محمداعظم شاہد
ملک میں مذہبی منافرت کا ماحول ہر گزرتے دن کے ساتھ تشویشناک ہوتا جارہا ہے ۔اب یہ خبر آئی ہے کہ سینٹرل بورڈ آف سکینڈری ایجوکیشن (سی بی ایس سی) جس کی کتابیں NCERT شائع کرتی آرہی ہے ،نے فیصلہ لیا ہے کہ گیارھویں اور بارھویں جماعت کی تاریخ اور سیاسیات (پولٹیکل سائنس) کی نصابی کتابوں سے ناوابستہ تحریک ،ملکوں کے درمیان سر دجنگ ،افریقی اشیائی ملکوں میں اسلامی سلطنتوں کا آغاز ،دور مغلیہ حکومت کی تاریخی عظمت اور صنعتی انقلاب (انڈسٹریل ایولیشن )کے ابواب نکالے جائیں ۔اسی طرح دسویں جماعت کی نصابی کتاب کے باب فوڈ سکیورٹی (تحفظ غذا) میں زراعت پر گلو بالیئزیشن کے اثرات کو بھی حذف کیا جارہا ہے۔فیض احمد فیض کی لکھی اُردو نظموں کا ترجمہ جن کا موضوع سخن ’مذہب ،فرقہ واریت ،سیاست اور سیکولر حکومت‘ ہے یہ بھی نصاب سے خارج کئے جارہے ہیں ۔سماجی علوم میں شامل باب ’جمہوریت اور تکثیریت Democracy Diversityبھی حذف کیا جارہاہے۔سی بی ایس سی نصابی کتابوں میں متذکرہ ابواب کو حذف کرنے کی سفارش نیشنل کاؤنسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی )نے کی ہے جو نصاب میں منطقی پہلو کو بروئے کار لانا چاہتی ہے ۔گیارھویں جماعت کی تاریخ کی کتاب میں اسلامی سلطنتوں کا قیام اور اسلام کی سر بلندی ،خلافت اور سلطنت سازی کے پہلو ؤں کو غیر ضروری سمجھا گیا ہے ۔جبکہ ناوابستہ تحریک Non Aligned Movementہندوستان کی خارجہ اُمور پر بصیرت افروز اور امن پسند عملی فکر رہی ہے، جس کے باعث طاقتور ممالک کی اجارہ داری اور باہمی سرد جنگ کے دوران امن کے قیام کی سمت قابل تقلید کاوش قرار پائی گئی تھی ۔بہر کیف ایک بار پھر تعلیمی نصاب پر فرقہ واریت کے بادل منڈلانے لگے ہیں ۔زعفرانیت میں تعلیم کو رنگنے کی مذموم کوششیں ہونے لگی ہیں،کسی بھی اعتبار سے اس نوعیت کے اقدامات ہمارے ملک کی مشترکہ وراثت کے فروغ کے حق میں نہیں ہیں ۔
اُمور تعلیم میں دلچسپی کے باعث سی بی ایس سی طرز تعلیم اور اس کی نصابی کتابیں جو این سی ای آر ٹی شائع کرتی آئی ہے ، سے میں بے حد متاثر رہا ہوں ۔میرے بچے اسی نصاب کی کتابیں اپنے اسکول میں پڑھتے ہیں ،میں نے ان کتابوں کے نصاب میں شامل مشمولات کو معلومات سے طلبہ کو ہم آہنگ کرنے کے سلیقے کو عصری تقاضوں کے تحت بہت ہی عمدہ پایا ہے۔ملک میں یو پی ایس سی امتحان لکھنے کے امیدوار جو آئی اے ایس،آئی پی ایس ودیگر اعلیٰ عہدوں کے متمنی ہوتے ہیں وہ NCERTکی نصابی کتابیں اپنے امتحان کی تیاری کے دوران پڑھا کرتے ہیں ۔اِن مذکورہ بالا نکات سے واضح ہے کہ یہ نصابی کتابیں اپنے معیار کے اعتبار سے اور ان کے مشمولات کے حوالے سے کس قدر لائق اعتبار سمجھے جاتے رہے ہیں ۔افسوس اس بات کا ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت اپنے تمام تر تعلیمی وتحقیقی اداروں میں اپنے ہمنواؤں کو اہم عہدوں پر مامور کر رہی ہے ۔’ ہندوتوا ‘کے نظریہ کو تعلیم میں عام کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔نئی نسلوں کو تاریخی حقائق سے اور ملک کی مشترکہ تہذیب سے روشناس کروانے کی جو روایت نصابی کتابوں سے روبہ عمل تھی وہ اب زوال پذیر ہورہی ہے ۔فرقہ واریت ،بنیاد پرستی اور فسطائیت نصابی کتابوں میں جگہ پارہی ہے ۔اس سے بڑھ کر المیہ اور کیا ہوسکتا ہے ۔کرناٹک میں بی جے پی حکومت بھی نصابی کتابوں میں فرقہ واریت کے عناصر اجاگر کرنے کوشاں ہے ۔ٹیپو سلطان کے عہد حکومت اور ان کے اختراعی اصلاحات کے عظمت کو حاشیہ پر رکھا جارہا ہے ۔
اِن تمام خبروں کے درمیان ہمارے وزیر اعظم کا ایک بیان بھی سننے کو ملا ہے کہ ملک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری افسران کو چاہئے کہ لازمی طورپر ملک میں اتحاد اور ایمانداری کو ہر لحاظ سے مقدم رکھیں ۔اس بیان کے حوالے سے دیکھا جائے تو لگتاہے کہ ’’کہنے ‘‘ اور ’’کرنے‘‘ میں بہت بڑا فرق حائل ہے ۔
نصیحت کی جگہ حسنِ عمل درکارہے ناصح یہ بہتر ہے لفظوں کی جگہ زندگی بولے
تعلیم ہی سماج اور معاشرت میں تبدیلی کا آلہ ٔ کار ہے ۔جب تعلیم میں تنگ نظری ،تعصب اور مذہبی منافرت کو سمو کر تاریخی حقائق سے چشم پوشی کر لی جائے تو روشنی کی جگہ تاریکی حاصل کر لے گی ۔اس طرح’ سب کا بھارت ‘کہاں تشکیل پاسکے گا ؟