یواین آئی
سرینگر؍؍ صوبائی کمشنر کشمیر بصیر احمد خان کی طرف سے ہائر اسکینڈری سطح تک کے تمام اسکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں بحال کرنے کی ہدایات کے باوصف وادی کے تعلیمی اداروں میں جمعرات کے روز لگاتار 60 ویں دن بھی تعلیمی سرگرمیاں مفلوج رہیں۔ اگرچہ اسکولوں میں تدریسی و غیر تدریسی عملہ حاضر رہا لیکن طلبا کی عدم موجودگی سے کلاس روموں میں سناٹا چھایا رہا۔صوبائی کمشنر نے گزشتہ روز ایک میٹنگ میں کہا تھا کہ وادی میں ہائر اسکینڈری تک کے تعلیمی اداروں میں 3 اکتوبر سے تعلیمی سرگرمیاں بحال ہوں گی۔ اس سے قبل کشمیر انتظامیہ کے سینئر عہدیداروں بشمول سرکاری ترجمان روہت کنسل اور ناظم تعلیم کشمیر نے ہائی اسکول سطح تک کے تمام سرکاری وغیر سرکاری تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کیا تھا لیکن اس کے باوجود یہاں تعلیمی سرگرمیاں گزشتہ دو ماہ سے لگاتار مفلوج ہیں۔یو این آئی کے نمائندے نے جب جمعرات کی صبح شہر سری نگر کے بعض اہم اسکولوں اور ہائر اسکینڈریوں کا دورہ کیا تو وہاں عملے کو توموجود پایا لیکن طلبا کہیں نظر نہیں آئے۔موصوف نمائندے نے کہا کہ کوٹھی باغ گرلز ہائر اسکینڈری میں تدریسی و غیر تدریسی عملہ حاضر تھا لیکن ایک بھی طالب علم حاضر نہیں تھا۔انہوں نے کہا: ‘میں صبح جب کوٹھی باغ ہائر اسکینڈری کے احاطے میں داخل ہوا وہاں اسٹاف کے جملہ اراکین موجود تھے لیکن ایک طالب علم بھی کہیں موجود نہیں تھا، میں نے کلاس روموں کو خالی دیکھا، جب طلبا ہی نہیں تھے تو ظاہر ہے کہ اساتذہ بھی اپنے آفس یا احاطے میں ہی بیٹھے ہوئے تھے’۔مذکورہ ہائر اسکینڈری کے اسٹاف نے یو این آئی اردو کے نامہ نگار کو بتایا کہ وہ لگاتار ڈیوٹی پر حاضر ہوتے ہیں لیکن آج تک ایک بھی دن کلاس نہیں لگا ہے کیونکہ بچے ہی نہیں آتے ہیں۔ اسٹاف ممبران نے کہا کہ موجودہ حالات کے پیش نظر والدین بچوں کو اسکول بھیجنے میں خطرات محسوس کرتے ہیں۔یو این آئی اردو کا نمائندہ جب ایس پی ہائر اسکینڈری اسکول پہنچا تو وہاں باہر بھی اور اندر کلاس روموں میں بھی سی آر پی ایف اہلکاروں کو خیمہ زن دیکھا۔نمائندے نے کہا: ‘ایس پی ہائر سکینڈری اسکول کے باہر بھی سی آر پی ایف کے اہلکار تعینات ہیں اور اندر بھی سی آر پی ایف کی نفری ڈیرہ زن ہے، کلاس روموں میں سی آر ایف کے اہلکار قیام پذیر ہیں اور پھر وہیں سے انہیں مختلف علاقوں میں ڈیوٹی کے لئے بھیجا جاتا ہے’۔سری نگر کے دیگر علاقوں میں بھی اسکولوں اور ہائر اسکینڈری اسکولوں کا یہی حال دیکھا گیا اسٹاف بہ نفس نفیس ڈیوٹی پر حاضر ہے لیکن بچے گھروں میں ہی بیٹھے ہوئے ہیں۔ادھر سری نگر یا دیگر ضلع صدر مقامات میں پرائیویٹ اسکولوں کی گاڑیوں کی نقل حمل بدستور بند ہی رہی۔ پرائیویٹ اسکول مالکان نے کہا کہ ہم گاڑیوں کو علاقوں میں بھیج کر بچوں کی زندگیوں کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے ہیں۔ان کا کہنا ہے: ‘ہم گاڑیوں کو علاقوں میں بھیج کر بچوں کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے ہیں کیونکہ ہمارے لئے تعلیم سے بھی زیادہ بچے کی زندگی اہم ہے، جب زندگی ہے تو پھر سب کچھ ہے’۔گیارہویں جماعت کے ایک طالب علم کے ایک والد نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ کہ موجودہ حالات میں ہم بچوں کو اسکول بھجینے میں مختلف خطرات محسوس کرتے ہیں کیونکہ بچوں کے گھر سے نکلنے کے ساتھ ہی ان کے ساتھ رابطہ منقطع ہوجاتا ہے۔انہوں نے کہا: ‘موجودہ حالات میں ہم بچوں کو کیسے اسکول بھیج سکتے ہیں، بچے گھر سے نکلتے ہیں تو ان کے ساتھ رابطہ منقطع ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے ہم بہت ہی پریشان ہوجاتے ہیں، پہلے اسکول بھیجتے تھے تو بچوں اور اساتذہ کے ساتھ فون کے ذریعے رابطہ رہتا تھا کہ بچے اسکول پہنچ گئے یا نہیں لیکن اب چونکہ یہ سب ممکن نہیں ہے لہٰذا لوگ بچوں کو اسکول نہیں بھیجتے ہیں’۔ادھر وادی کے دیگر ضلع صدر مقامات سے بھی اسکول کھلنے لیکن اسٹاف حاضر اور طلبا غیر حاضر رہنے کی اطلاعات ہیں۔ وسطی ضلع بڈگام کے سرکاری وغیر سرکاری اسکولوں کا بھی یہی حال ہے عملہ بچوں کو پڑھانے کے لئے موجود تو ہے لیکن بچے گھروں میں ہی ہیں۔ایک پرائیویٹ اسکول کے مالک نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ ہمارا اسٹاف روز نو بجے سے ہی اسکول میں موجود رہتا ہے لیکن کوئی بھی بچہ اسکول نہیں آتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیں بچوں کے لئے اسٹیڈی مواد تیار کرکے انہیں گھر بھیجنا پڑا۔تاہم یہ بات یہاں قابل ذکر ہے کہ کئی علاقوں میں کئی باضمیر اور فرض شناس اساتذہ نے اپنے گھروں کو ہی مدرسوں میں تبدیل کرکے تعلیم و تعلم کے شمع کو فروزاں رکھا ہوا ہے۔