’بابری مسجد اور رام جنم بھومی کے فیصلے کی گھڑی‘

0
0

نفرتوں کا خاتمہ اورمحبتوں کا فروغ ہی اہل قلم کا بنیادی فریضہ ہے :ڈاکٹر شیخ عقیل احمد
یواین آئی

نئی دہلی؍؍ادیبوں، شاعروں، فنکاروں اور خاص طور پر اردو زبان کے ادیبوں، شاعروں، کہانی کاروں نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کبھی پیچھے نہیں رہے اور امن کا قیام، معاشرہ میں خیرسگالی، یگانگت ان کی ترجیحات میں شامل رہی ہے ۔ یہ بات قومی اردو کونسل رائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے بابری مسجد رام جنم بھومی قضیہ پر سپریم کورٹ کے آنے والے فیصلے کے تناظر میں کہی۔ انھوں نے کہا کہ بابری مسجد اور رام جنم بھومی کے فیصلے کی وجہ سے ہندوؤں اور مسلمانوں میں عجب سی کشمکش اور خلفشار کی کیفیت ہے اور ایک حساس مسئلہ ہونے کی وجہ سے ملک میں نقضِ امن کا خطرہ بھی بڑھتا جارہا ہے ۔ پہلے بھی ہمارا ملک بابری مسجد اور رام جنم بھومی کی وجہ سے فسادات جھیل چکا ہے ۔ اب موجودہ حالات میں بھی اسی طرح کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ اس لیے تمام حساس اور بیدار مغز ذہنوں کی ذمے داری ہے کہ وہ امن اور اتحاد برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ انہوں نے کہا کہ امن ہر ملک اور معاشر ے کی بنیادی ضرورت ہے ۔ پرامن معاشرے میں رہنے والی قومیں ہی ترقی کی منزلیں طے کرتی ہیں یو این آئی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس حساس معاملے پر تمام لوگوں کو احتیاط برتنے خاص طور پر ردِّ عمل کے اظہار میں محتاط ہونے کی شدید ضرورت ہے کیونکہ اس معاملے کو اگر مذہبی اور فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا تو اس سے ہمارے معاشرے میں انتشار پیدا ہونا لازمی ہے ۔ ۔ اسی لیے انسان دوست اور حساس ادیبوں کا فرض ہے کہ وہ نفرتوں کا خاتمہ کرکے محبتوں کا چراغ روشن کریں اور انسان دوستی کے جذبات کو فروغ دیں کیونکہ ہندو مسلم اتحاد سے ہی ہمارا ملک ترقی کرسکتا ہے ۔ ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے مزید کہا کہ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ مولانا ابوالکلام آزاد جیسے دانشور نے آزادی اور سوراج کے مقابلے میں ہندو مسلم اتحاد کو ترجیح دی تھی۔ انھوں نے اپنے تاریخی خطاب میں کہا تھا کہ ’’آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بدلیوں سے اُتر آئے ، اور دہلی کے قطب مینار پر کھڑا ہوکر یہ اعلان کرے کہ سوراج چوبیس گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے بشرطیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دست بردار ہوجائے تو میں آزادی سے دست بردار ہوجاؤں گا، لیکن ہندو مسلم اتحاد نہیں چھوڑوں گا کیونکہ اگر ہمیں سوراج نہیں ملا تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا، لیکن اگر ہندو مسلم اتحاد قائم نہ ہوسکا تو یہ عالمِ انسانیت کا نقصان ہوگا۔‘‘ قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر نے کہا کہ ہمارے لیے انسانیت، تہذیبی تکثیریت، کثرت میں وحدت اور ثقافتی تنوع کا کا تحفظ زیادہ ضروری ہے کیونکہ یہی ہمارے ملک کا تشخص اور ہمارے معاشرے کی شناخت ہے ۔اس لیے بابری مسجد اور رام جنم بھومی کا جو بھی فیصلہ سپریم کورٹ کی جانب سے آئے ہمیں بلا تامل اور تعصب قبول کرنا چاہیے اور اس میں جذباتیت کے مظاہرے سے بچنا بھی چاہیے ۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں ہر حال میں امن قائم رکھنے کی کوشش کرنی ہوگی اور اس کے لیے ملک کی مختلف تنظیموں کے ساتھ ساتھ شاعروں اور ادیبوں کو بھی آگے آنا ہوگا کیونکہ ہمارے ملک کی ترقی اور خوشحالی کا راز صرف اور صرف بقائے باہم اور اتحاد و یکجہتی میں مضمر ہے ۔ اگرہمارا معاشرہ انتشار کا شکار ہوجائے گا تو ہماری تہذیبی اور معاشرتی ترقی کے سارے خواب چکناچور ہوجائیں گے اور ہم دوسرے ملکوں سے ہر محاذ پر پچھڑ تے چلے جائیں گے ۔ اس لیے اگر ہمیں اپنے ملک کا مستقبل عزیز ہے تو ہمیں نفرت، تعصب ، شدت پسندی کے بجائے امن ، یگانگت اور یکجہتی کی آواز بلند کرنی ہوگی اور پیغامِ اتحاد و محبت کو عام کرنا ہوگا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا