کشمیرمیںحالات ٹھیک ہیں،سوشل میڈیا پر پھیلائے جارہے سرکاری حکم نامے بے بنیاد: ستیہ پال ملک
یواین آئی
سرینگرجموں کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے جارہے سرکاری حکم ناموں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک اور نارمل ہے، لوگوں کو افواہوں پر توجہ نہیں دینی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ کشمیر میں افواہیں بہت پھیلتی ہیں ان پر کان دھرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔موصوف گورنر نے ان باتوں کا اظہار منگل کے روز یہاں شیر کشمیر انٹرنیشنل کنووکیشن سینٹر میں منعقدہ ایک تقریب کے حاشئے پر میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا: ‘جو دکھایا گیا ہے سوشل میڈیا پر، وہ سرکار کے حکم نامے نہیں ہیں، کشمیر میں اگر کسی کو لالچوک میں چھینکیں آتی ہیں تو گورنر ہا¶س تک خبر پھیلتی ہے کہ بم پھٹ گیا ہے، یہاں افواہیں بہت پھیلتی ہیں، ان پر کان دھرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے یہاں سب کچھ ٹھیک ہے’۔قبل ازیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ملک نے کہا کہ کشمیر میں ایک زمانے میں دلی کی سرکاروں نے بے ایمانی کرکے وزیر اعلیٰ چنے ہیں۔انہوں نے کہا: ‘ایک زمانے میں دلی کی سرکاروں نے غلطی کی ہے اور بے ایمانی کرکے یہاں بغیر چنا¶ کے وزیر اعلیٰ چنے ہیں اور جیتنے والے لیڈروں کو ہرا دیا ہے’۔کشمیر کے لیڈروں کو سب سے گناہ گار قرار دیتے ہوئے مسٹر ملک نے کہا: ‘میں یہاں کے لیڈروں کو سب سے زیادہ گناہ گار مانتا ہوں، انہوں نے کبھی سچ نہیں بولا، وہ ایسے ایسے خواب لوگوں کو دکھا رہے تھے کہ ایک سال میرا شال والا بھی مجھ سے پوچھتا ہے کہ صاحب آزادی کب ہوگی، میں نے کہا کہ تم لوگ تو آزاد ہی ہو اگر پاکستان کی طرف جانا چاہتے ہو تو چلے جا¶ لیکن ہندوستان کو توڑ کے کوئی آزادی نہیں ملے گی’۔موصوف گورنر نے کہا یہاں کے لیڈر لوگوں کو مخلتف بہانوں سے بہلاتے ہیں۔انہوں نے کہا: ‘یہ لوگ اٹانومی بتارہے ہیں، دلی سے آکر یہاں کے لوگوں میں بیٹھ کر سبز رومال نکالتے ہیں یہ دکھانے کے لئے کہ ہمیں پاکستان کی حمایت حاصل ہے، پاکستان اپنے آپ کو سنبھال نہیں پارہا ہے تو تمہارا کیا کرے گا’۔ملک نے کہا کہ ہم نے اس ریاست کے بچوں کو سمجھانا ہے اور ترقی کے اقدام کرنے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جو محبت سے ہوگا وہ تلوار سے نہیں ہوسکتا اور میرا بھی یہ ماننا ہے کہ جو ملی ٹنٹ کے بندوق سے نہ ہوسکا وہ ہمارے بندوق سے بھی نہیں ہوگا۔کشمیر میں حالات بہتر ہونے کے لئے تعلیم کے رول کو انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے ملک نے کہا: ‘کشمیر سدھر جائے گا اور اس کے سدھر نے میں تعلیم کا اہم رول ہے، جنوب کے چار ضلعے خراب ہیں اگر وہاں بھی اچھے اسکول قائم کئے جائیں گے تو وہاں کے ملی ٹنٹ بھی آپ کو فون کریں گے کہ میرے بیٹے یا بھتیجے کا داخلہ کریں’۔گورنر ملک نے بیرون ملک سے آئے وفد کو گلمرگ کی سیر کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا: ‘گلمرگ بہت ہی خوبصورت جگہ ہے وہاں آپ جائیے اور گلمرگ کو ایک بجے بند کرنا پڑتا ہے کیونکہ سیاحوں کا کافی رش ہے’۔مسٹر ملک نے کہا کہ یہاں سڑک پر کسی بھی شخص سے بات کی جائے تو وہ صرف ترقی چاہتا ہے۔انہوں نے کہا: ‘سڑک پر جو آدمی ہے اس سے پوچھئے کہ کیا چاہتے ہو تو وہ کہے گا ہمیں لیڈروں سے بچائیں، ہمیں چنا¶ کی ضرورت نہیں ہے، ہمیں ترقی چاہئے، ہمیں اسکول، سڑکیں، پل وغیرہ چاہئے، یہ چیزیں اس کو دینے کی ضرورت ہے لیکن بھیک کے بطور نہیں بلکہ اس طرح کہ جیسا یہ اس کا حق ہے’۔موصوف گورنر نے کہا کہ دلی نے کشمیر کو بہت کچھ دیا ہے لیکن وہ دوسروں کے کھاتوں میں گیا ہے۔ان کا کہنا تھا: ‘دلی نے جو دیا ہے وہ لیڈروں اور بڑے افسروں نے کھایا، اس پر میں روز بولتا ہوں اور اب میرے لئے دقت بن گئی ہے، عام آدمی کی حالت یہ ہے کہ امرناتھ یاترا کے دوران میں نے دیکھا، یہاں امر ناتھ یاترا کے پہلے دن گورنر یاترا کرتا ہے، کہ جو بچے گھوڑوں کے ساتھ ہیں ان کے پاس پہننے کے لئے سویٹر نہیں ہے، یہاں کے جو افسر اور لیڈر ہیں ان کی رئیسی اگر دیکھو گے تو حیران ہوجا¶ گے کہ ان کے پندرہ کمروں والے مکان ہیں جن میں کئی کروڑ کے قالین لگے ہوئے ہیں، ایک مکان یہاں ہے، ایک دلی میں، ایک دبئی میں، ایک لندن میں، اور یہ ان لیڈروں کے ہیں جن کے تین پیڑی پہلے دادا معمولی نوکری کیا کرتے تھے’۔پنچایتی انتخابات کو کامیاب قرار دیتے ہوئے ستیہ پال ملک نے کہا: ‘ہم نے پنچایتی انتخابات کرائے ایک چڑیا کو بھی نقصان نہیں ہوا، ہمارے سر پنچ اس وقت ایم ایل اے سے بھی اچھی حالت میں ہیں’۔ وزیر داخلہ کی سر پنچوں کے ساتھ ہوئی میٹنگ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا: ‘وزیر داخلہ کے ساتھ جب یہاں سرپنچوں کی میٹنگ ہوئی تو اس میں تین خواتین سر پنچ بھی تھیں ان میں سے دو کی تقریریں سن کر میں نے سمجھ لیا کہ کشمیر میں نئی طرح کی لیڈرشپ ابھررہی ہے، میں یہاں کی خاندانی لیڈر شپ کی عزت کرتا ہوں لیکن وہ علاج نہیں ہے، یہ نئی لیڈر شپ پنچایتوں سے نکلے گی اور یہ یہاں کے مسائل سے واقف ہے’۔بتادیں کہ مرکزی حکومت نے مرکزی نیم فوجی دستوں کی 100 اضافی کمپنیاں کشمیر روانہ کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں جس کے ساتھ ہی وادی میں یہ افواہیں گردش کرنے لگی ہیں کہ مرکزی حکومت دفعہ 35 اے کو منسوخ کرسکتی ہے۔وادی میں نیم فوجی دستوں کی اضافی کمپنیوں کی تعیناتی کے اس ہنگامی اقدام نے وادی بھر میں خوف و ہراس کا ماحول برپا کردیا ہے۔ تاہم مرکزی اور ریاستی حکومت مرکزی نیم فوجی دستوں کی 100 اضافی کمپنیاں وادی بھیجنے کی ضرورت درکار پڑنے کی ٹھوس وجہ بیان کرنے پر خاموش ہیں۔ واضح رہے کہ جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 35 اے اس وقت عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے۔