مذہبی رواداری ،بھائی چارے اور اخوت کی عظیم مثال
1947کی وحشت کاشکاربن کر بکھر چکے کنبے کی لاڈلی بیٹی نے خطے کی بڑی آبادی ڈوگرہ تک ڈوگری زبان میں قرآن مجید پہنچایا
شازیہ چوہدری
کلر راجوری
7889896079
۰۰۰۰۰۰۰۰
معاشرے میں خواتین کی ترقی ان کی اپنی بڑھتی ہوئی خوداعتمادی اور حقوق و فرائض کے شعورکی بدولت ممکن ہوئی ہے، جس کی ایک اہم وجہ ریاست کے چار ستونوں میں عورت کی موجودگی ہے۔ خواتین نے تمام مشکل حالات میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا ہے۔ ہماری شاعرات و ادیبائوں نے مردوں کی اس دنیا میں انھیں آئینہ دکھایا۔ نسائی تحریروں کی اثر پذیری اور طاقت کے باعث ’غیرت کے نام پر قتل‘ کو غیر اسلامی قرار دیا گیا۔ آج مسلم خواتین اپنے حقوق و فرائض کو ذمہ داری سے نبھاتے ہوئے جس طرح اپنی خود اعتمادی اور انفرادی کاوشوں سے اپنے ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں، اس سے ہم سرِ مو انحراف نہیں کرسکتے۔ ان کے انفرادی کارہائے نمایاں کے باعث اسلام کا روشن چہرہ دنیا پر عیاں ہوا ہے۔آج کی مسلم خواتین نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سیاست، کھیل، تعلیم اور سائنس سمیت دیگر شعبوں میں اپنی دیرپا شناخت بنائی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ حکومت، فوجِ عدلیہ اور صحافت جیسے ریاست کے چارستونوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ مسلم خواتین نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے یہ ثابت کردی ہے کہ خواتین کسی سے کم نہیں اب دنیا بھر میں خواتین کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آج بنت حوا مجبور نہیں ہے، وہ اپنے حقوق کے لیے لڑ سکتی ہے اور اپنے حقوق پر قانون سازی بھی کروا سکتی ہیں خود اعتمادی اور حقوق و فرائض کے شعور نے مسلم خواتین کو اپنے خلاف ہونے والے تشددکو طشت ازبام کر نے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔آج میں آپ سب قارئین کو ریاست جموں وکشمیر کی ایسی ہی ایک خاتون کے روبرو کرنے جا رہی ہوں جنہوں نے مذہبی رواداری ،بھائی چارے اور اخوت کی مثال قائم کی ہے جنہوں نے قرآن کریم فرقان حمید کو ڈوگری زبان میں ترجمہ کیا جبکہ ان کی اپنی مادری زبان گوجری ہے لیکن علاقائی زبان کو ترجیح دے کر ہندو ڈوگروں کے لئے قرآن کو سمجھنا آسان کر دیا اس سے ثابت ہوتاہے کہ وہ مذہبی بھائی چارے میں یقین رکھتی ہیں وہ چاہتی ہیں کہ جموں میں ہندو مسلم آپس میں بھائی چارے اور مذہبی رواداری کو قائم رکھیں اور یہ تبھی ممکن ہے جب قرآن کی تعلیمات ان لوگوں کو بھی سمجھائی جا سکیں اور اس کا سب سے موثر طریقہ قرآن کو جموں واسیوں کے لئے آسان الفاظ میں پیش کرنا ہے جو کہ جموں کی ان خاتون نے قرآن مجید کو ڈوگری میں ٹرانسلیٹ کر کے پیش کیا ہے ۔عزرا چودھری ایک ایسی خاتون جنہوں نے ایک ہندو گھرانے میں مسلم ماں کی کوکھ سے جنم لیا ،دراصل عزرا چودھری کی ماں رضیہ آر ایس پورہ جموں کے زمیندار چودھری عبداللہ خان کی بیٹی تھیں جن کی شادی 1946 میں میراں صاحب جموں کے چودھری غلام احمد کے ساتھ ہوئی 1947 کے بٹوارے میں جب جموں میں ہندو مسلم فساد شروع ہوئے تو غلام احمد نے اپنے بہت سارے دوسرے مسلمان ساتھیوں اور خواتین کے ساتھ اپنے ایک ہندو دوست کی گلاس فیکٹری میں اپنی حفاظت کے پیش نظر پناہ لی لیکن نومبر مہینے میں جموں کے پورے علاقے پہ ہندو انتہا پسندوں کا دبدبہ آ گیا اور انہوں نے مسلم مردوں کے ساتھ لوٹ مار قتل وغارت اور عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں کیں، مردوں کو قتل کرنے کے بعدان انتہا پسند درندوں نے عورتوں کو بوٹیوں کی طرح آپس میں بانٹ لیا ۔رضیہ کو بھی بلوان سنگھ نامی شخص جو کہ تب جموں کا رہنے والاتھا یہ بتا کر کے کہ اس کا پورا پریوار مارا گیا ہے کے حوالے کر دیا گیا ۔ ایک جوان معصوم لڑکی جس کے ہاتھوں کی مہندی بھی ابھی تک نہیں اتری تھی جس نے دنیا کو ابھی ٹھیک سے جانا بھی نہیں تھا ‘نے اپنے آپ کو بالکل بے یارو مددگار پایا اور بلوان سنگھ جیسے شرابی کے ساتھ بندھ گئی اور وہ رضیہ کو لے کے پنجاب چلا گیا وہاں اس نے ایک بیٹے کرن سنگھ اور دو بیٹیوں ریوا رانی اور انجو کو جنم دیا۔ 1965 میں نشئی بلوان سنگھ فوت ہو گیا اور جموں سے اس کے پریوار نے رضیہ کو نا تعلق کر کے نکال دیا لیکن ایک پٹواری جو کہ بلوان سنگھ کا دوست تھا اس نے رضیہ اور اسکے بچوں کو نیو پلاٹ جموں میں سر چھپانے کے لیے ایک کمرہ دیا اور پھر رضیہ نے اپنے بچوں کے لیے چھوٹی موٹی نوکری کی۔ سلائی کڑھائی کا کام کیا تا کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر سکے ۔ابھی وہ لوگ اپنے پیر زمین پر مظبوطی سے جما بھی نہیں پائے تھے کہ ان کی زندگی میں ایسا موڑ آیا کہ وہ انگشت بدناں رہ گئے جب دسمبر 1974 میں تحصیل آفس جموں میں اچانک رضیہ کو اپنے سابقہ شوہر (چودھری غلام احمد) کی بہن اور کزن کے ساتھ مڈ بھیڑ ہو گئی۔ اور وہ یہ جان کر حیران رہ گئی کہ وہ لوگ جن کے بارے میں اسے کہا گیا تھا کہ دنگوں میں مارے گئے ہیں وہ زندہ ہیں اور دلپتیاں جموں میں رہ رہے ہیں یہ ایک جذبات کا ریلا تھا جس میں بہہ کر وہ دونوں گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر روئیں۔ اب رضیہ جان گئی تھی کہ اس کے بہت سارے رشتے دار زندہ ہیں جن میں اسکا شوہر ساس اسکی اپنی ماں اور آٹھ بہنیں شامل تھے اور جموں اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہیں ۔کچھ مہینوں کے بعد رضیہ اور اسکے بچوں نے اپنی پرانی جاۂ پناہ کو خیر باد کہہ دیا اور دلپتیاں میں اپنے رشتے داروں کے ساتھ آکر رہنے کا فیصلہ کیا تب انکو پتہ چلا کہ ان کے سابقہ شوہر زندہ بچ جانے کے بعد سیالکوٹ پاکستان چلے گئے تھے اور پھر کچھ سال بعد واپس آئے لیکن رضیہ کو نہ پا کر انہوں نے دوسری شادی کرلی ۔1974کے مشکل دور میں رضیہ اور انکے پریوار ایک بہت بڑا اور مشکل فیصلہ لیا اور واپس اسلام میں داخل ہو گئے ۔ کرن سنگھ کرن سنگھ ہی رہا لیکن انجو زرینہ میں اور چھوٹی ریوا رانی عزرا چودھری بن گئیں ۔ایک مقامی قاری صاحب نے عزرا کو نماز اور قرآن پڑھایا ۔1979 میں رضیہ بڑی بیٹی زرینہ کو لے کر پاکستان اپنی ماں اور آٹھ بہنوں کے ساتھ رہنے کے لیے ہجرت کر گئیں۔ عزرا پاسپورٹ نہ ملنے کی وجہ سے ان کے ساتھ نہ جا سکیں کیونکہ اسکول کے ریکارڈ میں ابھی بھی انکا نام ریوا ہی دکھایا جا رہا تھا ۔تقدیر کو عزرا چودھری کے لیے کچھ اور ہی منظور تھا وہ جموں میں ہی رہائش پذیر رہیں تعلیم حاصل کی ۔شادی ہوئی نوکری ملی اور آخر کار ڈوگری زبان میں قرآن کا ترجمہ کرنے کا شرف حاصل ہوا انکی ماں 1999میں سیالکوٹ میں مالک حقیقی سے جا ملیں اور بہن زرینہ امریکہ میں رہائش پذیر ہیں۔تعلیم کے میدان میں عزرا کی ماں ہی تھیں جنہوں نے انکی ہر قدم پہ حوصلہ افزائی کی وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتی تھیں۔ خاص کر بیٹیوں کی تعلیم کے لیے ہر وقت کوشاں رہیں۔ انہوں نے کبھی بھی اپنی بیٹیوں کو تعلیم سے الگ کرنے کی کوشش نہیں کی ۔تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل کود میں بھی وہ بچیوں کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں ۔عزرا چودھری نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی 1978میں ہندی میں ماسٹر ڈگری حاصل کی ۔1985میں بی ایڈ کی اور پھر1987میں ڈوگری میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ سرکاری استاد کے طور پہ تعینات ہو گئیں۔ سات برسوں تک انہوں نے بحیثیت استاد کام کیا پھر جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز کی طرف سے ایک اشتہار ریسرچ اسسٹنٹ ڈوگری ڈکشنری کی پوسٹ کے لیے دیا جسمیں امیدوار کی کارکردگی میں ہندی اور ڈوگری میں ماسٹر ہونا لازمی تھا جو کہ عزرا چودھری کے پاس تھی ۔ انہوں نے باآسانی انٹرویو پاس کر لیا اور اکیڈمی میں تعینات ہو گئیں اور اپنی صلاحیت کے باعث آج وہ قرآن کی مترجم بن گئیں۔2017 میں عزرا چودھری جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز کی ڈکشنری سیکشن میں چیف ایڈیٹر کے عہدے سے سبکدوش ہو گئیں اور پھر ترجمے کا کام تندہی سے کرنے لگیں۔ عزرا نے محسوس کیا کہ آج تک ان کی زندگی میں جو بھی اتار چڑھاؤ آئے ہیں ان کی وجہ سے وہ زندگی بہت کچھ اچھا اور بہتر کر سکتی ہیں ۔ جیسا کہ وہ اسلام کی پیروکار تھیں اسلام کو ماننے والی تھیں اور اب انہیں قرآن کو سمجھنے کا موقعہ ملا تھا۔ قرآن کے الفاظ کا مفہوم سمجھ میں آنے لگا تھا ۔انہوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ ڈوگری ترجمہ کے دوران میں نے قرآن کو نئی روشنی میں دیکھا اور سمجھا ۔جیسا کہ ڈوگری زبان کو ہندوستانی آئین کے آٹھویں شیڈول میں شامل کیا گیا ہے اور اسکے بولنے والوں کی کثیر تعداد جموں اور ہماچل پردیش میں پائی جاتی ہے۔ اسلئے ضلع راجوری میں ایک مذہبی اور سماجی تنظیم شاہ ہمدان سوسائیٹی نے یہ محسوس کیا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ قرآن کریم فرقان حمید کا ڈوگری میں ترجمہ کیا جائے تا کہ امن بھائی چارے اور اخوت و محبت کا پیغام اتنی بڑی ڈوگر برادری تک بھی پہنچے ۔اس سے پہلے قرآن مجید کا دنیا کی سو بڑی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے لیکن ڈوگری میں ابھی تک نہیں ہوا تھا اور اسی کار ِخیر کو انجام تک پہنچانے کے لئے سوسائٹی کے ممبر عبدالقیوم ندوی جو کہ ایک اسکول پرنسپل بھی ہیں ‘نے عزرا چودھری سے2014 میں اس کام کے لئے رابطہ کیا وہ جانتے تھے کہ اگر یہ کام کوئی کر سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف عزرا چودھری ہیں کیونکہ عبدالقیوم ندوی صاحب نے ایک بار اپنی ہمسفر شمیمہ جو کہ جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز میں ایڈیشنل سیکریٹری کے عہدے پہ فائیز تھیں اور شاہ ہمدان ٹرسٹ کی ممبر بھی تھیں ‘سے پوچھا کہ قرآن مجید کے ڈوگری ترجمے کے لئے کون صحیح رہے گا۔ تب شمیمہ نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے عزرا چودھری کا نام لیا اور کہا کہ صرف وہی اس کام کو باحسن طریقے سے انجام دے سکتی ہیں عزرا ابھی اپنے دماغ میں سوچ بچار ہی کر رہی تھیں کہ آیا اتنا بڑا اور نازک کام وہ کر سکتی ہیں یا نہیں کہ قیوم صاحب نے کہا کہ آپ ہی یہ کام کر سکتی ہیں اور کوئی نہیں ۔اپنا دفتری کام ہونے کے باوجود عزرا نے یہ کام بخوبی انجام دیا وہ اتوار اور چھٹی والے دن ترجمہ کا کام کرتی تھیں قیوم صاحب نے انہیں مشورہ دیا کہ سب سے پہلے تیسویں پارے کا ترجمہ شروع کرو ۔ کیونکہ اسمیں سورۃچھوٹی ہیں ترجمہ کرتے ہوئے خاص کر قرآن کا ترجمہ کرتے ہوئے بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ایک لفظ کا مطلب بھی آگے پیچھے ہو جانے کا مطلب ہے قرآن کے معنی ہی بدل دینا اسلئیے عزرا نے پہلے پہل جو ترجمہ کیا اسکو پہلے اچھے سے جانچا چھان بین کی اور پھر ان کو اس کام کے لئے ہری جھنڈی ملی۔ تیسواں سپارہ الگ سے مولا نا وحیدالدین خان نے دہلی میں چھاپا اور شایع کیا اسکے بعد عزرا نے باقی سپاروں کا ترجمہ شروع کیا جو کہ پانچ سال میں مکمل ہوا ۔ عزرا نے 2017 میں اکیڈمی میں سے چیف ایڈیٹر ڈکشنری سیکشن کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد پورا وقت قرآن کے ترجمہ میں صرف کیا اور الحمداللہ مئی ،2019 میں ڈوگری میں ترجمہ شدہ قرآن منظر عام پر آ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۰۰۰۰