0
0

احتجاج اور جھڑپیں،پائین و بالائی شہر میں پتھرائو کے واقعات
یواین آئی

سرینگر؍؍یورپی پارلیمان کے 23 رکنی وفد کے دو روزہ دورہ ‘سری نگر’ کے پہلے دن وادی کشمیر میں منگل کے روز غیر معمولی ہڑتال رہی جس دوران معمولات زندگی بری طرح متاثر رہے۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق ہڑتال کے دوران درجنوں جگہوں بالخصوص سری نگر کے پائین و بالائی شہر میں پتھرائو کے واقعات پیش آئے جس کے بعد سیکورٹی فورسز کی احتجاجیوں کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔ کچھ علاقوں میں لوگوں کی طرف سے احتجاجی جلوس برآمد کئے گئے جن کے شرکاء کو سیکورٹی فورسز نے آنسو گیس کے گولوں اور پیلٹ بندوقوں کے استعمال سے منتشر کیا۔ سیکورٹی فورسز کی کارروائی میں متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ علاوہ ازیں پتھرائو کی وجہ سے درجنوں نجی گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔سرکاری ذرائع کے مطابق وادی میں منگل کو بھی لوگوں کی آزادانہ نقل وحرکت پر کوئی پابندی عائد نہیں رہیں۔ تاہم وادی بھر میں ہر طرح کی انٹرنیٹ خدمات منگل کو 86 ویں دن بھی معطل رہیں۔ اس کے علاوہ پری پیڈ موبائل فون خدمات کو بھی بند رکھا گیا ہے۔ 23 رکنی یورپی پارلیمان کا وفد منگل کو سری نگر پہنچا جہاں وفد میں شامل اراکین اپنے دو روزہ قیام کے دوران سول، فوج و پولیس انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقات کریں گے۔یہ مرکزی حکومت کے پانچ اگست کے فیصلوں، جن کے تحت جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم کی گئی اور اسے دو حصوں میں منقسم کرکے دو یونین ٹریٹریز میں تبدیل کیا گیا، کے بعد کسی بھی غیر سرکاری و غیر ملکی وفد کا پہلا دورہ کشمیر ہے۔ یورپی وفد نے پیر کے روز قومی راجدھانی نئی دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔ مرکزی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کو جموں کشمیر کے خصوصی درجہ کو ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف وادی میں غیر اعلانیہ ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جو ہنوز جاری ہے۔ وادی میں منگل کو بھی غیر اعلانیہ ہڑتال کا سلسلہ جاری رہتے ہوئے 86 ویں دن بھی معمولات زندگی متاثر رہے۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق وادی کے اطراف واکناف میں منگل کے روز بھی ہڑتال کی وجہ سے معمولات زندگی بری طرح متاثر رہے۔ جو دکانیں صبح یا شام کے وقت کھلتی تھیں وہ دن بھر بند رہیں۔ سڑکوں پر بہت کم تعداد میں نجی گاڑیاں چلتی ہوئی نظر آئیں۔ اس دوران منگل کے روز جموں کشمیر سٹیٹ بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی طرف سے لئے جانے والے دسویں جماعت کے امتحانوں کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔شہر سری نگر کے تمام علاقوں بشمول تجارتی مرکز لالچوک میں منگل کے روز بھی ہڑتال رہی۔ دن بھر دکانیں بند رہیں اور تجارتی سرگرمیاں متاثر رہیں تاہم سڑکوں پر اکا دکا نجی گاڑیاں چلتی ہوئی نظر آئیں۔ عینی شاہدین کے مطابق منگل کے روز سری نگر کے تمام بازار مکمل طور پر بند رہے۔ جو دکانیں صبح کے وقت دس بجے تک کھلی رہتی تھیں وہ دن بھر بند رہیں۔ اس کے علاوہ چھاپڑی فروش بھی سڑکوں پر سے غائب نظر آئے۔ وادی کے دیگر ضلع صدرمقامات و قصبہ جات میں بھی منگل کے روز دن بھر بازار بند رہنے، تجارتی سرگرمیاں متاثر رہنے اور سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل معطل رہنے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ادھر وادی میں ریل سروس کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ سروس بھی پانچ اگست سے مسلسل معطل ہیں تاہم مواصلاتی نظام پر عائد پابندی کو بتدرج ہٹایا جارہا ہے پہلے لینڈ لائن سروس بحال کی گئی اور بعد ازاں پوسٹ پیڈ موبائل سروس کو بحال کیا گیا لیکن پری پیڈ موبائل سروس لگاتار بند ہے۔ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ ریل سروس کو لوگوں، ریلوے عملے اور املاک کے تحفظ کے پیش نظر بنا بر احتیاط بند رکھا گیا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک طرف انتظامیہ یہاں حالات نارمل ہونے کے بلند بانگ دعوے کررہی ہے تو دوسری طرف ریل سروس گزشتہ قریب تین ماہ سے مسلسل بند ہے جس کے باعث لوگوں کو گوناگوں مسائل کا سامنا ہے۔وادی میں براڈ بینڈ اور موبائل انٹرنیٹ سروس پر پابندی مسلسل جاری ہے جس کے باعث لوگوں بالخصوص صحافیوں اور طلبا کو متنوع مشکلات کا سامنا ہے۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی معطلی کی وجہ سے انہیں اپنے دفتروں کے بجائے محکمہ اطلاعات و رابطہ عامہ کے ایک چھوٹے کمرے، جس میں میڈیا سینٹر قائم ہے، میں بیٹھ کر کام کرنا پڑتا ہے جہاں کئی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ انہوں نے انتطامیہ سے کم سے کم براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس کو بحال کرنے کی اپیل کی۔مختلف مسابقی امتحانوں کی تیاریاں کرنے والے طلبا نے بھی انتظامیہ سے انٹرنیٹ سروس بحال کرنے کی اپیل کی ہے۔ طلبا کے ایک گروپ نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ انٹرنیٹ کی معطلی سے وہ مسابقتی امتحانات کے لئے خاطر خواہ تیاریاں نہیں کرپارہے ہیں۔ انہوں نے انتظامیہ سے انٹرنیٹ سروس بحال کرنے کی اپیل کی۔وادی میں اگرچہ سرکاری دفاتر میں کام کاج بحال ہوا ہے لیکن تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں تاہم منگل کے روز دسویں جماعت کے امتحانات شروع ہوگئے جس کے باعث تعلیمی اداروں میں طلبا کی گہماگہمی دیکھی گئی۔دریں اثنا انتظامیہ نے محبوس سیاسی لیڈروں کی مشروط رہائی کا سلسلہ شروع کیا ہے تاہم نیشنل کانفرنس کے صدر اور تین بار جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے اور دو بار رکن پارلیمان رہنے والے ڈاکٹر فاروق عبداللہ پی ایس اے کے تحت اپنی رہائش گاہ پر نظر بند ہیں جبکہ اْن کے فرزند اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ ہری نواس میں بند ہیں اور پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی ابھی نظر بند ہی ہیں۔ مزاحمتی لیڈارن بشمول سید علی گیلانی و میر واعظ عمر فاروق بھی مسلسل خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ وادی میں قریب تین ماہ سے جاری غیر یقینی صورتحال کے بیچ ہی ماہ رواں کی 24 تاریخ کو ریاست کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ہونے والے بلاک ترقیاتی کونسل انتخابات بھی منعقد ہوئے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا