جان محمد ۔نوجوانوں کیلئے مشعلِ راہ صحافی

0
0

عبدالقادرکنڈریا
رابطہ نمبر۔94192-23325

اللہ تعالیٰ نے ہرانسان میں صلاحیتوں کاخزانہ پوشیدہ رکھاہوتاہے اورجوشخص قدرت کی طرف سے ودیعت کی گئی ان صلاحیتوں میں اضافہ کرکے انہیںہنرمیں تبدیل کرتاہے اسے کامیابی کی بلندیوں تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔صلاحیت اللہ تعالیٰ عطافرماتاہے جبکہ ہنرکے حصول کیلئے انسان کوخودکوشش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔صلاحیت میں نکھار اورہنرکسی بھی علاقے ،مذہب یا طبقے کانوجوان(شخص ) اپنے اندرپیداکرسکتاہے ۔اپناہاتھ جگن ناتھ کامقولہ ہم اکثروبیشتر سنتے آئے ہیں ،اس مقولے پرعمل پیراہوکرکوئی بھی شخص خواہ غریب ہویاامیر کامیابیوں کے زینوں کوبہ آسانی پارکرسکتاہے ۔ریاست جموں وکشمیرمیں پسماندہ طبقہ جات کے نوجوانوں کے متعددنام ایسے ہیں جو اپنی صلاحیتوں میںبہتری اورہنرمندبن کرنہ صرف خودکامیاب وکامران ہوئے بلکہ دیگرلوگوں بالخصوص نوجوانوں کیلئے مشعلِ راہ ثابت ہوئے۔پسماندہ طبقہ جات میں سے ایک گوجربکروال طبقہ سے تعلق رکھنے والا ایک ایساہی نوجوان جان محمدہے جس کی 35سالہ مختصر زندگی کاپل پل جدوجہداورمحنت ومشقت کرتے گذراہے ۔جہاں جان محمد اپنی صلاحیت اورہنرکے ذریعے اپنے کنبے کی شاندارکفالت کررہے ہیں وہیں خدمت ِ خلق کے جذبے سے سرشاریہ نوجوان روزنامہ لازوال کے ایگزیکٹیوایڈیٹرکی حیثیت سے عوام الناس کی آواز ایوان کے گلیاروںتک پہنچانے میں بھی نمایاں رول اداکرنے میں سرگرم عمل ہے ۔باالفاظ دیگر جان محمد جہدِ مسلسل کااستعارہ ہے ،نوجوانوں کیلئے ایک مشعل راہ صحافی اورا س کی زندگی دوسروں کیلئے ایک درس ۔اس سے پہلے کہ قارئین میرے الفاظ کومبالغہ آرائی سے تعبیرکریں یہاں صحافی جان محمد کی محنت ومشقت کاتفصیلی تذکرہ کرناضروری سمجھتاہوں۔
جان محمد کاتعلق ضلع ریاسی کے دورافتادہ گائوں لسولی(تھرو) سے ہے جوضلع ہیڈکوارٹرسے 50کلومیٹر جبکہ ریاست کی سرمائی راجدھانی جموں سے 130 کلومیٹردوری پرواقع ہے ۔ ان کی پیدائش 4جولائی1982 کو نور محمد و زلیخاں بی بی کے گھر ہوئی ۔والدین نے پہلی سے پانچویں جماعت تک مقامی سکول سے تعلیم دلوائی اوراس کے بعد چھٹی جماعت میں جان محمدکاداخلہ گوجربکروال بوائزہوسٹل جموں میں کروایا ۔جان محمدکوابتداء سے ہی گھرمیں غربت کاماحول ملا ،اس بات کااندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ بچپن میں جان محمدکوجوتے اورچپل تک میسرنہیں ہوتے تھے اورانہیں کئی کئی کلومیٹرننگے پائوں پیدل سفرکرناپڑتاتھا۔چھٹی سے بارہویں جماعت تک کاتعلیمی سفرگوجربکروال ہوسٹل جموں میں رہائش پذیررہ کرگورنمنٹ مڈل سکول گھاس منڈی اورپھرہری سنگھ ہائرسکینڈری سکول سے طے کیا۔جوں ہی بارہویں جماعت کاامتحان پاس کیاتو گھرکی مالی تنگی نے انہیں ستاناشروع کیااورجان محمدنے غربت کے خاتمے اوروالدین کاسہارہ بننے کیلئے کمرکستے ہوتے ہوئے یہ عزم کیاکہ وہ اپنے اندرہنرکوپیداکرے گا ۔اسی مقصدکے تحت 2000؁ء میں این سی پی یو ایل نئی دہلی کے ایک کمپوٹرسنٹرسے ڈپلومہ ان سافٹ ویئر اوران پیج اُردوڈپلومہ کی سندحاصل کی۔اس کے بعدجموں یونیورسٹی میں قائم  مرکزی وزارت  انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مرکز DOEACCسے دوسالہ کمپیوٹر ڈپلومہ کورس کیا ۔ جان محمدجہاںایک طرف گھریلومالی دشواریوں کودورکرنے کیلئے تگ ودوکرنے میں مصروف تھے وہیںدوسری طرف انہیں اعلیٰ تعلیم جاری رکھنے کیلئے بھی مشکلوں کاسامناکرناپڑرہاتھا ۔ بی اے پارٹ I میں داخلہ لینے میں مالی تنگی آڑے آئی اورپھرڈسٹنس ایجوکیشن جموں یونیورسٹی میں بی اے میں داخلہ لیا لیکن ایک سال کے بعدتعلیم کوجاری نہ رکھ سکے جس کی وجہ گھریلوذمہ داریاں اورمالی حالات تھے۔تعلیم جاری نہ رکھ پانے کاجان محمدکوگہرادھچکالگا لیکن پھربھی ہمت نہ ہاری اورصحافت کے پیشے کواپنانے کافیصلہ لیاتاکہ وہ اپنے دِل میںپڑھنے لکھنے کی تشنگی کوپوراکرسکیں ۔2003؁ء میں جان محمدنے صحافت میں باقاعدہ قدم رکھا اورسب سے پہلے روزنامہ ’سندیش ‘ میں بطورکمپیوٹرآپریٹرکم ڈیزائنر کام کرکے اپنی صلاحیتوں کوبروئے کارلایااورمالی وسائل بہترکرنے کیلئے 2003؁ء سے 2007؁ء تک کے عرصے میں مختلف اخبارات مثلاً راہِ منزل، عمارت، شارداجیسے موقراُردواخبارات میں کام کیا۔ 2007؁ء میںصوبہ جموں میں اُردوصحافت کوایک نئی زندگی وسمت عطاکرنے کیلئے معروف اُردواخبار’کشمیراعظمیٰ ‘کی اشاعت کاسلسلہ جموں سے شروع ہوااورکشمیرعظمیٰ کی جموں سے اشاعت سے جموں کے مقامی نوجوانوں کوصحافت کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کامظاہرہ کرنے کیلئے راستے کھول دیئے ۔جان محمدنے بھی کشمیرعظمیٰ کیلئے انٹرویودیااورادارہ کے مدیران نے جان محمدکی صلاحیتوں کوبھانپتے ہوئے ان کاانتخاب کیاجوکہ صحافی موصوف کی زندگی کاٹرننگ پوائنٹ کہاجاسکتاہے۔کشمیرعظمیٰ میںجان محمدکی صلاحیتوں کوجلابخشنے کیلئے اوران کے ہنرکوتراشنے کیلئے عالمی شہرت یافتہ بی بی سی اُردوکے صحافی ریاض مسرور صاحب نے اپنی شفقتوں سے نوازااورجان محمد کی رہنمائی کی ۔جان محمدنے مختصرعرصہ کیلئے کشمیرعظمیٰ میں کام کیالیکن اس عرصے میں انہوں نے لوگوں کی پریشانیوں پرمبنی سٹوریزاورکالم لکھ کر عوامی مسائل پرگہری نگاہ رکھنے والے صحافی کے طورپراپنے آپ کومنوانے میں کامیابی حاصل کی۔
صحافتی صلاحیتیںمنکشف ہونے کے بعدجان محمداُردواخبارات کے مدیروں کی نظر میں آگئے اورپھر روزنامہ’’ اطلاعات‘‘ میں سب ایڈیٹرکی حیثیت سے خدمات انجام دینے لگے ۔یہاں یہ بتاتاچلوں کہ 2008؁ء میں جب امرناتھ شرائن بورڈاراضی تنازعہ چل رہاتھا اورریاست میں ایک اتھل پتھل کاماحول تھا،اس ماحول میں جان محمدنے روزنامہ اطلاعات کیلئے اس قدرحساس سٹوریزلکھیں کہ عوام جان محمدکے قلم کی جولانیوں پرفداہونے پرمجبورہوگئی ۔اسی دوران2009؁ء میںجموں سے اُردواخبار جاری کرنے کے خواہشمندسیداقبال حسین کاظمی اورمعروف صحافی تنویراحمدخطیب بھدرواہی نے جان محمدسے رابطہ کیااوراپنامدعابیان کیااورمشاورت کی۔اخبارکیلئے جان محمدنے ’اُڑان‘ نام تجویزکیاجوبالآخررجسٹرارآف نیوزپیپرس نئی دہلی سے منظوربھی ہوگیااور2نومبر 2009 ؁ء کوروزنامہ اُڑان کی باقاعدہ اشاعت کاآغازہوگیا ۔جان محمدنے ایڈیٹرکی حیثیت سے اُڑان میں ذمہ داریوں کوسنبھالااور ڈیزائنروں ورپورٹروں پرمشتمل ایک ٹیم تشکیل دے کراُڑان کوبلندیوں پرلیجانے کیلئے ایسی جاندارسٹوریز،مضامین اور اداریے تحریر کیے کہ نہ صرف عوامی حلقوں بلکہ سیاسی اورارباب حل وعقد بھی اُڑان کی طرف توجہ مبذول کرنے پرمجبورہوگئے اوردیکھتے ہی دیکھتے جان محمدکی نگرانی میں اُڑان نے بلندیوں کوچھوا۔جان محمدکو ایک کمپوٹرآپریٹر سے سینئرڈیزائنر اورڈیزائنر سے ایڈیٹر تک کے سفرمیں کامیابی اس لیے ملی کہ وہ دن رات دوردرازعلاقوں اورعوام کی جائز مانگوں کواُجاگرکرنے کیلئے خبریں ،مضامین اورسٹوریزلکھنے میں مشغول رہتے تھے ۔تھکن نام کی کوئی چیزجان محمد کے قریب نہ پھٹکی اوروہ مسلسل اپنے مشن پرگامزن رہے جس کانتیجہ یہ نکلاکہ بہت کم عرصے میں جان محمدنے ایک منجھے ہوئے ایڈیٹرکے طورپراپنی شناخت قائم کرلی ۔جان محمدکاسب سے اعلیٰ وصف ان کی سرخیوں کی ترتیب ہے جوالفاظ جان محمدکسی خبریاسٹوریز کی ہیڈلائنز کیلئے منتخب کرتے ہیں ان کاانتخاب بہت ہی کم ایڈیٹر کرپاتے ہیں۔جان محمدکی ہمیشہ کوشش رہی کہ وہ دوردرازاورپسماندہ علاقہ جات کے مسائل اُجاگرکریں اوراس کام کوبخوبی انجام دینے میں کافی حدتک کامیاب ہوئے اورعوام میں بہت ہی عوام دوست صحافی کے طورپرمنفردشناخت بھی قائم کرلی۔
الغرض روزنامہ اُڑان میں سیداقبال کاظمی اورتنویرخطیب کے ماتحت کام کرتے ہوئے جان محمدنے صحافت کے وقارکوبلندکیااورریاست کے معروف صحافیوں میں جگہ بنائی ۔جان محمدنے مظلوم اورپسماندہ عوام کی حمایت میں کوئی کسرباقی نہ چھوڑی ۔ایڈیٹرہونے کے باوجود بعض دفعہ جان محمدخودفیلڈمیں جاکررپورٹنگ کرتے اورعوام کے جائزمطالبات اورمسائل کولگن وتندہی سے اجاگرکرکے انتظامیہ اورسرکارتک پہنچاتے رہے ۔روزنامہ اُڑان میں ذمہ داریوں کوانجام دیتے ہوئے جان محمدنے اپنی صحافتی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کی طرف بھرپورتوجہ دی اورصحافتی گُرسیکھنے کیلئے غالباً سال 2015 میں قومی کونسل برائے فروغ اُردوزبان نئی دہلی کی طرف سے کشمیریونیورسٹی میں منعقدہ صحافت سے متعلق ایک ہفتے کی ورکشاپ میں حصہ لیا۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے جموں و کشمیر سٹیٹ بیکورڈکلاسز طبقات کی ایک تنظیم کے ذمہ داران چوہدری بنسی لال ،کستوری لال، شبیر احمد، عبدل رشید وغیرہ کاکہناہے کہ ’’ جان محمد ایک منجھے ہوئے نوجوان صحافی ہیں جن کا قلم طاقت رکھتاہے جس سے حکومت کے ایوانوں اور سیاست کے گلیاروں میں زلزلہ آجائے ،جس کی مثال کٹھوعہ رسانہ میں معصوم آٹھ سالہ خانہ بدوش بچی کی عصمت ریزی اوربیہمانہ قتل کی خبر سے دی جاسکتی ہے جوسب سے پہلے جان محمدنے روزنامہ لازوال میں شائع کی جس سے ریاستی اسمبلی اورکونسل میں تہلکہ مچ گیااوربالآخر ملزمان کوسزابھی ہوئی جس کاسہرا سب سے پہلے جان محمدکوجاتاہے جس نے معصوم بچی کے ساتھ ہوئے ظلم کواُجاگرکیا اورایماندارانہ طورپر صحافتی ذمہ داریوں کونبھایا۔ جان محمدنے تمام پسماندہ طبقوں کے مسائل کواخبارات میں جگہ دی اوراپنے فرائض منصبی کوانجام دینے میں کبھی کوتاہی نہیں برتی ۔جان محمدایک انسانیت دوست،بلنداخلاق اورہمدردصحافی ہے ،اللہ کرے وہ اسی طرح غریب عوام کے مسائل کواُجاگرکرتے ہوئے انسانیت کی خدمت کرتے رہیں‘‘۔
جان محمد کاصوبہ جموں میں صحافت کے معیارکوبلندکرنے میں اہم رول رہاہے جس کاعملی ثبوت 2017 میں اُس وقت ملاجب گذشتہ کئی دہائیوں سے چھوٹے پیمانے پرنکلنے والے اُردواخبار ’لازوال ‘ کی اشاعت کی ذمہ داریاںیاسمین چودھری نے اپنے ذمہ لے کرروزنامہ کے طورپرشائع کرناشروع کیا۔چونکہ یاسمین چودھری نے جان محمدکے تجربے اوراعتمادکی بناپرہی اخبارکوروزنامہ چلانے کافیصلہ لیاتھااور جان محمدکولازوال کے ایگزیکٹیوایڈیٹرکی اہم ذمہ داری تفویض کی۔جان محمدکی سخت محنت کے بل بوتے پرچھ ماہ کے قلیل عرصے میں روزنامہ لازوال نے بھی اُڑان کی طرح شہرت حاصل کرلی ۔اس طرح سے جموں کے موقراخبارات بشمول کشمیرعظمیٰ، اُڑان، تسکین، راہِ منزل، ڈوگرہ نیوز، کشتواڑٹائمز ،اذان ِ سحر، آسمان ،عوامی لہر ،سندیش،پریت ،تیوریُگ ،عمارت وغیرہ کی فہرست میں جان محمدکی محنت کی بدولت ایک نئے اخبار کااضافہ ہوا۔نہ صرف لازوال اخباربلکہ جان محمدکانام بھی ریاست کے اہم صحافیوں میں شمارہوگیا۔اسی وجہ سے سال 2017 میں یونیسف نے دہلی میں ہیلتھ جرنلزم سے متعلق تین روزہ ورکشاپ میں حصہ لینے کیلئے مدعوکیاجہاں جان محمدکی عزت افزائی کی گئی۔جان محمدنے لازوال کی وساطت سے ریاست بالخصوص صوبہ جموں کے کونے کونے سے دیہی عوام کے مسائل کواُجاگرکیا ۔جان محمدنے راجوری،پونچھ،سانبہ ،کٹھوعہ، ریاسی،مہور ،بانہال ،ادہم پور اورجموں کے دوردرازعلاقوں کی بھرپورنمائندگی کافرض بخوبی انجام دیاہے ۔دیگرعلاقوں کی طرح جان محمد گزشتہ ایک دہائی سے اکثروبیشترضلع ریاسی کے گلاب گڑھ ،انگرالہ، لارشبراس، دیول نہوچ ،کھوڑ کے بلاک وتحصیل کے سطح کے عوامی مسائل کوضلع انتظامیہ اورحکومت کے سامنے پیش کرتے آرہے ہیں اورنہ صرف اپنے علاقہ تھرولسولی بلکہ پوری ریاست جموں وکشمیر کی شان بن کر نوجوانوں کیلئے تحریک کاذریعہ بنے ہوئے ہیں۔
تھرو لسولی کے پہاڑوں کی شان ہے خوبصورت وادیوں کی نوجوان پہچان ہے
اونچی منزلوں تک پہنچناہے اپنی محنت سے نوجوانوں کوجان محمدنے دیایہ پیغام ہے
منزلیں برقرارہیں سفرکی حدنہیں نوجوان کی محنت مالی مالی پروان ہے
جان محمد ہی کے نقش ِ قدم پرچل کرطارق حسین ابرار،زاہدملک،الطاف جنجوعہ، مرتضیٰ اکثر،یوگیش سگوترہ،وویک ماتھر،بھوپندرشرما،امت شرما اورمحمدشفیع میرجیسے نوجوان بھی اپنے متعلقہ علاقوں کے مسائل کوزوروشورسے مختلف اُردواخبارات میں شائع کررہے ہیں جس ک وجہ سے عوام نے کافی اُمیدیں جان محمدسے وابستہ کرلی ہیں اوران کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے درج ذیل اشعارملاحظہ فرمائیں۔
فریاد میری نیک نامی اْمید کو بچا لیجئے زندگی کا سفر مشکل غربت کومٹا  دیجئے
فریادوں کی عدالت میں کیوں آج دیری انصاف کے ترازو میں درج کروا دیجیے
جان محمدکی محنت کودیکھ کردیگرنوجوان صحافیوں میں بھی ایک جوش اورولولہ پیداہواہے جس کی مثال طارق ابرار ،زاہدملک ،وویک ماتھر، بھوپندرشرما،امت شرما،الطاف جنجوعہ،مرتضیٰ اکثر اورشبیرجیسے صحافی ہیں اوروہ بھی اپنے اندرچھپی صلاحیتوں کوبروئے کارلارہے ہیں ۔
جان محمدکے سینے میں انسانیت کا درد ہے جوانہیں غریب عوام کی نمائندگی کیلئے مجبورکرتاہے اوران کے اس جذبہ خلق میں جان محمدکے والدین کابھی اہم کردار ہے۔انہوں نے جان محمد کوگھرسے باہرپڑھنے کیلئے بھیجا،ہرقسم کی معاونت کی اورپھر گھربسایا۔جان محمد نے اپنے دوبھائیوں کی بھی شانداررہنمائی کرتے ہوئے انہیں مختلف اخبارات میں برسرروزگاربنایاہواہے ۔ ایک دوردرازگائوں سے سرمائی راجدھانی جموں میں آکرتعلیم حاصل کرنا، دربدرہونااورایک معمولی کمپویٹرآپریٹرسے ایگزیکٹیوایڈیٹرکے منصب پرفائزہونا نوجوانوں کیلئے غوروفکرکی دعوت دیتاہے کہ ایک شخص مصمم اورمضبوط ارادے سے خالق حقیقی پربھرپوراعتمادکے ساتھ آگے بڑھے تواللہ تعالیٰ اس کیلئے ترقی کے راستے کھول دیتاہے ۔الغرض جان محمد نوجوان صحافیوں کیلئے مشعل ِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔موصوف ایک باکردار ،باہمت اور باعمل صحافی اورشخصیت کے مالک ہیں ۔مجموعی طورپرکہاجاسکتاہے کہ جان محمدکی شخصیت مختلف صفات کامجموعہ ہے ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا