اس بستی کوکوئی گودلے گا؟

0
0

پیر اظہر
کپواڑہ، کشمیر
مرکزی حکومت گاﺅں کی ترقی پر زوردیتی رہی ہے۔ حکومت کا خےال ہے کہ گاﺅں کی ترقی کے بغےر ملک کی ترقی کا خواب ادھورا ہے۔مرکز کی اسکےم سانسد آدرش گرام ےوجنا کے تحت ملک کے وزےر اعظم نے اپنے پارلےمانی حلقہ ورانسی کے ککھراہےا گاﺅں کو گود لےا تھا۔ اکنامکس ٹائمس کی اےک رپورٹ کے مطابق وزےر اعظم نے جےا پو ر اور ناگ پور بھی گود لےا ہے ۔ اس ےوجنا کے تحت کئی گاﺅں کو سےاسی لےڈران نے گود لےنے کا دعویٰ تو کےا لےکن کےا رےاست جموں و کشمےر کی اس بستی کو گود لےنے کی ضرورت نہےں ہے؟ضلع کپواڑہ کی تحصیل کرالہ گنڈ سے ایک کلو میٹر کی مسافت پر شیخ پاری محلہ کے نام سے ایک بستی آباد ہے۔

اس بستی کو یہ نام یہاں کے رہنے والے پسماندہ ذات شیخ سے ملا ہے۔ 10 چولہوں پر مشتمل یہ بستی دور جدید میں بھی تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم ہے ۔مذکورہ بستی میں رہنے والے افراد کواچھوت سمجھ کر یہاں آس پاس کی بستی ان سے کوئی وابستگی نہ رکھتی ہے، وہیں سرکار نے بھی اس بستی کو تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم رکھا ہے۔ پسماندہ طبقہ سے وابستہ دس گھر چالیس سال سے یہاں سکونت پذیر ہیں ۔اس ضمن میںجب یہاں کے مقامی باشندگان سے بات کی گئی تو انہوں نے پر نم آنکھوں سے انتظامیہ کی عدم توجہی اور اپنی زبوں حالی کی داستان بیان کرتے ہوئے بتایا کہ مذکورہ بستی کے لوگوں کو اس ریاست میں کسی طرح کا حق حاصل نہیں ہے اور وہ بنےادی سہولیات سے محروم ہیں۔انکا مزید کہنا تھا کہ وہ مکمل طورپر بد حالی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔محلہ شیخ پاری کے لوگ شاخسازی کا کام کر کے زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ سرکار کی طرف سے ان لوگوں کو ابھی تک نہ ہی پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت گھر تعمیر کرنے کیلئے کوئی پیسہ دیا گیا ہے اور نہ ہی سووچھتا کے دور مےں سووچھ بھارت ابھےان کے تحت بےت الخلا تعمےر کئے گئے ہےں ۔بلکہ رفع حاجت کیلئے یہ غریب لوگ دوسرں کے باغات میں جاتے ہیں جہاں پر انکو اکثر اوقات رفع حاجت کے دوران باغ مالکان کے تشدد کا شکار ہونا پڑتا ہے ۔جبکہ مذکورہ محلے کے لوگوں کو اجولا اسکیم کے تحت گیس کنکشن بھی نہیں دئے گے ہیں اور اتنا ہی نہیں بلکہ مذکورہ محلے کے لوگوں کو محکمہ امورصارفین اور عوامی تقسیم کاری کی طرف سے APLراشن کاڈ دئے گئے ہیں جس کی وجہ سے مذکورہ غریب کنبوں کو گیس کنکشن نہ مل پائے ۔اس پر طرہ امتےاز ےہ کہ لوگ چاول صاف کرنے کیلئے چھج بناکر اور بھیک مانگ کر زندگی کے ایام گز بسر کررہے ہیں۔ مذکورہ محلہ میں محکمہ بجلی نے آٹھ برس قبل ترسیلی لائین اکھاڑکر واپس لے لی ہے تاہم بجلی کی کوئی سہولیت میسر نہ ہونے کے باوجود بھی مذکورہ کمبوں کو آٹھ سال سے بجلی کے بل بھےجے جاتے ہےں اور ان غریب ومفلس لوگوں سے کراےہ وصول کیا جاتا ہے ، ابھی تک سوبھاگیہ اسکیم کے تحت تر سیلی لائین نہیں بچھائی حالانکہ وزیر اعظم نے حال ہی میں ایک اعلان کیا تھا کہ ہندوستان کے ہر گھر تک بجلی پہنچائی گئی ہے۔ مذکورہ محلہ میں پینے کے پانی کی بھی کوئی سہولیت میسر نہیں ہے اور نہ ہی آج تک محکمہ صحت عامہ نے مذکورہ محلے کو واٹر سپلائی اسکیم کے دائرے میں لایا ہے ۔ یہاں کی آبادی دور دراز کا سفر کر کے ندی نالوں سے بارش کا پانی لاکر گزارہ کرتے ہیں ۔محلہ کے اکثر لوگ نا خواندہ ہیں جبکہ چند بچے سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاتے توہیں لیکن انکی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے بلکہ اساتذہ ان بچوں کو گندے اور غریب جان کر تعلےم دےنے مےں عار محسوس کرتے ہےں جسکی وجہ سے یہ بچے تعلیم جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہونے کے در پہ ہیں ۔
قارئین ملک کے آئین میں پسماندہ طبقہ کے لوگوں کے لئے خصوصی درجہ بندیوں کی گنجائش رکھی گئی ہے ، ان کے لئے مختلف قسم کے کمیشنوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، خواتین کو رزروےشن کے دعوے ، تعلیم اور روزگار میں رزروےشن وغیرہ کی باتیں آخر کس حد تک سچ ثابت ہو رہی ہیں ۔ جبکہ صحیح معنوں میں ان چیزوں کے حقدار وں کو اچھے سے رہنے کے لئے گھرنہیں ، پہننے کے لئے کپڑے نہیں ، کھانے کے لئے تین وقت کی روٹی میسر نہ ہے ۔سرکاری اسکیموں کا فائدہ ان لوگوں کو کس حد تک مل رہا ہے ، ان کے لئے بنائے گئے کمیشن کس درجہ تک ان لوگوں کو سہولیات پہنچا رہے ہیں اس کا اندازہ مذکورہ بستی کے مکینوں کی داستان سن کر قارئین خود لگا سکتے ہیں ۔ ان لوگوں کی حالت زار کو دیکھ اور سن کر ےہی کہا جا سکتاہے کہ ضلع کپواڑاکے شیخ پاری محلہ کی اس بستی کو بھی گود لےنے کی ضرورت ہے۔

(چرخہ فےچرس )

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا