فنڈس بھی مادیت پرستی کی بھینٹ چڑھ گئیں، کانفرنس کی نذر ہو گئی، تم انسانوں نے سسٹینیبل ڈیولپمنٹ یعنی قابل بقا ترقی کے حصول کا تصور تو پیش کیا، لیکن عملی طور پر کبھی اس پر عمل نہیں کیا، تم نے صرف بایو ڈائیور سٹی ڈے منایا ،اس ڈے پر طرح طرح کے تھیم(Theme) پیش کئے، یہاں تک کہ مجھ جیسی حقیر سی چڑیا پر بھی سپیرو ڈے منایا، لیکن عملی طور پر کیا کیا، اسی لئے گذارش ہیکہ کانفرنس کرنے کے بجائے عملی طور پر اقدام کرنے کی بھی تھوڑی کوشش کرو، وقتی فائدہ کیلئے دور کے نقصان کو پورے طور پر نظر انداز مت کرو، ورنہ تمہاری آنے والی نسلیں تمہیں کبھی بخشیں گی نہیں اور یہ شعر گنگنانے پر مجبور ہوں گی
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
میں اس پیاری چڑیا کو معنی خیز نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور وہ چڑیا بھی ،وہ مزید کچھ کہتی، لیکن کسی بد بخت انسان نے اسے غلیل سے مارنے کی کوشش کی،لیکن خدا کا شکر کہ نشانہ چوکا، وہ چڑیا اڑ ی اور میں حواس باختہ اسے دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا،
اس کی باتیں مجھے رہ رہ کر آج بھی کچوکہ لگاتی رہتی ہیں، جھنجھوڑتی رہتی ہیں ، اسی لئے دست بستہ میں خود سے اور آپ سب سے گذارش کرتا ہوں کہ ہم بایوڈائیورسٹی کا خیال رکھیں، گوریا اور اسکے تمام اصناف کو اس دنیا سے ناپید ہونے سے بچائیں، تاکہ قدرتی توازن بنا رہے اور اس کی وجہ سےاس دنیا میں ہمارا وجود بنا رہے۔