لازوال ڈیسک
سرنکوٹ؍؍ضلع پونچھ کی تحصیل سرنکوٹ میں ۱۹۸۴ء میں اینڈومنٹ نامی ایک بنک شاخ کھلی تھی اور پورے ہندوستان میں اس کی شاخیں پھیلی ہوئی تھیں۔عوام نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے جمع کی ہوئی رقم کروڑوں کے حساب سے مذکورہ بنک میں جمع کروائی، لیکن ۱۹۹۹ء میں ریزرو بنک آف انڈیا کی ہدایات کے مطابق کھرا نہ اترنے کی صورت میں بنک ناکام ہو گیا جس وجہ سے غریبوں کی جمع پونجی جو کروڑوں میں تھی ڈوب گئی۔حالانکہ بنک ہذا کی ملکیت جائداد زمینیں دوکانیں ریاست اور بیرون ریاست موجود تھیں جس کی اوست قیمت دو سو کروڑ سے زیادی تھی۔جو کرائم برانچ جموں میں مطابق ریکارڈ کاغذات میں زیر ایف آئی آر نمبر۹؍ ۲۰۰۱ ضبط کی تھی لیکن مقدمہ زیر بحث کا چالان ۲۰۱۲ء میں عدالت چیف جوڈیشل مجسٹریٹ جموں میں پیش ہونے سے قبل ہی مذکورہ بنک جائداد بنک کو فروخت کر دیا گیا۔اس ضمن میں ذاکر حسین شاہ جو کہ ایک سماجی کارکن ہیں انہوں نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ مقدمہ ہذا کے ابتدائی تفتیشی انسپکٹر جاوید احمد کی ملی بھگت کی وجہ سے مذکورہ بنک کی جائداد فروخت کی گئی اس سلسلہ میں کافی جدوجہد کے بعد عدالت عالیہ مداخلت کی بنا ء پر کرائم برانچ جموں میں ایک مقدمہ زیر ایف آئی آر نمبر ۶۷۔۲۰۱۵ درج کیا گیا لیکن عرصہ تین برس گذر جانے کے بعد اس وقت تک کرائم برانچ نے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھائے ۔ انہوں نے کرائم برانچ پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ محکمہ کے آفیسران اس گھورکھ دھندے میں برابر کے حصے دار ہیں اسی وجہ سے اتنے طویل عرصہ میں کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔انہوں نے کہا کہ اس بنک کی جائداد میں سے سرنکوٹ میں ایک شاپنگ کمپلکس جو بیس دوکانوں پر مشتمل ہے اس وقت بھی محکمہ مال میں بنک ڈائریکٹر بشیر احمد منہاس کی ملکیت ہے، جسکا مذکورہ شخص کرایہ بھی وصول کر رہا ہے علاوہ ازیں اسی کمپلکس میں ایک پرنٹنگ پریس بھی چل رہا ہے ۔ چونکہ متذکرہ بالا جائداد عدالت کی ملکیت ہے اور قبل ازیں کرائم برانچ نے ضبط کر رکھی تھی اور اب اس معاملے میں ذاکر حسین شاہ نے مطالبہ کیا ہے کہ مذکورہ جائداد کو دوبارہ ضبط کیا جائے اور اس معاملے پر دوبارہ شنوائی کی جانی چاہئے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس سے پہلے بھی ایک تحریری بیان آئی جی کرائم جموں ، ڈائریکٹر جموں کشمیر پولیس کو بھی استدعا کی گئی تھی کہ متذکرہ بالا مقدمہ میں کرائم برانچ کے آفیسران ملوث ہیں جس وجہ سے آج تک تحقیقات نہیں ہو سکی علاوہ ازیں مقدمہ ہذا میں کرپشن ایکٹ بھی لگا ہوا ہے لہذا اس بنا پر مقدمہ کی تحقیقات سی ۔بی۔آئی یا ویجی لینس کو سونپی جائے تاکہ صاف وشفاف طریقہ سے معاملہ کی جانچ ہو اور مستحقین کو انصاف مل سکے۔ انہوں نے چیف جسٹس جموں و کشمیر سے اپیل کی کہ مقدمہ ہذا