ممبئی، (یو این آئی) لتا منگیشکر کے فلمی کیرئر کے ابتدائی دور میں کئی ڈائریکٹر، پروڈیوسر اور موسیقاروں نے باریک آواز کی وجہ سے انہیں گانے کا موقع نہیں دیا لیکن اس وقت ایک موسیقار ایسے بھی تھے جنہیں لتا منگیشکر کی صلاحیت پر پورا عتماد تھا ۔ انہوں نے اس وقت پیش گوئی کی تھی یہ لڑکی آگے چل کر اتنا زیادہ نام کمائے گی کہ بڑے ہوکر ڈائریکٹر، پروڈیوسر اور موسیقار اسے اپنی فلموں میں گانے کا موقع دیں گے ۔ یہ موسیقار تھے غلام حیدر۔ سال 1908 میں غلام حیدر کی پیدائش ہوئی۔ انہوں نے اپنی اسکولی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈینٹسٹ کی تعلیم شروع کر دی تھی۔اس دوران ان کا رجحان موسیقی کی جانب ہوا اور انہوں نے بابو گنیش لال سے موسیقی کی تعلم لینا شروع کردی۔ ڈینٹسٹ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ بطور ڈینٹسٹ کے طور پرکام کرنے لگے ۔ انہوں نے محسوس کیا کہ موسیقی کے شعبے میں ان کا مستقبل زیادہ محفوظ ہوگا۔ اس کے بعد وہ کلکتہ کے الیکزینڈر تھیٹر کمپنی میں ہارمونیم نواز کے طور پر کام کرنے لگے ۔ سال 1932 میں غلام حیدر کی ملاقات ہدایت کار پروڈیوسر اے – آر- کاردار سے ہوئی جو ان کی موسیقی سے کافی متاثر ہوئے ۔ کار دار ان دنوں اپنی آنے والی فلم ’سورگ کی سیڑھی‘ کے لئے موسیقار کی تلاش میں تھے ۔ انہوں نے حیدر سے اپنی فلم میں موسیقی دینے کی پیش کش کی لیکن اچھی موسیقی دینے کے باوجود فلم باکس آفس پر کامیاب نہیں ہوسکی۔ ا س دوران غلام حیدر کو ڈی ایم پنچولی کی پنجابی فلم ’غلام بکاولی‘ میں موسیقی دینے کا موقع ملا۔ فلم میں نورجہاں کی آواز میں غلام حیدر نے پنجرے دے وچ جوانی نغمہ کو اپنی موسیقی سے سجایا جو اس وقت سب کی زبان پر تھا۔ سال 1941 غلام حیدر کے سنی کیرئر کا اہم سال ثابت ہوا۔ فلم خزانچی میں ا ن کی موسیقی نے ہندستانی موسیقی کی دنیا میں ایک نئے دور کاآغاز کیا۔سال 1946 میں ریلیز فلم شمع میں اپنی موسیقی سے لبریز نغمے گوری چلی پیا کے دیس ، ہم غریبوں کو بھی پورا کبھی آرام کرد ے ، اور ایک تیرا سہارا میں انہوں نے طبلے کابہترین استعمال کیا جو سامعین کو کامی پسند آیا۔ اس درمیان انہوں نے بامبے ٹاکیز کے بینر تلے بنی فلم مجبور کے لئے بھی موسیقی دی۔ غلام حیدر نے لتا منگیشکر کو اپنی فلم مجبور میں گانے کا موقع دیا اور انکی آواز میں دل میرا توڑا ، کہیں کا نہ چھوڑا تیرے پیار نے ، سامعین کے درمیان کافی مقبول ہوا۔ اس کے بعد ہی دیگر موسیقا ر بھی ان کی صلاحیت کو پہنچان گئے اور اپنی فلموں میں لتا منگیشکر کو گانے کا موقع دیا اور انہیں فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ملی۔ لتا منگیشکر کے علاوہ سدھا ملہوترا اور سریندر کور جیسی صلاحیتوں کو نکھارنے میں غلام حیدر کے موسیقی سے سجے نغموں کا اہم تعاون رہا ہے ۔ ملک آزاد ہونے کے بعد 1948 میں ملک کے نوجوانوں کو خراج عقیدت دینے کے لئے انہوں نے فلم شہید کے لئے ’وطن کی راہ میں وطن کے نوجوان شہید ہو ‘ نغمے کو اپنے موسیقی سے سجایا۔ حب الوطنی پر مبنی یہ نغمہ آج بھی سننے والوں کی آنکھوں کو نم کردیتا ہے ۔ پچاس کی دہائی میں ممبئی بندرگاہ پر ہوئے بم دھماکوں سے ممبئی لرز اٹھی ، جسے دیکھ کر غلام حیدر کی ٹیم میں شامل اراکین نے ممبئی چھوڑ کر لاہور جانے کا فیصلہ کرلیا۔ غلام حیدر نے انہیں حتی الامکان روکنے کی کوشش کی لیکن وہ بھی کافی خوف زدہ تھے اورانہوں نے بھی لاہور جانے کا ارادہ کرلیا تھا۔ اس کے کچھ دن کے بعد وہ بھی لاہور چلے گئے ۔ اس کے بعد غلام حیدر نے ہدایت کار نظیر اجمیری اور اداکار ایس گل کے ساتھ مل کر فلم ساز بینر کو تشکیل دیا۔ فلم گلنار اس بینر تلے بنی غلام حیدر کی پہلی اور آخری فلم ثابت ہوئی۔ اس کی ریلیز کے محض تین دن بعد ہی وہ 9 نومبر 1953 کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے