’ریاست شان،درجہ ختم کرناہماری گردنیں اُڑادینے جیسا‘

0
0

جموں وکشمیرکومرکزکازیرانتظام علاقہ بناکرملک کی واحدڈوگرہ ریاست کومٹادیاگیا:ہرش دیوسنگھ

’پڑھے لکھے لوگ سمجھتے ہیں اُنہیں پیچھے دھکیلاگیاہے‘

370ختم ہونے کے بعدبھی جموں کوبھاجپانے ’کیسری جزیہ‘دیااورکشمیرکیلئے پیکیج پہ پیکیج کاسلسلہ جاری
پریتی مہاجن/ابراہم خان

جموں؍؍جموں وکشمیرنیشنل پینتھرس پارٹی کے چیئرمین ،سابق وزیر وسابق رکن اسمبلی ہرش دیوسنگھ نے جموں وکشمیرکوریاست سے مرکزکازیرانتظام علاقہ بنانا’گردن کاٹنے ‘جیسا ظالمانہ قدم قرار دیتے ہوئے مانگ کی کہ ریاست کادرجہ بحال کیاجاناچاہئے اور جموں وکشمیرکے عوام کو زمینیوں اورملازمت پہ حقوق دئیے جانے چاہئے۔اُنہوں نے کہاکہ زمینوں اورملازمت کی ضمانت نہ ہونے سے لوگ خوف وہراس میں مبتلاہیں، ہرش دیوسنگھ نے ایوانِ بالاکو خزانہ عامرہ پرایک بوجھ قرار دیتے ہوئے کہاکہ پینتھرس پارٹی ہمیشہ اِسے ’سفیدہاتھی‘قرار دیتے ہوئے خزانہ عامرہ سے بوجھ اُتارنے کی مانگ کرتی تھی جو اب ریاست کی تشکیلِ نو کے تحت ختم کیاگیاہے،یہ خوش آئند قدم ہے۔اُنہوں نے جموں میں ٹول پلازے کھلنے کی شدیدمخالفت کرتے ہوئے اِسے بھاجپاکی جانب سے ’کیسری جزیہ ‘قرار دیا۔یہاں جموں میں اپنے دفتر پرلازوال کیساتھ ایک خاص بات چیت میں ہرش دیوسنگھ نے جموں وکشمیرسے خصوصی درجہ ختم کئے جانے کے بعد سے پیداشدہ صورتحال پرکھل پراپنے خیالات رکھے۔ ایک سوال کے جواب میں ہرش دیو سنگھ نے کہاکہ دفعہ370کاخاتمہ خوشآئند ہے، جس کاہم خیرمقدم کرتے ہیں لیکن ریاست کادرجہ ختم کرناافسوسناک اورناقابل قبول ہے۔انہوں نے کہاکہ مرکزکے زیرانتظام علاقہ بناکراس ڈوگرہ ریاست کی شان ختم ہوئی ہے۔اُنہوں نے کہا’’ ریاست توایک شان ہوتی ہے، یہ بہت پرانی اورواحد ڈوگرہ سٹیٹ تھی ہندوستان کی جوڈوگرہ شاہی کی ایک شناخت تھی‘‘۔اُنہوں نے مزیدکہا’’چھوٹادرجہ ہے،ہم اُوپر سے نیچے کوآئے ہیں ہم پیچھے جارہے ہیں،اسے اس طرح ڈائون گریڈکیاگیا‘‘۔اُنہوں نے کہاکہ یہ پیچھے دھکیلنے والاقدم ہے۔ہرش دیوسنگھ نے کہا’’کبھی ریاست کو مرکزکازیرانتظام علاقہ نہیں بنایاگیا ہمیشہ مرکزکے زیرانتظام علاقوں کو ریاست بنایاگیا لیکن یہاں اُلٹا ہوا‘‘۔اُنہوں نے کہاکہ کابینہ کے پاس جواختیارات تھے وہ ختم ہوجائیں گی، وزیراعلیٰ کے اختیارات کمزورہوئے، بیوروکریسی قابومیں نہ رہے گی،جوقانون مرکزکے زیرانتظام علاقہ میں بنتے ہیں وہ لیفٹیننٹ گورنرکو بھیجنے ہیں وہ منظور کریں یا نہ ،یہ اُن کی مرضی ہوتی ہے، یاپھرانہیں صدرِ جمہوریہ کو بھیجناہوتاہے‘‘۔انہوں نے کہا’’ یوٹی میں افسر شاہی کو بڑھاواملے گا، جہاںاچھی حکمرانی ناممکن ہے‘‘۔ہرش دیوسنگھ نے کہا’’ ہرآدمی سمجھتاہے کہ اُس کا درجہ گھٹ گیاہے،آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے دھکیلاگیاہے ہمیں‘‘۔ہرش دیوسنگھ نے کہاکہ پڑھے لکھے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمیں ڈائون گریڈکیاگیاہے،370ختم ہوناچاہئے تھا لیکن ساتھ ہی کچھ تحفظ ،ضمانتیںضروری تھیں۔اُنہوں نے کہاکہ خصوصی درجہ ختم ہونے کے بعد باہر سے لوگوں کو یہاں آنے کی کھلی چھوٹ ہے،وہ یہاں ملازمت، زمینیں ،جائیدادبناسکتے ہیں ، نوجوان کیلئے مواقع پہلے ہی محدود ہیں ،باہرکے لوگ مقابلہ آرائی میں روزگار بھی لے جائیں گے توہم کیاکریں گے۔اُنہوں نے مزیدکہاکہ زمینیں نہ بچیں گی۔ہرش دیو سنگھ نے کہا’’یہ خصوصی درجہ مہاراجہ نے سوچ سمجھ کر دیاتھا، ہمیں حقوق دئیے تھے،لیکن اب پورے ہندوستان کیلئے جموں وکشمیرکھل گیا ، کہیں نہ کہیں ہمارے حقوق ختم ہوگئے‘‘۔ہرش دیو سنگھ نے کہا’’ خدشات ہیں ،ڈرہے،نوجوانوں میں ایک تشویش ہے،ہم لوگوں کے پاس ،آنے والی نسلوں کے پاس کیاہے،ہم کیاجواز پیش کریں گے؟‘‘۔ہرش دیوسنگھ نے کہاکہ ملازمت اورزمین سے متعلق ہمارے جوحقوق تھے وہ ختم ہوناایک المیہ ہے۔اُنہوں نے مزیدکہا’’نوجوانوں کے خدشات جائز ہیں، ان کے اندرعدم تحفظ کارجحان ہے‘‘۔ہرش دیوسنگھ نے ایک سوال کے جواب میں کہا’’ دفعہ370ختم ہونے کے بعد بھی جموں کیساتھ امتیازی سلوک ختم نہیں ہواہے۔اُنہوں نے کہاکہ جموں میں ٹول پلازے اورکشمیرکیساتھ پھر سے زیادہ ہمدردی ہوری ہے،مرکزکازیرانتظام علاقہ بھی بنادیا،اوراعلانات کشمیرکیلئے زیادہ ہورہے ہیں،وہاںمرکزی حکومت کی ٹیمیں آرہی ہیں،پیشہ ورانہ کالج کھولنے کی باتیں ہورہی ہیں ،نئے اسکول کھولنے کی باتیں ہورہی ہیں،ترقیاتی پیکیج کااعلان ہورہاہے اور جموں کے حصے میں ٹول پلازے؟‘‘ہرش دیوسنگھ نے سوالیہ لہجے میں کہا۔اُنہوں نے کہاکہ ’’لوگ دیکھ رہے ہیں ، یہ توپہلے سے بھی زیادہ زیادتی جموں کیساتھ ہورہی ہے،ٹول پلازے کھلنے پرجموں کے لوگوں میں سخت غصہ ہے،جموں کے لوگوں کوٹھیس پہنچی ہے،منڈیٹ کیساتھ کھلواڑہوا،بھاجپاکویہاں25ایم ایل اے دئیے، پارلیمنٹ میں ان کے لوگ بھیجے پھر بھی لوگوں کیساتھ یہ امتیازی سلوک ہوا،لوگ آنے والے وقت میں بھاجپاکو جواب دیں گے، بھاجپاکو چنتن کرنا چاہئے‘‘۔ہرش دیوسنگھ نے کہاکہ ریاست ایک شان ہوتی ہے،بحال ہونی چاہئے۔اُنہوں نے کہاکہ ریاست کادرجہ ختم کرنے سے پہلے ہم سے پوچھانہ گیا۔گردنیں کاٹ دی گئیں، اورپھر معلوم ہوا کہ ہماری گردن کٹ گئی ہے۔اُنہوں نے دہرایاکہ ریاست کوبحال کرناہوگا۔ہرش دیو سنگھ نے ٹو ل پلازے کھولنے پربھاجپاکے دہرے معیار کواُجاگرکرتے ہوئے کہاکہ جب بھاجپا اپوزیشن میں تھی تو وہ کہتی تھی ٹول پلازوں کی شکل میں جموں کے لوگوں کو ’جزیہ‘ لگایاگیاہے، لیکن اب بھاجپانے کیسری جزیہ لگایا۔ہرش دیوسنگھ نے ریاست کی تشکیلِ نوکے بعد ایوانِ بالاکوختم کرنے کاخیرمقدم کرتے ہوئے کہاکہ ایوانِ بالاخزانہ عامرہ پہ ایک بوجھ تھا،ہٹ گیا۔اُنہوں نے کہاکہ ہم کہتے تھے کہ چوردروازے سے لوگوں کولاکرایوانِ بالامیں بٹھانے کاایک طریقہ تھا،غیرجمہوری عمل بھی اِسے کہاجاسکتاتھا،اسی لئے ہم اِسے مانگ کرتے تھے کہ اِسے ختم کیاجاناچاہئے۔اُنہوں نے کہا’’ ایوانِ بالاکے ارکان عوام کی جانب سے منتخب نہیں ہوتے،اسمبلی کو زیادہ ترجیح دی جانی چاہئے اس کی نشستیں بڑھادی جانی چاہئے،ایوانِ بالاجب رکھاگیاتھااِس کامقصد اپنے لوگوں کو خوش کرنے کیلئے تھا،کچھ لوگ اسمبلی میں نہیں آسکتے اُنہیں وہاں لیجایاجاتاتھا، سیاسی مقاصد کیلئے ‘‘۔اُنہوں نے کہا’’نامزدگیاں جب بھی ہوئیں وہ سیاسی لیڈران کی ہوئیں، بنیادی مقصد کبھی ایوانِ بالاکاپورانہیں ہوا۔بہت سارے ایم ایل سیزچنے گئے لیکن کچھ کیلئے ہی کہاجاسکتاہے کہ قابل ہیں، اہل ہیں،ایک اِدارے کے طورپرایوانِ بالااُبھرکرسامنے نہ آیا مقصد فوت ہوا۔اِسے ہمیشہ سفید ہاتھی کہاجاتاتھا‘‘۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا