یورپی اراکین پارلیمان کی سرگرمیاں سیکورٹی زون تک ہی محدود رہیں

0
0

یواین آئی

سرینگر؍؍اہلیان وادی نے وادی کے دورے پر آئے یورپی یونین کے وفد کا دورہ وادی کے رہائشی علاقوں کے بجائے سیکورٹی زون تک ہی محدود رہنے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔بتادیں کہ مرکزی حکومت کی طرف سے جموں کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے فیصلے کے نتیجے میں وادی میں پیدا شدہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے 23 ارکان پر مشتمل یورپی یونین کا ایک وفد منگل کی صبح وارد وادی ہوا اور بدھ کی صبح نئی دہلی واپسی اختیار کرگیا۔لوگوں نے یورپی یونین کے وفد کی سرگرمیوں کا دائرہ کار ان کے ہوٹل سے لے کر بادامی باغ فوجی چھاؤنی تک ہی محدود رہنے پر اظہار مایوسی کرتے ہوئے کہا کہ وفد کو کم سے کم پائین شہر کے رہائشی علاقوں کا دورہ کرکے لوگوں کے ساتھ بات کرنی چاہیے تھی۔سری نگر کے رہنے والے ایک شہری نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر یو این آئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین کے وفد کو شہر کے رہائشی علاقوں کا دورہ کرکے عام لوگوں کے ساتھ بات کرنی چاہیے تھی۔انہوں نے کہا: ‘یورپی یونین کے وفد کی سرگرمیاں سری نگر کے سیکورٹی زون تک ہی محدود رہیں، وہ لوگ اپنے ہوٹل سے بادامی باغ فوجی چھاؤنی تک ہی محدود رہے، انہیں کم سے کم اولڈ سٹی کے رہائشی علاقوں کا دورہ کرکے عام لوگوں کے ساتھ بات کرنی چاہیے تھی’۔ایک سبکدوش لیکچررنے اپنا نام مخفی رکھنے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس وفد کو جنوبی کشمیر کا دورہ بھی کرنا چاہیے تھا اور یہاں سماج کے مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کے ساتھ ملاقی ہونا چاہیے تھا۔ان کا کہنا تھا: ‘اگر یہ وفد وادی کی موجودہ صورتحال سے پوری طرح واقف ہونا چاہتی ہے تو انہیں چاہیے تھا کہ وادی کے رہائشی علاقوں کا دورہ کرکے سماج کے مختلف طبقہ ہائے فکر سے وابستہ لوگوں کے ساتھ بات کرتے، عام لوگوں سے بھی سڑکوں پر گفتگو کرتے، لیکن ان کی سرگرمیاں محدود رہیں’۔ایک عمر رسیدہ شہری نے کہا کہ نامساعد حالات کے دوران ایسے وفود کا یہاں آنا بھی اب ایک معمول بن گیا ہے۔انہوں نے کہا: ‘جب جب بھی یہاں حالات خراب ہوجاتے ہیں تو ملکی وغیر ملکی وفود یہاں تشریف لانا شروع کرتی ہیں لیکن آج تک کسی بھی وفد نے ہمارے لئے کوئی خاص کام نہیں کیا ہے یہ لوگ وارد وادی ہوکر یہاں کی قدرتی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوکر ایک عدد بیان یا زیادہ سے زیادہ ایک رپورٹ تیار کرتے ہیں’۔دریں اثنا ایک سماجی کارکن نے کہا کہ قریب 20 وفود یورپی یونین کے وفد سے ملاقی ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ وفد کے ساتھ مواصلاتی نظام اور انٹرنیٹ پر پابندی کے معاملوں کے علاوہ قومی مفاد کے بھی کئی امور پر گفت وشنید کی گئی۔تاہم ذرائع کے مطابق یورپی یونین کی وفد کے ساتھ جن وفود نے ملاقات کی ان کی فہرست حکومت نے ہی مرتب کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بعض سیاسی جماعتوں کے لیڈروں نے بھی وفد کے ساتھ ملاقی ہونے کی کوشش کی لیکن انہیں ملاقات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔دریں اثنا نیشنل کانفرنس نے یورپی یونین کے وفد کے دوہ کشمیر کو فضول مشق قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدام وادی کی موجودہ صورتحال کا جواب نہیں ہیں۔پی ڈی پی نے یورپی یونین کے وفد کے دورہ کشمیر کے بارے میں کہا ہے کہ مرکزی حکومت وادی میں جاری غیر یقینی صورتحال کو چھپانی چاہتی ہے۔قابل ذکر ہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے جموں کشمیر کو حاصل خصوصی درجے کو ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف وادی میں قریب تین ماہ سے ہڑتالوں کا سلسلہ جاری ہے۔ علاوہ ازیں نیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ پی ایس اے کے تحت اپنی رہائش گاہ پر نظر بند ہیں جبکہ اْن کے فرزند اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ بھی ہری نواس میں مسلسل بند ہیں۔ پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی لگاتار نظر بند ہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا