نئی دہلی ؍؍ہندستانی خاتون آئس ہاکی ٹیم کی لداخ علاقے سے شروع ہوئے سفر تحریک و ترغیب سے پر رہا ہے اور اس ٹیم نے اپنے سفر کا آغاز کرکٹ میں استعمال کئے جانے والوں سامانوں سے کیا تھا۔کھیل سے جڑے کپڑے بنانے والی انڈر آرمر کمپنی کی طرف سے جمعرات کو گروگرام میں منعقد ایک پروگرام میں ہندستانی خاتون ہاکی ٹیم کی کپتان سیوانگ چسکت نے ٹیم جدوجہد کے متعلق کہا کہ لداخ سے لے کر یہاں تک کی کہانی ایک بڑی کامیابی ہے ۔یہ پروگرام دراصل کھلاڑیوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی عالمی مہم کے تحت منعقد کیا گیا۔پروگرام کے دوران منیجنگ ڈائریکٹر تشار گوکل داس اور خاتون آئس ہاکی یونین کے افسران بھی موجود رہے ۔کپتان سیوانگ نے یو این آئی سے بات چیت میں کہاکہ پوری ٹیم کا لداخ سے لے کر یہاں تک کا سفر انتہائی جدوجہد سے بھرپور رہا ہے اور اب بھی ٹیم کا جدوجہد جاری ہے ۔ٹیم کے طور پر ہم نے ہر رکاوٹ کو چیلنج کے طور پر لیا۔جب ہم نے شروعات کی تھی تو ہمارے پاس کوئی آئس رنک نہیں تھا اور کھیل کے لئے ضروری اشیاء کا بھی فقدان تھا لیکن ملک کی نمائندگی کرنے کے احساس کے سامنے سب کچھ بونا تھا۔انہوں نے کہا کہ کھلاڑیوں نے کرکٹ میں استعمال کئے جانے والوں سامانوں سے اپنے کھیل کا آغاز کیا۔ آغاز میں تمام کھلاڑیوں کو مناسب سامان نہ ملنے سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن بعد میں آہستہ آہستہ ہی سہی لیکن اس صورت حال میں تبدیلی آئی اور لوگ اب اس کھیل کو لے کر بیدار ہو رہے ہیں ۔ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں نے اس دوران ہندستانی کھیل اتھارٹی سے خواتین آئس ہاکی کو تسلیم کرنے کی درخواست کی۔کھلاڑیوں نے کہا کہ ان کے کھیل کو منظوری نہیں ملنے کی وجہ سے انہیں ا سپانسر نہیں مل پاتے ہیں جس کا اثر ٹیم کی کارکردگی پر براہ راست طور پر پڑتا ہے ۔ٹیم کی تمام ضروریات فی الحال ہندستانی خاتون آئس ہاکی یونین دیکھتی ہے ۔ہندستانی خاتون ہاکی ٹیم کا آغاز سال 2016 سے ہوا ۔ ٹیم عوامی تعاون کی مدد سے اپنا پہلا ٹورنامنٹ کھیلنے گئی لیکن انہیں اس دوران شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ٹیم کو شناخت اگرچہ سال 2017 میں اس دوران ملی جب وہ آئی آئی ایچ ایف چیلنج کپ آف ایشیا میں چوتھے نمبر پر رہی۔کھلاڑی اب حکومت سے رنک اور بنیادی ڈھانچے بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں جس سے وہ ٹورنامنٹوں میں حصہ لینے کے لئے بہتر تیاری کر سکیں۔ٹیم کا کہنا ہے کہ اتراکھنڈ کے دہرہ دون میں ایک بڑا آئس رنک میدان ہے جسے حکومت چاہے تو اس کی تعمیر نو کر سکتی ہے ۔غور طلب ہے کہ کھلاڑیوں کے سامنے سہولتوں کا فقدان ہے ۔لداخ میں صرف دو ماہ برف پڑتی ہے اور ٹیم صرف اسی دوران برف کے رنک پر مشق کر پاتی ہے ۔ؔ