کشمیر میں کیا ہونے والا ہے؟
یواین آئی
سری نگرنیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ریلوے پولیس کشمیر کی ایک میٹنگ جس میں وادی کشمیر میں مبینہ امکانی گڑبڑ کے پیش نظر مختلف حفاظتی تدابیر زیر بحث لائے گئے ہیں، کے تناظر میں حکومت سے خاموشی توڑنے کا مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کشمیریوں پر خوف پیدا کرنے کا الزام لگانا آسان ہے لیکن ان سرکاری احکامات کا کیا کیا جائے جن میں لاء اینڈ آڈر صورتحال بگڑنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔عمر عبداللہ نے ریلوے پولیس کشمیر کی 27 جولائی کو بڈگام میں منعقد ہوئی میٹنگ کے احوال سے متعلق لیک ہونے والے سرکاری دستاویز کو ٹویٹر پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا: ‘اہلیان وادی پر خوف پیدا کرنے کا الزام لگانا آسان ہے لیکن ہم ان سرکاری احکامات کا کیا کریں جن میں لاءاینڈ آڈر صورتحال میں بگاڑ اور طویل مدت تک جاری رہنے والے گڑبڑ کی پیش گوئی کی گئی ہیں۔ حکومت خاموش کیوں ہے؟’۔ متذکرہ سرکاری دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ریلوے نے احتیاطی سیکورٹی میٹنگ کا انعقاد مختلف سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف سے موصولہ اطلاعات جن میں وادی میں لاءاینڈ آڈر صورتحال بگڑنے کی پیش گوئی کی گئی ہے، کے تناظر میں منعقد کی ہے۔ میٹنگ میں مختلف ہدایات بشمول چار ماہ تک راشن اسٹور کرنے، کم از کم ایک ہفتے تک واٹر اسٹور رکھنے، گاڑیوں کو محفوظ جگہوں پر کھڑا کرنے، ریلوے ملازمین کے افراد خانہ کو ریلوے کوارٹروں سے گھروں میں منتقل کرنے، جاری کی گئی ہیں۔بتادیں کہ مرکزی حکومت نے مرکزی نیم فوجی دستوں کی 100 اضافی کمپنیاں کشمیر روانہ کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں اور وادی میں یہ افواہیں گردش کرنے لگی ہیں کہ مرکزی حکومت دفعہ 35 اے کو منسوخ کرسکتی ہے۔وادی میں نیم فوجی دستوں کی اضافی کمپنیوں کی تعیناتی کے اس ہنگامی اقدام نے وادی بھر میں خوف و ہراس کا ماحول برپا کردیا ہے۔ تاہم مرکزی اور ریاستی حکومت مرکزی نیم فوجی دستوں کی 100 اضافی کمپنیاں وادی بھیجنے کی ضرورت درکار پڑنے کی وجہ بیان کرنے پر خاموش ہیں۔ واضح رہے کہ جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 35 اے اس وقت عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے۔دریں اثنا پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے مرکزی وزارت داخلہ کے فیصلے جس کے تحت جموں وکشمیر میں سیکورٹی فورسز کی 100 اضافی کمپنیاں تعینات کی جائیں گی، کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے جس کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اضافی کمپنیوں کی تعیناتی کے فیصلے سے وادی کشمیر میں لوگوں کے اندر شکوک پیدا ہوئے ہیں۔