اُلٹی پڑ گئیں سب تدبیریں!

0
0

5اگست جب جموں وکشمیرسے دفعہ370کاخاتمہ ہوا،جموں وکشمیراورلداخ الگ الگ ٹکڑوںمیں تقسیم کرنے کافیصلہ ملک کی پارلیمنٹ میں ہوا،جموں وکشمیرکوالگ مرکزکازیرانتظام علاقہ بنانے جبکہ لداخ کو الگ سے یوٹی کادرجہ دینے کااعلان ہوا،ہندوستان کے تاج یعنی جموں وکشمیرسے ریاست کادرجہ چھین لیاگیا،ریاست میں اپوزیشن جماعتوں کادائرہ محدود کردیاگیا، سیاسی سرگرمیاں سیاسی رہنمائوں کے گھر کی چوکھٹ سے باہرنہ نکلنے دی گئی،اس بیچ اعلان ہواکہ جموں وکشمیر اور لداخ میں پہلی مرتبہ بی ڈی سی انتخابات ہونگے، جواکتوبرمیں ہوناطے پائے گئے، ان چنائومیں اپوزیشن جماعتیں شرکت کی پوزیشن میں نہ تھیں، اُنہیں چناوی مہم چلانے کی مہلت کہاں تھی چونکہ وہ کھلی فضامیں سانس بھی لینے کے قابل نہ تھے، اپنے ہی گھروں میں نظربند ودیگر مقامات کوجیل میں تبدیل کرکے انہیں قید کیاگیاتھا، بڑی ریاستی جماعت نیشنل کانفرنس اورپی ڈی پی کی اعلیٰ قیادت جیلوں میں یااپنے گھروں میں نظربندرکھی گئی تھی، کوششیں بہت ہوئیں کہ وہ بھی باہر آئیں لیکن صورتحال اس قدربہترنہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں سیاسی طورپرسرگرم ہوجاتیں اور کسی چناوی عمل میں اپنے پائوں پسارپاتیں، البتہ مجبوراًانہیں چنائوبائیکاٹ کرناپڑا،حالانکہ کانگریس بھی بائیکاٹ پرمجبورہوئی کیونکہ اس کے قدآوررہنماوسابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزادکوکئی کوششوں کے باوجودجموں وکشمیرکادورہ نہ کرنے دیاگیابمشکل وہ سپریم کورٹ سے اجازت نامہ حاصل کرنے کے بعد ریاستی دورے پرآئے، اس طرح کے حالات میں محض ایک ہی جماعت یعنی مرکزمیں حکمران جماعت بھاجپاہی تھی کس کے بعد تمام دروازے ومواقع کھلے تھے، موجودتھے، وہ سرگرم رہی اور چنائومیں بڑی اکثریت کیساتھ کامیابی کادعویٰ کرتی رہی، اس کے لیڈران نے دفعہ370ختم کرنے کے فیصلے کے سہارے خوب مہم چلائی اور اُمیدبنائے رکھی کہ خصوصی درجہ ختم کرنے سے ریاستی عوام خوش ہے اوربھاجپاکوبی ڈی سی چنائومیں بھاری اکثریت سے کامیابی ملے گی، لیکن سب اُلٹ ہوگیا، بھاجپا جہاں ڈھائی سو سے زائد نشستوں پہ فتحیاب ہونے کے دعوے کررہی تھی لیکن اِسے جموں کے اس کے خاص دوتین اضلاع میں ہی منہ کی کھانی پڑی ہے،بھاجپانے81نشستوں پرکامیابی حاصل کی،صوبہ جموں میں آزاد امید واروں کو 88 ، بی جے پی کو 52 اور جے کے این پی پی کو 8 بلاکوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔بی ڈی سی چنائوکیساتھ ساتھ24اکتوبرکوہی ریاست مہاراشٹرااورہریانہ کے اسمبلی انتخابات کے بھی نتائج سامنے آئے جہاں بھاجپا کو حسبِ اُمید نتیجہ نہ ملا، ان ریاستوں میں بھاجپانے عوامی مسائل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دفعہ370ختم کرنے کوزیادہ اُچھالاجس نے اسے کوئی فائدہ نہ دیایعنی 370نام کی بھینس نے دودھ دیاہی نہیں!تمام چناوی نتائج سے یہی نتیجہ اخذ کیاجاسکتاہے کہ سیاسی جماعتوں کوعوامی مسائل سمجھنے ہونگے اور ان مسائل کو نظراندازنہ کرتے ہوئے ان کاازالہ کرناہوگا، بڑے دعوے، بڑے اعلانات سے عام آدمی کاپیٹ بھرنے والانہیں ،آج کاووٹر بڑادانشمند ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا