اختر حسین اختر
۹/نومبر ۲۰۱۹ ہندوستان کی عدلیہ کی تاریخ کا ایک ایسا سیاہ دن ہے کہ جس دن ٹیلی ویڑن اور سوشل میڈیا پر بابری مسجد کی حقیقی و قانونی آراضی کے حق ملکیت کے تعلق سے تقریباً ستربرس کی قانونی لڑائی کے بعد فیصلہ آیاجس کو سن کر آنکھیں اشکبار نہیں ہورہی ہیں بلکہ دل اپنی دھڑکنوں کا ساتھ چھوڑتا ہوا محسوس ہورہا ہے اور قلب کی بے اطمنانی کوئی تکلیف نہ دے کر ایسا احساس دلارہی ہے کہ مانوسب کچھ ایک رات قبل کی مسلمانوں کی روز مرہ کی چیزوں کی خریداری کے لیے ٹوٹ پڑنے کی ایمان سے خالی کاوشوں نے اللہ رب العزت کے دربار میں ابھی سے مجرم بنا کر کھڑا کردیا ہے۔یہ میرا احساس ہے کہ دنیا کے مسلمانوں کی اس وقت کی حالت اورخاص طور سے اپنے ملک کے مسلمانوں کی اپنے مال، اپنی جائیداد سے بے پناہ محبت کی بدولت ہم نے دنیا کی آخری منزل کی مسافت کو طے کرنے کے لیے پیٹ پر پتھر باندھنے کی عشق رسول میں ڈوب جانے کی روش اور کشتیوں کو جلا کر فتح اور موت کے درمیان صرف حق کی بالادستی طے کرنے کی اپنی بھر پور خراج عقیدت رسول کی پر عزم کاوش کو پوری طرح سے فراموش کر دیا ہے۔ اب تو اس دور کے مسلمانوں کو اپنے اعمال کے حساب و کتاب میں اللہ اور اس کے رسول پر مر مٹنے کے اپنے نفع بخش عمل کو میدان حشر میں تلاش کرنا پڑے گا اور شفاعت محمدی کے اللہ عزوجل کے وعدے کی تکمیل کے بعد جب آقائے دو عالم سے ملاقات کا شرف حاصل ہوگا تو ہم سے جب ہمارے رسول نے اگر یہ سوال کر لیا کہ میری تو یہ سنت تھی کہ میں نے ہجرت کی نا قابل فراموش تکالیف کو برداشت کرنے کے بعد اپنے قافلہ سخت جان کے ساتھ مدینہ منورہ کے حدود میں داخلے سے قبل مسجد عقبیٰ کی بنیاد رکھ کر یہ ثابت کردیا تھا کہ میں اپنی آمد با برکت وشان و فضیلت کے بعد اللہ عزوجل کے گھر کی تعمیر ہی سب سے پہلے کروں گا، کیا تم کو یہ یاد نہیں رہا کہ میں نے اپنے ان کاندھوں پر جس پر دنیامیں حق و باطل کے راستے میں باطل کو مٹانے اور حق کو زندہ جاوید رکھنے کی ذمہ داری تھی،مسجد نبوی کی تعمیر میں اینٹ و گارا ڈھویا تھا تاکہ رہتی دنیا تک یہ مثال قائم ہو جائے کہ اللہ کا گھر صرف رکوع و سجود کی تکمیل کا مرکز ہی نہیں بلکہ حق و باطل کی رہنمائی کا ایسا مرکز ہے جہاں سے پوری دنیا کی جہالت کو مٹا کر ایک دین بر حق کو قائم و دائم رکھنے کی ہمیشہ کوشش کی جاتی رہے گی۔کیا میں نے اپنی حدیث مبارکہ میں قیامت کے لیے یہ اعلان سعید نہیں کردیا تھا کہ روئے زمین پر جب ایک مرتبہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے گھر کی تعمیر ہو جائے تو قیامت تک وہ صرف اور صرف اللہ رب العزت کا گھر رہے گااور بیت اللہ کی روشنیاں ہمیشہ اس کو منور اور مزین کرتی رہیں گی۔اے مسلمانان ہند آقائے دوعالم صلی اللہ علیہ و سلم کے ان سوالات کے بعد جس شرمندگی کا سامنا ہوگا اس کا تصور آج روح کو بے پناہ تڑپا رہا ہے جیسے لگتاہے کہ جسم میں خون کی حرارت سے دل تو دھڑک رہا ہے مگر روح تڑپ تڑپ کر مجھ کو احساس جرم کرارہی ہے۔
ملک کی آزادی کے ۷۲ سال گزرجانے کے بعد آج سپریم کورٹ باوجود اس تاریخی حقیقت کو تسلیم کرنے کے کہ ۲۲/۲۳ دسمبر ۱۹۴۹ ئ ْکو بابری مسجد میں رات کے اندھیرے میں مورتیاں رکھنے کا عمل غیر قانونی تھا اور ۶/ دسمبر ۱۹۹۲?ئ کو دن کے اجالے میں قانون و انصاف کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ملک کی اکثریت کے ذریعہ کار سیوا کے نام پر بابری مسجد کو شہید کیا جانا بھی غیر قانونی عمل تھا۔ASIکی کھدائی میں جو کچھ برآمد ہوا وہ ۱۲ویں صدی کا ہے اور بابری مسجد کی تعمیر ۴۰۰ سال کے بعد ۱۶ویں صدی میں ہوئی ہے اور اکثریت کی طرف سے یہ کہنا کہ بابری مسجد کی تعمیر کسی بھی مندر کو توڑ کر کی گئی ہے اس کا ثبوت نہیں پیش کیا گیا پھر بھی سنی وقف بورڈ کی حق ملکیت کے مقدمہ میں فیصلہ قانون و انصاف کو سامنے نہ رکھ کر بلکہ آستھا کی بنیاد پر دیا گیااوربابری مسجد جیسے عظمت والے گھر کو جہاں اللہ کے بندے نہایت خشوع و خضوع سے پانچ وقت اپنی عاجزی سے بھر پور بندگی کا نذرانہ، اپنے سجدوں کی تڑپ اور رکوع کے متبرک عمل کے ذریعہ اپنے معبود حقیقی کی بار گاہ عزوجل میں ۲۲/ دسمبر ۱۹۴۹ئ تک پیش کرتے رہے تھے اس بابری مسجد کو دن کے اجالے میں لاکھوں کے ہجوم کے ذریعہ شہید کرنے والے مجرموں کے حوالے کردیاگیااور یہی نہیں جس تنظیم کا وجود تھا ہی نہیں اس رام للا براجمان سمیتی کو مسجد کے مقام پر رام مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے دی گئی، اس سے زیادہ تکلیف دہ گھڑی عدلیہ کی تاریخ میں اس سے قبل کبھی دیکھنے کو نہیں ملی۔
لیکن اس سے زیادہ افسوس ناک پہلو اس اندوہناک سانحے کا یہ ہے کہ جس مسلم پرسنل لا بورڈ نے بحیثیت فریق سپریم کورٹ کو لکھ کر دے دیا ہو کہ ہم سپریم کورٹ کے ہر فیصلے کو مان لیں گے وہی پرسنل لا بورڈ اب قانون کی دہائی دے رہا ہے اور پہلے کہا جاتا ہے کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں اور اس فیصلے کے خلاف Review petition داخل کریں گے مگر جب ان کو اپنی ہی concent جو وہ لکھ کر سپریم کورٹ کو دے چکے ہیں کہ ہم آپ کے فیصلے کو مانیں گے اورسپریم کورٹ نے مسلم پرسنل لا بورڈ کی رضا مندی کی تحریر حاصل کرنے کے بعد Article 142 میں دئے گئے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے تو اچانک اپنے ہی موقف سے بورڈنے پیچھے ہٹ کر مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کانا قابل معافی کام کیا ہے۔
مسلمانوں اب کچھ نہیں ہو سکتا لاکھوں کے ہجوم نے بابری مسجد کو شہید کیا اور ہجوم ہی Mob Lynching کے نام پر بے گناہ اور معصوم مسلمانوں کو مارمار کر کھلے عام شہید کررہا ہے اور اسی خوف و دہشت کے سائے میں قتل و غارت گری سے بچنے کے لیے شاید اکابرین نے یہی بہتر سمجھاکہ اللہ کے اس گھر کو جس کا وجود قیامت تک باقی رہے گا، اس کے تقدس اور اس کی عظمت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے جان و مال کی حفاظت کے واسطے بابری مسجد کو شہید کرنے والے اکثریت کی طاقت کے نشے میں بدمست مجرموں کے حوالے کرنے میں سپریم کورٹ کے متوقع فیصلے میں تعاون کرنے کے واسطے اپنی Concent دے کر اس قضیے کو ہمیشہ کے لیے تمام کردیاجائے۔مگر تاریخ گواہ ہے کہ جب جب ہمارے دین برحق کو مٹانے کی جس گروہ نے بھی مجرمانہ کوششیں کی ہیں تب تب مذہب اسلام اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اور بھی زیادہ اغیار کے قلوب کو مسخر کرنے اور اس میں اپنی نورانی کرنوں کو جذب کرانے کا ضامن ہوا ہے۔ آج بابری مسجدکا مقدس مقام اگر تشدد پر یقین رکھنے اورلبوں کی آزادی چھین لینے کی کاوش کرنے والے مجرموں کے حوالے کردیا گیا ہے تو کل انشائ اللہ تعالیٰ آسمانوں سے ایسے فیصلوں کا ظہور ہو گا کہ دنیاعش عش کر اٹھے گی۔ ہماری دعا صرف اور صرف اکابرین امت مسلمہ کے لیے روحانی ہدایت کی عطا کے واسطے ہے کہ اب آئندہ ہماری مذہبی لیڈرشپ سیاست کے اندھے راستوں کی تنہا مسافت طے کرتے ہوئے ۱۹۹۱ئ کے مذہبی مقامات کے وجود کے پارلیمنٹ کے ذریعہ منظورشدہ بل کے خلاف کوئی سمجھوتہ نہ کرلے اور جان و مال کی حفاظت اور قتل و غارت گری کے اندیشے کے پیش نظر کہیں یونیفارم سول کوڈ جس کے نفاذ کی مذموم سازش اب پردے سے اپنے وحشت ناک چہروں کے ساتھ جھانکنے لگی ہے اس کے تعلق سے اپنی رضامندی کا اظہار نہ کر دے کیونکہ ملک میں اس وقت کی فضا یہ ہے کہ مسلمانان ہند سپریم کورٹ کے ذریعہ دئے گئے فیصلے سے بے پناہ غمزدہ رہتے ہوئے اپنا سب کچھ کھو دینے کی تکلیف دہ صورت حال میں مبتلا ہیں وہیں دوسری جانب ملک میں امن و امان کی اپیل کرنے اور ملک کو قتل و غارت گری سے محفوظ رکھنے کی یک طرفہ کوشش کرنے والے ہمارے اکابرین،ملک کے NSA مسٹر اجیت ڈھوبال کی رہائش گاہ دہلی میں بابری مسجد کی شہادت کے ملزموں کی پیروکاری کرنے والے افراد سے نہایت عشرت و شادمانی کے ماحول میں ایک دوسرے سے بغل گیر ہورہے ہیں اور لکھنؤ میں کل تک بابری مسجد کی بازیابی کے واسطے اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کرنے والے اکابرین یوپی کے وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ پر جاکر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر مبارکباد پیش کررہے ہیں۔ ٹیلی ویڑن، اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعہ ان ملاقاتوں کی تشہیر Publicity نے امت مسلمہ کو بے پناہ مشکوک کردیا ہے۔
بہتر یہ ہوگا کہ بابری مسجد کی حق ملکیت کے مقدمے کو نہایت خوبی اور بے پناہ جانفشانی سے لڑنے والے سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون صاحب اور دیگر وکلائ کے متعلقہ پینل کے مشورے سے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے خلاف ہر حال میں Review Petition داخل کی جائے ورنہ اس فیصلے کے نظیر بن جانے کے بعد ملک کی ہزاروں مساجد کا وجود قطعی طور پر خطرے میں پڑ جائے گا۔ دوسرے یہ کہ نرسمہا راؤ حکومت کے ذریعہ پارلیمنٹ سے منظور شدہ مذہبی مقامات بل ۱۹۹۱ئ جس کا تذکرہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر کیا ہے، اس بل کے نفاذکو حکومت ہند کے ذریعہ ہر حال میں یقینی بنائے جانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے، یہی راستہ ملک کے آئین و قانون کی بالادستی اور امن و امان کی فضا کو قائم رکھے جانے کا واحد ذریعہ ہے۔(یو این این)
اختر حسین اختر
جنرل سکریٹری
آل انڈیا مومن کانفرنس
لیاقت منزل، طلاق محل، کانپور
موبائل:9415182107