’مرکزکے قول و فعل میں تضاد، ہمیں اب بھروسہ نہیں رہا‘
ہم ہندوستانی ہیں لیکن دفعہ 35Aاور 370ہماری شناخت کےلئے ناگزیر
لازوال ڈیسک
نئی دہلینیشنل کانفرنس صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے بتایا کہ ہم ہندوستانی ہیں لیکن دفعہ 35Aاور 370ہماری شناخت کےلئے ناگزیر ہے۔نیشنل کانفرنس صدر اور رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے نئی دہلی می ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم ہندوستانی ہے لیکن دفعہ 35Aاور 370 ہماری شناخت کےلئے ناگزیر ہے“۔انہوں نے کہا کہ ”جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن فراہم کرنے والی دفعہ35Aاور 370کا برقرار رہنا ضروری ہے ۔این سی صدر کا کہنا تھا کہ دفعہ 35Aاور 370کو منسوخ نہیں کیا جانا چاہیے، یہ ہماری بنیاد ہے۔ اس کو ہٹائے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم ہندوستانی ہے لیکن دفعہ 35Aاور 370ہمارے لیے ضرور ی ہے“۔اس دوران ’کے این ایس ‘کیساتھ بات چیت میں اُنہوں نے پارٹی دو تین دنوں کے اندر کل جماعتی اجلاس طلب کرکے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرےگی۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی تشویشناک معاملہ ہے کہ سیکورٹی ایجنسیوں مندروں، گردھواروں اور گرجاگروں کو یک طرف کرتے ہوئے صرف مساجد کی تفصیلات مانگنی شروع کردی ہے۔کشمیرنیوز سروس (کے این ایس) کےساتھ بات کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس صدر اور رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے جموں وکشمیر میں دفعہ35Aپر عوام کے اندر پائی جارہی اضطرابی کیفیت پر اپنے ردعمل میں کہا کہ پارٹی دو تین دنوں کے اندر اندر کل جماعتی اجلاس طلب کرنے جارہی ہے جس میں جموں وکشمیر کی آئینی شناخت کے تحفظ کی خاطر آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کیا جائےگا۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ یقینا دفعہ 35Aپر جموں وکشمیر کے اندر کافی تناﺅ پایا جارہا ہے، لوگوں کے اندر سخت بے چینی ہے۔ اس سلسلے میں ہم آنے والے دو تین دنوں کے اندر تمام سیاسی جماعتوں کا اجلاس طلب کررہے ہیں۔ میں فی الوقت نئی دہلی میں ہوں، یہاں سے میں دیگر سیاسی لیڈران کےساتھ بات چیت کروں گا اور اجلاس سے متعلق تاریخ مقرر کروں گا۔ اگے دو تین دنوں کے اندر اندر اجلاس منعقد ہوگا۔ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ حکومت ایک طرف کہتی ہے کہ حالات بالکل ٹھیک ہے، سیاحتی سیزن جوبن پر ہے اور امرناتھ یاترا بھی خوش اسلوبی کےساتھ رواں دواں ہے لیکن دوسری جانب جو کچھ اقدامات حکومت کی جانب سے اُٹھائے جارہے ہے وہ قابل تشویش معاملہ ہے۔ این سی صدر کا کہنا تھا کہی حکومت اب مساجد اور یہاں مولوی صاحبان اور دیگر انتظامیہ کا ریکارڈ مانگ رہی ہے۔ یہ سوچنے والی بات کہ حکومت مندروں، گردھواروں اور گرجاگروںکا ریکارڈ مانگ نہیں رہی ہے بلکہ صرف مساجد کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مسجد میں اللہ کا نام لیا جاتا ہے اور یہاں نمازیں پڑھی جاتی ہیں۔ لہٰذا حکومتی اقدامات مذہب پر براہ راست حملہ ہے ۔ہم اس طرح کے اقدامات کے تناظر میں میٹنگ بلارہے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق کا کہنا تھا کہ مرکزی سرکار کہتی ایک بات ہے اور کرتی دوسری بات ہے۔ ہمیں ان پر کوئی بھی بھروسہ نہیں، لہٰذا ہمیں اب اس بات کو دیکھنا ہوگا اور اس پر مل بیٹھ کر غور وفکر کرنا ہوگا تاکہ اس کا سختی کےساتھ مقابلہ کیا جاسکے۔