خواجہ یوسف جمیل
منڈی، پونچھ
مرکزی حکومت کی جانب سے ملک میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے گزشتہ دنوں 99,300 کروڑ روپے کا بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے ۔جس سے تعلیمی نظام میں مزید بہتری کی امید کی جا سکتی ہے جبکہ گزشتہ سا ل بھی حکومت کی جانب سے 94,800 کروڑ روپے کا بل صرف تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے پیش کیا گیا تھا ۔مرکزی حکومت کی جانب سے جہاں تعلیمی میدان میں تمام قسم کی سہولیات طلباو طالبات کو فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہیں ۔وہیں آئین ہند بھی ملک کے ہر مرد و زن کو تعلیمی رو شنی سے مالا مال ہونے کی پوری پوری اجازت دیتا ہے ۔اگرچہ حکومت کی جانب سے تعلیم کے تئیں کی جانے والی کوششوں کو مد نظر رکھتے ہوئے زمینی سطح پر تعلیمی شرح کا مطالع کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے کئی علاقے آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی تعلیم سے کوسوں دور ہیں۔صرف جموں کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ کی اگر بات کی جائے تو سال 2011 کی سینسس کے مطابق ضلع کی کل تعلیمی شرح 66.74فیصدہے جس میں مردوں کی تعلیمی شرح 78.84اور خواتین کی تعلیمی شرح 53.19فیصدہے ۔ یہ سروے واضح طور پر ا س بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں یہاں کی خواتین ابھی بھی تعلیم میں پیچھے ہیں ۔
ضلع پونچھ ہیڈکوارٹر سے ۴۰ کلومیٹر کی دوری پر واقع تحصیل منڈی کا گاؤں بائیلہ بھی تعلیم کے نازک صورتحال سے گزر رہا ہے۔اس گاؤں کے محلہ گلی شیخاں سے اب تک صرف ’’نازمہ‘‘ نامی واحد لڑکی دسویں جماعت میں کامیابی حاصل کر سکی ہے۔’’نازمہ‘‘ اس وقت پرائیویٹ طور پر بی اے سال دوئم میں زیر تعلیم ہیں ۔اس واحد کامیاب ہونے والی طالبہ نے بتایا کہ ’’میری کامیابی کے پیچھے میری والدہ کا ہاتھ ہے۔اگر میری والدہ کو ہسپتال میں ’’آشا ورکر ‘‘ کی نوکری نہ ملی ہوتی تو میں اپنی تعلیم کو جاری نہ رکھ سکتی۔میرے ساتھ اسی محلے کی کیٔ لڑکیاں پڑھتی تھیں جنہوں نے دسویں جماعت سے قبل ہی اپنی تعلیم چھوڑ دی تھی ،انکے والدین غربت کی وجہ سے تعلیمی اخراجات برداشت نہ کرسکے ، میرے والدین نے تعلیم حاصل کرنے میں میرا بھرپور تعاون کیا‘ اس محلے کی کئی طالبات تعلیم ادھوری چھوڑچکی ہیں اور اپنے گھریلو کاموں میں مصروف ہیں ۔
محلہ گلی شیخاں کے پنچ’’ غلام محمد‘‘ کہتے ہیں کہ ’’ اس محلے کی 20 سے زائد لڑکیاں گزشتہ سالوں میں تعلیم کو خیر آباد کہہ چکی ہیں ۔جن میں سے 7سے زائدلڑکیوں کی شادی ہو چکی ہے ۔‘‘ پنچ’’ غلام محمد‘‘ تعلیمی بہران سے دوچار اس محلے کا درد بیان کرتے ہوے کہتے ہیں کہ ’’اگر ہمارے ان بچیوں کو بہتر بنیادی تعلیم ملی ہوتی تو یہ بچیاں بھی اعلی تعلیم کی دولت سے مالامال ہوسکتی تھیں ۔ اس محلے میں پرائمری اسکول گلی شیخاں کی بنیاد 20 اکتوبر 2009کو رکھی گئی تو یہاں کے لوگ یہ تصور کر رہے تھے کہ اگر وہ خود تعلیم حاصل نہ کر سکے لیکن ان کے بچے اس اسکول کی بدولت جہالت سے نکل کر روشنی کی طرف گامزن ہوسکیں گے ۔لیکن لوگوں کا یہ خواب اس لیے ادھورا رہ گیا کیوںکہ اس اسکول سے تعلیم حاصل کرنے والے بچے اپنا نام تک نہیں لکھ سکتے ۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ’ ’ میری بیٹی بھی اس محلے کی دیگر لڑکیوں کی طرح بہتر بنیادی تعلیم نہ ملنے کی وجہ سے دسویں جماعت کے امتحان میں کامیابی حاصل نہ کرسکی اور وہ تعلیم کا خواب پورا نہ کرسکی ‘‘ ۔انہوں نے ناقص تعلیم نظام کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ’ ’ میں نے سال 1994 میں چھٹی جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے اور میں آج کی ان تعلیم یافتہ طالبات سے بہتر لکھ اور پڑھ سکتا ہوں۔‘‘ اس محلے میں تعلیمی پسماندگی کے پیچھے بہت سارے مسائل ہیں جن کی وجہ سے یہاں کی لڑکیاں تعلیم کے حوالے سے سجائے خواب پورا نہیں کرپاتیں۔
گاؤں میں ہائرسکینڈری اسکول نہ ہونے کی وجہ سے والدین اپنی بچیوں کو حصول تعلیم کے لیے گھر سے دوربھیجنے کے لیے تیار نہیںہیں ۔والدین کا کہنا ہے کہ ماحول سازگار نہ ہونے کی وجہ سے ہم اپنی بچیوں کو 4 کلومیٹر دور تعلیم حاصل کرنے کے لیے نہیں بھیج سکتے ۔اگر اس گاؤں میں ہائر سکینڈری اسکول ہوتا تو ممکن تھا کہ یہاں کی مزید طالبات تعلیم کی طرف متوجہ ہوجاتیں ۔گاؤں میں سڑک نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی لڑکیوں کی تعلیم میں بڑی رکاوٹ پیدا ہورہی ہے ۔ وہیں اساتذہ بھی وقت پر اسکول نہیں پہنچ پاتے ہیں۔اسی پرائمری اسکول کی استاد ’حاجہ بی‘ کہتی ہیں کہ ’ میں اس اسکول میں واحد معلمہ ہوں میرے ساتھ ایک اور استاد اسکول میں تعینات ہیں ۔ مجھے اسکول کے تمام کام دیکھنے پڑتے ہیں ۔اسکول سڑک سے تقریبا 4 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے ۔یہی وجہ ہے کہ میں وقت پر اسکول نہیں پہنچ پاتی ہوں۔‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’اس محلے کے والدین بھی اپنے پچوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دیتے ہیں کیونکہ وہ خود تعلیم یافتہ نہیں ہیں ۔ ‘‘
تحصیل منڈی کے دیگر کئی گاوں بھی اسی تعلیمی بہران کا شکار ہیں ۔جہاں کی لڑکیاں بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم حاصل نہ کر سکی ہیں ۔تحصیل منڈی کی پنچایت اتولی کے گاؤں سڑوئی کی بھی یہی حالت ہے۔گاؤں کے سماجی کارکن’’ شوکت علی‘ کہتے ہیں کہ ’’اس گاؤں کی 15 سے 20 لڑکیاں اسکول دور ہونے کی وجہ سے تعلیم چھوڑ چکی ہیں ۔گاؤں میں پرائمری اسکول سال 1985میں تعمیر کیا گیا تھا ۔لیکن ابھی تک یہ اسکول جوں کا توں ہے۔یہاں کی لڑکیاں بھی اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں لیکن انہیں 7سے10 کلومیٹر کا سفر طے کر کے تعلیم حاصل کرنے کے لیے منڈی جانا پڑتا ہے ۔اسی وجہ سے والدین ان لڑکیوں کو تعلیم کے حصول کے لیے دور جانے کی اجازت نہیں دیتے۔‘‘ضلع پونچھ کے سرحدی علاقہ کرماڑہ کے’’ شوکت بلوچ‘‘ کہتے ہیں کہ’’میری دو بیٹیاں ملائکہ کوثر اور صائمہ کوثر تین سال قبل اسکول دور ہونے کی وجہ سے 8ویں جماعت کے بعد تعلیم چھوڑ چکی ہیں ۔میری تیسری بیٹی’’ مقدس شوکت‘‘ آٹھویں جماعت میں تعلیم حاصل کررہی ہے ۔ دسویں جماعت کے بعد اگر اس گاؤں میں ہائرسکنڈری اسکول نہ دیا گیا تو میری بیٹی کے ساتھ ساتھ اس گاؤں کی کئی لڑکیوں کی تعلیم ادھوری رہ جائے گی ۔گاؤں کرماڑہ کے نائب سرپنچ ’’محمدرشید‘‘ اپنے علاقے کی تعلیمی صورتحال کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ یہاں کی اکثر بچیاں یا تو دسویں جماعت سے قبل ہی اپنی تعلیم چھوڑ دیتی ہیں یا پھر دسویں جماعت میں کامیاب ہونے کے بعد یہاں کی طالبات کو گاؤں میں ہائرسکینڈری اسکول نہ ہونے کی وجہ سے مجبوراً تعلیم چھوڑنی پڑتی ہے ۔‘‘
مجموعی طور پر ضلع کے تمام دیہی علاقوں میں طالبات کی تعلیم کی صورتحال یکساں ہے ۔اگرچہ ایک طرف یہاں کے نوجواں اعلی تعلیم کے حصول کے لیے جموں کشمیر سے باہر جاتے ہیں وہیں بیشتر مشکلات کے باعث ان علاقوں کی طالبات کی تعلیم صرف ہائی اسکول اور ہائر سکیننڈری اسکول تک ہی محدود رہ جاتی ہے۔ چند تو ایسی طالبات بھی ہیں جنہوں نے اسکول کا منہ تک بھی نہ دیکھا ہے ۔ وہیں ان علاقوں میں سڑک نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی طالبات کی تعلیم ادھوری رہ جاتی ہے اور والدین انہیں گھر پر بیٹھا لیتے ہیں ۔ تمام اسکولوں میں بنیادی تعلیم میں کمزوری پانے کے بعد والدین اپنی پچیوں کو اس وجہ سے بھی آگے کی تعلیم دلانا پسند نہیں کرتے کیونکہ وہ بچیاں دس دس جماعتیں پڑھنے کے بعد بھی اپنے بل بوتے پر نہ تو کوئی تحریر پڑھ سکتی ہیں اور نہ ہی لکھ سکتی ہیں ۔
مرکزی حکومت کی جانب سے طالبات کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ’’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘‘ اسکیم اس لئے شروع کی گئی تھی کہ اس اسکیم کے ذریعہ سے بچیوں کے تعلیمی نظم میں بہتری آسکے لیکن زمینی سطح پر اس اسکیم کے فعال ہونے کے اثرات نظر ہی نہیں آرہے ہیں۔اگر اس تعلیمی نظام کی یہی صورتحال مستقبل میں رہی تو بچیوں کی تعلیمی شرح میں مزید گراوٹ آسکتی ہے ۔اگر سماج میں خواتین تعلیم سے دور رہیں گی تو اس کے مضر اثرات سماج پر مرتب ہوںگے اور سماج جہالت کی جانب بڑھتا جائے گا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مرکزی حکومت اس تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے کلیدی اقدامات اٹھائے تاکہ ہمارا سماج جہالت کے اندھیرے میں ڈوبنے سے بچ سکے۔ اور ضلع پونچھ کی خواتین کے ساتھ ساتھ پورے ملک کی خواتین مردوں سے تعلیم میں سبقت لے سکیں۔ (یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا ایوارڈ2019 کے تحت لکھا گیا ہے)