یہ کاروانِ رُک گیا،حالات کے سامنے جھُک گیا

0
0

تاریخ بن گئی ہے ‘ کاروان امن بس’ خدمات
یواین آئی

سرینگر؍؍جموں وکشمیر کے سری نگر سے پاکستان زیرانتظامکشمیر کی راجدھانی مظفرآباد کے درمیان چلنے والی کاروان امن بس خدمات ریاست کے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کے بعد تاریخ بن گئی ہے ۔مرکزی حکومت نے گزشتہ 5اگست کو جموں وکشمیر سے آرٹیکل 370اور 35اے کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں لداخ اور جموں وکشمیر میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیاتھا۔ کاروان امن بس خدمات 1947میں ملک کی تقسیم کے دوران الگ ہوئے اہل خانہ کو ملانے کے لئے 2005میں شروع کی گئی تھی۔سری نگر اور مظفرآباد کے درمیان پہلی کاروان امن بس کو سات اپریل 2005 کو ہری جھنڈی دکھائی گئی تھی۔یہ بس خدمات شروع کئے جانے کے وقت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ دونوں فریقوں کے ریاستی فہرست میں شامل موضوعات کے تحت لوگوں کو سرحد عبور کرنے کے اجازت دی جائے گی۔ اس بس سے سفر کرنے والے مسافروں کو پاسپورٹ کی جگہ ‘سفرپرمٹ’ دی جائے گی۔یہ فیصلہ بھی لیا گیا تھا کہ دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے منظوری ملنے کے بعد ہی سفر کی اجازت دی جائے گی۔دہشت گرد تنظیموں کے اعتراض کے باوجود حریت کانفرنس کے انتہاپسند گروپ کے سربراہ سید علی شاہ گیلانی اور ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی کے سربراہ احمد شاہ نے اس بس میں سفر کیا۔گزشتہ 24 برسوں کے دوران بس خدمات کئی مواقع پر معطل رہی۔ تودہ گرنے کی وجہ سے ،برف باری جیسے قدرتی آفات، کچھ سیاسی وجوہ اور اڑی سیکٹر میں امن سیتو کی مرمت کے کاموںکی وجہ سے اور کچھ دیگر وجوہات سے بس خدمات معطل رہیں۔دونوں ممالک کے درمیان آخری مرتبہ یہ بس 25 فروری کو چلی تھی۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں امن سیتو کی مرمت کی وجہ سے بس خدمات معطل رہنے کی اطلاع دی گئی تھی۔ بعد میں پاکستان کی جانب سے کوئی اطلاع نہیں دی گئی ہے اور بس خدمات معطل ہی رہی۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا