پانچ سال کا بن باس

0
0

افسانہ

 

ڈاکٹر مشتاق احمدوانی
9419336120
اسسٹنٹ پروفیسر اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
امان اللہ کی سب سے بڑی بیٹی ذلفاں بی بی باٹنی میں ایم ایس سی کرنے کے بعد اب کسی موضوع پہ ریسرچ کرنے کا پروگرام بنارہی تھی کہ اسی دوران مرکزی سرکار نے دیہاتوں میں تعلیم عام کرنے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان لڑکوں اور لڑکیوںکے لئے ایک نئی تعلیمی پالیسی کو ترتیب دے کر اسے منظوری دی جسے’ عام تعلیمی تحریک ‘کے نام سے موسوم کیا گیا۔امان اللہ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور اپنی بڑی بیٹی ذلفاں بی بی کا اس سے فارم بھروایا ۔ذلفاں بی بی کو جب یہ معلوم ہوا کہ اسے اپنے آبائی گاوں کے پرائمری اسکول میں بحیثیت معلمہ کام کرنا ہے تو اس نے حیرت واستعجاب کے عالم میں امان اللہ سے کہا
’’پاپا! میں باٹنی میں ایم ایس سی ہوںاور گاوں کے پرائمری اسکول میں بچّوں کو پڑھاوں گی؟مجھے گاوں میں نہیں جانا ہے۔یہ مجھ سے نہیں ہوگا‘‘یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسوآگئے ۔امان اللہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
’’بیٹی !بے شک تم باٹنی میں ایم ایس سی ہومگر تمھیں یہ معلوم ہونا چایئے کہ اس زمانے میں بڑی نوکری تو کہاں چھوٹی نوکری بھی نہیں ملتی۔شہروں میں تعلیم اس قدر عام ہے کہ ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بے روز گاری کے دن گزاررہے ہیں۔تُم اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھنا کہ اگر تمھاری سلیکشن ہوجائے‘‘
ذلفاں بی بی نے اپنے باپ کی نصیحت آمیز باتیں سن کر چپ سادھ لی۔وہ نہایت حسین،حساس اور محنتی تھی۔بڑی بہن ہونے کے ناطے وہ اپنے اکلوتے بھائی اور چھوٹی بہنوں کی پڑھائی لکھائی اور ان کے اخلاق وکردار کے بارے میں کافی فکر مند رہتی۔اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہ امور خانہ داری میں اپنی ماں کا ہاتھ بٹاتی۔تقریباً ایک ماہ کے بعدجب ذلفاں بی بی کانام چیف ایجوکیشن آفیسر کے دفتر میں مرتب کردہ فہرست معلمان میں پہلے نمبر پر آگیا تو امان اللہ کو اپنی بیٹی کی سلیکشن پہ بے انتہا خوشی ہوئی۔انھوں نے ذلفاں بی بی کو ساتھ لے کر دفتر سے حکم نامہ حاصل کیا۔اس کے حکم نامے میں اس کے آبائی گاوں کے اسکول کانام اور ضروری شرائط کے علاوہ اس کی پندرہ سو ماہانہ تنخواہ کا ذکر تھا۔حکم نامے میں یہ بات بھی درج تھی کہ اس نئی تعلیمی پالیسی کے تحت ایک معلم یا معلمہ کو پانچ برس کے بعد مستقل طور پر سرکاری ملازمت کے تمام حقوق حاصل ہوجائیں گے اور دوبرس کے بعد دوہزار روپے اور پھرتین برس پورے ہونے کے بعد تین ہزار روپے تنخواہ ہوگی۔ذلفاں بی بی کے دل میںخوف اور ذہن میں ایک انجانے وان دیکھے ماحول میں زندگی گزارنے کا تصّور باربار ابھررہا تھا۔باٹنی میں ایم ایس سی ،پرائمری اسکول میں درس وتدریس کا کام،پندرہ سو روپے ماہانہ تنخواہ،گاوں کا ماحول،ماں باپ اور بھائی بہنوں سے بہت دور ،سرکاری نوکری ملنے کا احساس مگر فی الحال عارضی طور پر صبر آزمائی کا ایک طویل سلسلہ ۔یہ تمام باتیں ذلفاں بی بی کے ذہن ودل میں کچوکے لگارہی تھیں مگر اس کے باوجود اس نے اپنے ماں باپ کے حکم کی تعمیل میں ہی اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کا عزم کیا اور پھر وہ ایک دن اپنے باپ کے ہمراہ اپنے بھائی ،بہنوں اور ماں سے رخصت لے کر گاوں چلی گئی۔وہ اپنے باپ کے ہمراہ شہر کی کشادہ اور پکی سڑک پر سے گزرنے والی منی بس میں سوار تھی کہ اچانک بہت دور جانے کے بعد منی بس ایک کچی سڑک پر ہچکولے کھانے لگی۔سڑک کے آس پاس مختلف قسم کے درختوں کا ایک لا متناہی سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔تقریباً چار گھنٹے کے بعد امان اللہ نے ایک جگہ گاڑی رُکوائی اور دونوں باپ ،بیٹی منی بس سے نیچے اترے۔اب انھیں ایک کلو میٹر چڑھائی کا سفر درپیش تھا ۔امان اللہ تو خود بچپن سے اوبڑکھابڑ راستوں پر چلنے کے عادی تھے مگر ذلفاں بی بی کے لیے یہ چڑھائی مونٹ ایوریسٹ کی چوٹی پر چڑھنے کے مترادف تھی۔آخر کار شام ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے ذلفاں بی بی اپنے باپ کے ہمراہ تھک ہار کے اپنے آبائی میں پہنچی۔غفار چودھری گاوں کے معتبر آدمیوں میں شمار ہوتے تھے ۔ان کا بڑا بیٹا عبدل مال مویشی چرانے کا کام کرتا تھا اور چھوٹا بیٹا نصیر فوج میں ملازم تھا ۔ان کی تین بیٹیاں تھیں ۔تینوں شدی شدہ تھیں ۔غفار چودھری کے گھر پر امان اللہ اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر چلے گئے۔غفار چودھری اور ان کے اہل خانہ امان اللہ اور ان کی آمد پر بہت خوش ہوئے ۔انھوں نے امان اللہ کو مبارک باددی،کھاٹ پہ نیا کمبل بچھایا دہی لسی کا انتظام کیا ،لالٹین میں مٹّی کا تیل ڈالا ،گھر کے برآمد ے میںپڑے کوڑے کو جھاڑو سے صاف کیا ۔غفار چودھری اپنے منہ سے حقے کی نے الگ کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور ذلفاں بی بی کے سر پہ اپنا دست شفقت پھیرتے ہوئے بولے
’’ہمارے گاوں کی پُتری جوان ہوگئی ہے ۔رب سکھی رکھے!گاوں میں روشنی بن کر آئی ہے ۔مالک تندرستی کے ساتھ لمبی عمر دے۔ بٹیا! کسی بھی بات کی فکرنہ کرنا ،جو دال پھلکہ ہمارے گھرمیں پکے گا اپنا گھر سمجھ کر کھا لینا‘‘
ذلفاں بی بی کو غفار چودھری کی باتیں سن کر تھوڑی سی تسّلی ملی۔اس کے چہرے پر بشاشت سی ابھرآئی۔شب کی سیاہی میں سارا گاوں ڈوبا ہوا تھا ۔دور دور تک یہاں وہاں گھروں میں چراغوں کی لو ٹمٹمارہی تھی۔کہاں شہر کی گلیوں اور بازاروں کی آنکھوں کو خیرہ کردینے والی روشنی اور لوگوں کی چہل پہل اور کہاں یہ گاوں کا سنسان و ویران سا ماحول ۔ذلفاں بی بی کو اس ماحول میں اپنا آپ اُس رنگین پروں والی فاختہ کی مانند معلوم ہورہا تھا جو اُڑان بھرتے بھرتے کسی خاردار جھاڑی میں پھنس گئی ہو۔انہی خیالوں میں گم کھانا کھانے کے بعد وہ بستر پہ دراز ہوگئی مگر پریشان کُن خیالات اسے بار بار کروٹیں بدلنے پر مجبور کررہے تھے ۔پھر وقفے وقفے کے بعد کہیں دور سے اس کے کانوں میں کسی کُتّے کے بھونکنے کی آواز آنے لگی۔دھیرے دھیرے نیند کی پری نے اسے اپنی آغوش میں لے کر بے سُدھ کردیا ۔صبح جب وہ بیدار ہوئی تو اس نے دیکھا کہ مشرق سے سورج طلوع ہورہا ہے۔غفار چودھری کی بیوی اور اس کی بڑی بہو بھینسوںسے دودھ لے رہی ہیں۔امان اللہ نے ذلفاں بی بی کو کہا
’’بیٹی ! تیار ہوجاو،آج اسکول میں تمھاری جوائننگ ہے‘‘
دونوں باپ، بیٹی ناشتے سے فاغ ہونے کے بعد اسکول چلے گئے۔پرائمری اسکول گاوں کے وسط میںتھا۔اس میں بھوشن لال نام کا ایک استاد تعینات تھا۔اسکول کے حاضری رجسٹر میں کُل پچاس بچّوں کے نام درج تھے لیکن اسکول میں اس روز پندرہ ہی بچّے آئے تھے۔ذلفاں بی بی نے اپنی جوائننگ رپورٹ لکھی، اس کے ساتھ اپنی آرڈر کاپی لگائی اور بھوشن لال کو پکڑائی ۔اسکول کی عمارت دوکمروں پہ مشتمل تھی۔دو کرسیاں صحیح حالت میں تھیں اور دو خستہ تھیں۔بچّے بغیر وردی کے یوں لگ رہے تھے کہ جیسے کسی پھلدار پیڑ کو پتھر مارنے آئے ہوں۔اسکول میں گھنٹی کے بدلے لوہے کا ایک ڈنڈا رکھا ہوا تھا جسے اسکول کھولنے ،بند کرنے اور چھٹی کے وقت بجایا جاتا تھا۔ذلفاں بی بی اسکول اور بچّوں کی حالت دیکھ کر حیرت میں پڑ گئی ۔اس کی زبان سے ایک ٹھنڈی آہ نکل گئی ۔آج اسے عملی طور پر شہری اور دیہاتی زندگی میں فرق معلوم ہورہا تھا۔دوسرے دن امان اللہ نے غفار چودھری سے رخصت لیتے ہوئے کہا
’’میری بیٹی ،پہلے تو خدا کے حوالے پھر آپ کے حوالے۔اس کاخیال رکھیے۔شہری ماحول سے نکل کر دیہاتی ماحول میں آئی ہے۔فی الحال پریشان سی لگ رہی ہے‘‘
غفار چودھری بولے
’’آپ بیٹی کی فکر نہ کیجیے،ہم اس کا ہر طرح سے خیال رکھیں گے۔یہاں اس کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ اپنے آپ کواپنے گھر میں سمجھ لے‘‘
امان اللہ نے اپنی بیٹی کو تسلّی دیتے ہوئے کہا
’’بیٹی! خوش رہنا اپنے کام کو عبادت سمجھ کر انجام دینا ۔جب ہمارے لیے اداس ہوجاو گی تو شہر چلے آنا۔ہمت وحوصلے سے کام لینا ۔یہ لو چار ہزار روپے اپنے پاس رکھ لو۔میری یہ بات یاد رکھنا کہ نیک نیتی،بلند ہمتی اور محنت ولگن سے کام کرنے والے لوگ دنیا میں عزت اور کامیابی والی زندگی گزارتے ہیں‘‘
ذلفاں بی بی اپنے باپ کی باتیں سن کر باوجود ضبط کے اپنے آنسووں کو نہ روک پائی۔دو بوند آنسواس کی آنکھوں سے بہہ نکلے۔باپ کے شہر جانے کے بعد اس نے اپنے آپ میں ہمت وحوصلہ پیدا کیا۔وہ دل میں یہ عزم لے کر اُٹھی کہ وہ ان پانچ برسوں میں اپنے بل بوتے پر ایک خوشگوار انقلاب برپا کرے گی۔خاص کر اپنے گاوں کی پسماندگی کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔صفائی،سچائی اور پاکیزہ اخلاق وکردار کی تعلیم پر خصوصی توجہ دے گی۔اس نے جھجھکتے ہوئے غفار چودھری سے کہا
’’چچا!میں آپ کے مکان میں ایک الگ کمرے میں اپنی کتابیں ،بستر اور دوسری ضروری چیزیں رکھنا چاہتی ہوںتاکہ میں اسکول میں ڈیوٹی دینے کے بعد اپنی کتابیں پڑھ سکوں‘‘
’’بیٹی! اچھی بات ہے تم اس پچھلے کمرے میں اپنا بستر ،کتابیں اور پہننے کے کپڑے رکھ سکتی ہو‘‘
انھوں نے خود جاکر ذلفاں بی بی کو کمرہ دکھایا ۔اس نے خود جھاڑو سے کمرے میں صفائی کی ۔چارپائی ایک طرف لگائی،بستر پہ نیا بیڈ شیٹ ڈالا ،ردی اخباروں کو دیواروں پہ چسپاں کیا اور اس طرح پورا کمرہ بیٹھنے کے لائق بنادیا۔موم بتیوں کا پیکٹ وہ دکان سے خرید لائی تاکہ رات کو لکھنے پڑھنے کا کام کرسکے۔رات کو کھانا کھانے کے بعد ذلفاں بی بی نے علم نباتات کی کتابوں کے علاوہ سماجیات،اقتصادیات ،دینیات اور دنیا کی عظیم شخصیات سے متعلق کتابیں لکڑی کی الماری میں ترتیب سے رکھیں ۔سونے سے پہلے غفار چودھری کی بہو نے اسے دودھ کا گلاس دیا پھر اس نے اپنا موبائل سیٹ آن کیا،گھر میں سب سے باتیں کرنے کے بعد موبائل فون کا سوئچ آف کرکے سو گئی۔صبح وہ جلدی جاگی۔نماز اور تلاوت کلام پاک کے بعد چائے ناشتے سے فارغ ہوئی۔قرمزی رنگ کا سوٹ زیب تن کیا اور اسکول چلی گئی۔بیس منٹ کم دس پہ وہ اسکول پہنچی۔ابھی کچھ ہی بچّے اسکول آئے تھے ۔بھوشن لال دس بج کر دس منٹ پہ اسکول پہنچا۔بچّوں کو ایک چھوٹے سے گراونڈ میں پرارتھنا کرنے کے لیے قطاروں میں کھڑا کیا گیا۔پانچویں کی دو لڑکیاں سامنے آکھڑی ہوئیں اور پرارتھنا شروع کی۔ذلفاں بی بی کو یوں محسوس ہوا کہ بچّے پرارتھنا نہیں کررہے ہیں بلکہ بے سُری آواز میں آہ وزاری کررہے ہیں۔پرارتھنا کے بعد بچّوں کو اپنی کلاسوں میں جانے کو کہا گیا۔تمام بچّے بھگدڑ مچاتے ہوئے چلے گئے ۔آخر میں بھوشن لال اور ذلفاں بی بی اسکول کے آفس میں چلے گئے ۔بھوشن لال کافی سینئر ٹیچر تھا ۔محکمہ ء تعلیم میں وہ بیس برس سے کام کررہا تھا ۔ذلفاں بی بی نے بڑے پُر اعتماد لہجے میں بھوشن لال سے کہا
’’سر! ہمیں اپنے اسکول کو مثالی اسکول بنانے کے لیے کامیاب منصوبہ بندی کے تحت ٹھوس اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔اس سلسلے میں مجھے آپ کا بھر پور تعاون چاہیے‘‘
بھوشن لال نے کہا
’’میں تو آپ کا ساتھ دوں گالیکن آپ نے یہ مشہور ضرب المثل ضرور سنی ہوگی کہ ’’جیسا دیس ویسا بھیس‘‘یہ گاوں کا پرائمری اسکول ہے اسے کیا مثالی اسکول بناو گی ذلفاں بی بی؟‘‘
ذلفاں بی بی نے جواب دیا
’’سر! انسان کو نیک نیتی سے کام کرنا چاہیے۔میں دیس اور بھیس میں بدلاو چاہتی ہوں،لہزا ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہیے۔ہم اپنی استعداد کے مطابق کوشش تو کریں‘‘
بھوشن لال نے کوئی بھی دلیل نہیں دی۔خاموش رہا پھر آہستہ سے کہا’’چلیے آپ بدلاو کی مہم شروع کرکے دیکھ لیں‘‘
ذلفاں بی بی نے سب سے پہلے اسکول کا ٹائم ٹیبل بدلا ۔پانچویں اور چوتھی کلاس کے تمام مضامین اپنے نام پہ رکھے اور بھوشن لال کو پہلی سے تیسری تک کی کلاسیں پڑھانے کو دیں۔بچّوں کو چھٹی ہونے سے پہلے اسکول کے احاطے میں بٹھایا ۔انھیں اسکول کی وردی کی اہمیت سمجھائی ۔نیلے رنگ کی پتلون اور سفید رنگ کی قمیص سلوانے کو کہا۔ایک ہفتے کے اندر اندر تمام لڑکوں اور لڑکیوں کو وردی تیار کروانے کی ہدایت دی۔دوسرے دن اس نے بھوشن لال کو یہ مشورہ دیا
’’سر! میں چاہتی ہوں کہ سر پنچ صاحب اور اس گاوں کے اسکول کمیٹی ممبران کو بذریعہ نوٹس کل یہاں مدعو کیا جائے تاکہ ان کی موجودگی میں ہم اس اسکول کو مڈل اسکول بنانے،گاوں میں بجلی،پانی اور سڑک کا معقول انتظام کرنے کا تحریری طور پر منصوبہ تیار کرکے انھیں حکام اعلیٰ کے پاس بھیجیں‘‘
بھوشن لال متفق ہوا۔اس نے کہا
’’ہاں کل یہی کام کریں گے ، تمھارا مشورہ اچھا ہے‘‘
دوسرے دن ذلفاں بی بی اور بھوشن لال نے سرپنچ اور اسکول کمیٹی ممبران کے نام دعوتی رقعے لکھ کر بچّوں کے ہاتھ ان تک پہنچانے کو دیے۔سرپنچ اور ممبران کمیٹی جب اسکول میں آئے تو ذلفاں بی بی نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا
’’ہم آپ کے مشکور وممنون ہیں کہ آپ اپنا قیمتی وقت نکال کر یہاں تشریف فرما ہوئے۔میں اسکول اور پورے گاوں کے بارے میں آپ کے سامنے چند اہم اور بنیادی مسائل رکھنا چاہتی ہوںاور امید کرتی ہوں کہ آج کی اس میٹنگ میں ہم سب جو فیصلہ لیں گے اسے عملی جامہ پہنانے کی خاطر آپ ہر طرح کی قربانی دیں گے۔پہلی بات یہ کہ اس پرائمری اسکول کو مڈل اسکول بنانا ہے۔دوسری بات یہ کہ پورے گاوں میںبجلی نہیں ہے۔تیسری بات یہ کہ ہمارا گاوں واٹر سپلائی اسکیم سے محروم ہے۔چوتھی بات یہ کہ اسکول کی عمارت بچّوں کے لیے ناکافی ہے۔پانچویں بات یہ کہ پردھان منتری گرام سڑک یوجنا کے تحت ہمارا گاوں نہیں لایا گیاہے۔یہ وہ اہم اور بنیادی مسائل ہیںجن کو حل کرنے کے لیے ہم سب کو جدوجہد کرنی پڑے گی۔آپ نے یہ ضرور سنا ہوگا کہ’ بن روئے ماں بچّے کو دودھ نہیں دیتی‘آپ کو میں یقین دلاتی ہوں کہ اگر آپ حکومت وقت کے اعلیٰ آفیسران یعنی بجلی،پانی،سڑک اور تعلیم کے وزیر تک رسائی حاصل کریں گے اور تحریری صورت میں ان کے سامنے اپنے مطالبات رکھیں گے تو انھیں منظوری مل جائے گی‘‘
گاوں کے سرپنچ اور دوسرے ممبران اسکول کمیٹی نے ذلفاں بی بی کی تعمیراتی سوچ اور اس کی باتیں سن کر نہ صرف خوشی کا اظہار کیا بلکہ سب نے بیک آواز آفیسران اعلیٰ سے اپنے مطالبات پورے کروانے کا مصمم ارادہ بھی کیا۔ذلفاں بی بی نے بجلی،پانی،سڑک اور تعلیم کے وزیر کے نام الگ الگ درخواستیں لکھیں ۔ان پر سرپنچ،ممبران اسکول کمیٹی اور گاوں کے بہت سے لوگوں کے دستخط کروائے اور سرپنچ کو یہ تمام درخوستیں سونپیں۔میٹنگ برخاست ہونے کے بعد بھوشن لال اپنے گھر چلا گیا اور ذلفاں بی بی اپنے ڈیرے پر چلی آئی ۔اس نے کھانا کھایا ،نماز عصر پڑھی اور تسبیح لے کر اللہ کاذکر کرنے لگی۔دوسرے دن جب وہ بروقت اسکول پہنچی تو اس نے سب سے پہلے بچّوں کو گراونڈمیں قطاروں میں کھڑا کیا۔انھیں پرارتھنا کروانے کے بعد نیچے بیٹھنے کو کہا ۔پھر اس نے انھیں صحت ،صفائی اور نظم وضبط کے بارے میںلیکچر دیا ۔اس کے بعد کلاسوں میں بھیج دیا ۔جب وہ آفس میں آئی تو اس نے بھوشن لال کو کہا
’’سر! ہمارے اسکول میں گھنٹی نہیں ہے ۔جب بچّے لوہے کا ڈنڈا بجاتے ہیں تو میں ڈر جاتی ہوں۔میں اگلے ہفتے اپنے والدین کے پاس شہر جارہی ہوں۔میں چاہتی ہوں اسکول کے لیے ایک اچھی سی گھنٹی خرید لاوں۔دوسری بات یہ کہ آپ مجھے اسکول فنڈ پوزیشن دکھایئے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ ہماری کیش بُکس میں کتنا روپیہ ہے‘‘
بھوشن لال کرسی سے اٹھ کھرا ہوا اور ایک ٹرنک سے تمام کیش بُکس نکال کر ذلفاں بی بی کے سامنے رکھیں اور اسے کہنے لگا
’’ان کیش بُکس میں کیش ان ہینڈ اور کیش ان بینک کی تفصیل ایک الگ کاغذ پہ نوٹ کریں۔ویسے میں نے ان کیش بُکس کو بڑی حفاظت میں رکھا ہے اور بچّوں کا یہ پیسہ خرچ کرنا میں گناہ خیال کرتا ہوں‘‘
ذلفاں بی بی کے ہونٹوں پہ ہلکی سی مسکان ابھر آئی وہ بولی
’’سر! گھنٹی بلڈنگ فنڈ سے خریدی جائے گی۔اس لیے میں سب سے پہلے بلڈنگ فنڈ والی کیش بُک چیک کرتی ہوں‘‘
بھوشن لال نے کہا ’’ہاں ٹھیک ہے‘‘
ذلفاں بی بی نے بلڈنگ فنڈ کیش بُک میں دس ہزار روپے کیش ان بینک دیکھا اور کیش ان ہینڈ کچھ بھی نہیں تھا۔اس کے بعد اس نے غریب فنڈ کیش بُک پہ نظر دوڑائی تو اس میں سات ہزار روپے کیش ان بینک پایا ۔اسی طرح پرنٹنگ فنڈ میں چھ ہزار روپے اور کھیلوں والی کیش بُک میں بھی اسی طرح کی رقم درج تھی۔غرضیکہ کُل ملا کر تمام کیش بُکس میں تقریباً تیس ہزار روپے بینک میں جمع تھے۔ذلفاں بی بی یہ سب دیکھ کر بہت خوش ہوئی پھر اس نے بھوشن لال کو سجھاو دینا چاہا ،اس نے کہا
’’سر! اگر آپ مناسب سمجھیں تو ان تمام کیش بُکس کا چارج آپ مجھے دے دیجیے ۔میں ان کیش بُکس میں جمع شدہ رقم ایک ضابطے کے تحت بچّوں اور اسکول پہ خرچ کروں گی‘‘
بھوش لال خوش ہوا ۔اسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے اس کے سر سے کوئی بھاری بوجھ اتار رہا ہو۔اس نے کہا
’’ہاں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ۔یہ تمام کیش بُکس اگر آپ کے چارج میں رہیں گی تو مجھے خوشی ہوگی‘‘
ذلفاں بی بی نے کہا
’’سر! میں چاہتی ہوں کہ اسکول آفس کو بیٹھنے کے لائق بنایا جائے۔میں چونکہ تین دن کے بعد اپنے والدین کے پاس شہر جارہی ہوں اس لیے چند اہم چیزوں کی فہرست بناوں گی اور آپ مجھے فی الحال چار ہزار روپے کا چیک بلڈنگ فنڈ میں سے کاٹ کر دیجیے ‘‘
بھوشن لال نے چیک کاٹ کر دے دیا۔
ذلفاں بی بی نے بھوشن لال کا شکریہ ادا کیا اور پانچویں کلاس میں بچّوں کو پڑھانے چلی گئی ۔بچّے شور کررہے تھے ۔وہ جونہی کلاس میں پہنچی تو بچّے چپ ہوگئے ۔اس نے انھیں سب سے پہلے انگریزی پڑھائی ،پھر حساب پڑھایا ۔انھیں گھر کے لیے کام کرنے کو دیا ۔اس کے بعد اس نے چوتھی کلاس کے بچّوں کو سائنس اور سوشل سائنس پڑھائی ۔انھیں بھی گھر کے لیے کام دیا ۔ریسس کے دوران اس نے پانچویں کلاس کی چار لڑکیوں کو اپنے پاس بلایا اور انھیں یہ پرارتھنا لکھ کر دی:
اے مالک تیرے بندے ہم ایسے ہوں ہمارے کرم
نیکی پر چلیں اور بدی سے ٹلیں تاکہ ہنستے ہوئے نکلے دم
ذلفاں بی بی نے مترنم آواز میں لڑکیوں کو پرارتھنا سکھانے کی ریہرسل کرائی اور آنے والے کل یہی پرارتھنا کرنے کو کہا ۔چار بجے کے بعد ذلفاں بی بی اپنے ڈیرے پہ آئی تو اس نے اسکول آفس کمرے کو سجانے اور اس میں ضروری اشیا کی فہرست تیار کی جس میں ہیڈ ماسٹر صاحب کی کرسی کے اوپر رکھا جانے والا تولیہ،ہاتھ دھونے والا صابن ،بڑے سائز کا آئینہ جو چہرہ دیکھنے کے لیے دیوار کے ساتھ آویزاں ہو،وال کلاک،چھے شیشے کے گلاس،،درمیانہ سائز کی پیتل کی گھنٹی،دواچھی سی کرسیاں اور ہندوستان کے مجاہدین آزادی کی تصاویر شامل تھیں۔شام کے ملگجی سائے پھیلنے لگے تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔اس نے وضو بنایا اور نماز مغرب ادا کی ۔برسات کی بھیگی رات تھی جس کی وجہ سے اس پہ غنودگی طاری ہورہی تھی مگر اس کے کمرے میں مچھروں نے اس کے کانوں کے قریب آکر اپنا راگ الاپنا شروع کردیا۔وہ دیر تک اپنے مخملیں وجود پہ یہاں وہاں ہاتھ مارتی رہی کہ اتنے میں غفار چودھری کی بیوی نے اسے کھانا کھانے کو کہا ۔وہ اٹھی اور کھانا کھانے چلی گئی۔کھانا کھانے کے بعد جب وہ غفار چودھری کی آٹھ سالہ پوتی کے ساتھ مکان سے باہر آئی تو اس نے آسمان پہ چمکتے چاند کو دیکھ کے مسرت وروحانی آسودگی محسوس کی ۔تب اس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ روشنی چاند کی ہو یا سورج کی اندھیرے کی دشمن ہوتی ہے ۔اسی طرح جس طرح سچ جھوٹ کا دشمن ہوتا ہے ۔وہ کچھ دیر تک سوچ کے اتھاہ سمندر میں غوطہ زنی کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ دنیا کے تمام مذاہب ،عقیدے،دھرم،فکر وفلسفے ،پیغمبر،رشی منی،صوفی سنتوں کی تعلیم ،تمام علوم وفنون اور دانش گاہوں کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آدمی کو اس دنیا میں انسان بنایا جائے ۔اس میں چھُپے کام،کرودھ،موہ،لوبھ اور اہنکار کو ختم کیاجائے۔پھر جب وہ اپنے کمرے میں آئی تو یہ دیکھ کے حیران رہ گئی کہ بلّی نے چوہے کو اپنے دانتوں تلے دبارکھا ہے اور چوہا اس سے اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا ہے۔ذلفاں بی بی کو دیکھتے ہی بلّی ،چوہے کو لے کر الماری کے پیچھے چلی گئی اور آہستہ آہستہ غرانے لگی۔لمحہ بھر کے بعد بلّی نے چوہے کو اپنے نوکیلے دانتوں کی گرفت سے آزاد کیا۔چوہا زمین پہ سرکنے لگا پھر اس نے بھاگنے کی کوشش کی تو بلّی فوراً اس پہ جھپٹ پڑی۔بلّی چوہے کا یہ کھیل وہ دیر تک دیکھتی رہی۔پھر جب وہ بستر پہ آئی تو چوہے کی دلدوز چیخیں اسے سنائی دیں۔وہ سمجھ گئی کہ ایک جاندار زندگی کا خاتمہ ہوگیا ہے۔معاً اسے اپنی کتابوں کی طرف دھیان گیا ۔وہ بستر سے اٹھی اور لکڑی کی الماری میں ترتیب سے رکھی کتابوں کو اُلٹ پلٹ کر دیکھنے لگی کہ کہیں چوہوں نے انھیں کترنا شروع نہ کیا ہو۔اس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ کتابیں محفوط تھیں۔تب اس کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ بلّی ایک فائدہ مند جانور ہے اور چوہا نقصان دہ۔وہ دوبارہ بستر پہ دراز ہوگئی مگر ماں باپ اور بھائی بہنوں کی یاد نے اسے کروٹیں بدلنے پر مجبور کردیا ۔اسے دل ہی دل میں یہ خوشی ہورہی تھی کہ کل وہ شہر اپنے ماں باپ اور بھائی بہنوں کے پاس چلی جائے گی۔اسی خوشی میں اس کی آنکھوں میں نیند اترآئی اور وہ خوابوں کی دنیا میں چلی گئی۔دوسرے دن وہ صبح جلدی جاگی اور غفار چودھری کی بہو کو ساتھ کے کر باولی پہ نہانے چلی گئی۔نہانے کے بعد اس نے نماز فجر پڑھی ۔اس کے بعد دعائے گنج العرش پڑھنے بیٹھ گئی۔خدا سے کُل عالم میں بسنے والوں کے لیے امن وسلامتی اور ہدایت کی دعا کی۔پھر وہ ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد اسکول کے لیے تیار ہوگئی۔اسکول میں وہ صرف ایک گھنٹہ رہی اور پھر اس نے بھوشن لال کو کہا
’’اچھاسر! میں اب گھر جارہی ہوں۔ایک ہفتے کے بعد آوں گی۔میں نے اسکول آفس کے لیے ضروری چیزوں کی فہرست تیار کی ہے ۔میں وہ تمام چیزیں نیچے سڑک کے کنارے دُکان پہ رکھوں گی اور کسی مزدور کو مزدوری دے کر یہاں پہنچاوں گی‘‘
بھوشن لال نے کہا
’’جائیے میری طرف سے اجازت ہے ‘‘
ذلفاں بی بی جب ڈیرے پہ آئی تو غفار چودھری کی بیوی نے اس کے گھر والوں کے لیے ٹماٹر،بھنڈی،کھیرے اور بینگن ایک تھیلے میںڈال رکھے تھے۔وہ خوش ہوگئی۔پھر جب وہ غفارچودھری اور اس کی بیوی سے رخصت لینے لگی تو غفار چودھری نے کہا
’’بیٹی۔۔ ٹھہرو !میں بھی تمھارے ساتھ چلتا ہوں،تمھیں گاڑی پہ بٹھا آوں‘‘
ذلفاں بی بی غفار چودھری کے ہمراہ اپنے گاوں سے نیچے سڑک پہ آئی۔اس نے اپنا موبائل فون دکان پہ چارجنگ پہ لگایا۔کچھ ہی دیر بعد اسے دور سے شہر جانے والی منی بس نظرآئی۔غفار چودھری نے ہاتھ کے اشارے سے منی بس رکوائی اور ذلفاں بی بی اس پہ سوار ہوگئی۔تین گھنٹے کے بعد وہ اپنے والدین اور بھائی بہنوں کے پاس پہنچ گئی۔اس نے سب سے پہلے ماں کو سلام کیا ،اسے گلے لگایا پھر باپ کے پاس گئی،اس سے دعائیں لیںاپنے بھائی بہنوں کی خیریت معلوم کی ۔خوشی اور اطمیان سے اس کا چہرہ کھل اٹھا۔دوسرے دن جب وہ بازار میں ایک جگہ اپنی سہیلیوں سے ملی توان میں سے ایک نے ہنستے ہوئے کہا
’’کب کی بچھڑی کہاں آکے ملی‘‘
ذلفاں بی بی نے جواب دیا
’’میں روپڑتی ہوں جب گزرا زمانہ یاد آتا ہے‘‘
ذلفاں بی بی کی تینوں سہیلیوں نے ہنستے ہوئے کہا
’’واہ !اری تُو تو شاعرہ بن گئی ہے‘‘
’’شاعری نہیں کررہی ہوں ،سچ کہتی ہوں،وقت اور مسائل حیات انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں۔گردش روز وشب نے ہم سے ہمارا بچپن اور لڑکپن چھین لیا ہے ۔میری سہیلو! جو آج وہ کل نہیں ہوگا‘‘
ذلفاں بی بی کی ایک اور سہیلی نے اسے کہا
’’یار فلاسفی تیرا سبجیکٹ تو رہا نہیں ہے لیکن تیری ہر بات فلسفیانہ ہوتی ہے‘‘
ذلفاں بی بی بولی
’’اچھا چھوڑو یہ باتیں ،آو میں تمھیں گول گفے کھلاتی ہوں۔مجھے گول گفے بہت پسند ہیں۔تمھیں یاد ہوگا کالج گیٹ کے باہریک طرف ہم اکثر کالج سے نکلنے کے بعد گول گفے کھایا کرتی تھیں‘‘
چاروں گول گفے کھانے لگیں ۔گول گفے والے نے مرچ تھوڑی تیز رکھی تھی ۔وہ سُوسُو کرتی رہیں۔پیسے دینے کی باری آئی تو ذلفاں بی بی نے پہل کی پھر وہ اپنی سہیلیوں کو کسی شاعر کا یہ شعر سناتی ہوئی ان سے رخصت ہوئی:
میری زندگی کاحاصل کہ سب کو فیض پہنچے
میں چراغ راہ گزر ہوں مجھے شوق سے جلانا
اس کی سہیلیوں کو شعر بہت پسند آیا تو ان میں سے ایک نے کہاتوان میں سے ایک نے کہا’’بہت خوب۔جیتی رہو‘‘اس نے کہا’’ اچھا اوکے تھینک یُو‘‘اور وہ ان سے رخصت ہوگئی۔
تین دن کے بعد ذلفاں بی بی نے اپنے اسکول آفس کے لیے تیار کردہ تمام ضروری اشیا کی فہرست کے مطابق چیزیں خریدیں۔انھیں بس اڈے کے قریب ایک دکان دار کے پاس رکھا اور گھر چلی گئی۔گھر پہنچ کر اس نے دوپہر کا کھانا کھایا ۔اپنے بھائی اور بہنوں کی پڑھائی کے بارے میں جانکاری حاصل کی ۔انھیں محنت سے کام کرنے کی نصیحت کی اور اس کے بعد اپنے پہننے کے کپڑے ،ٹوتھ پیسٹ،غازہ ،کریم،نہانے اور کپڑے دھونے والا صابن اور آملے کا تیل ایک بیگ میں ڈالا ۔تیسرے دن اسے واپس گاوں میں اپنی ڈیوٹی پہ جانا تھا ۔اس نے ماں کو گھر کا کوئی بھی کام کرنے نہیں دیا۔اس نے کہا
’’امّاں! آپ آرام کیجیے ،میں گھر کے سبھی کام خود کروں گی؟ابھی میں دودن گھر پر ہی ہوںکسی بھی چیز کی فکر نہ کیجیے گا‘‘
ماں کی زبان سے بے ساختہ یہ دعا نکل گئی’’جیتی رہو میری بیٹی!سداخوش رہو ۔اللہ تمھیں تندرستی اور لمبی عمر بخشے!‘‘
ذلفاں بی بی نے ماں باپ اوربھائی بہنوں کے میلے کپڑے واشنگ مشین میں ڈالے۔کچھ وقت کے بعد انھیں مشین سے نکال کے دھوپ میں سکھانے کے لیے ڈال دیا۔گھر آنگن میں پڑی ہر چیز کو صاف ستھرے طورپر ترتیب دیا ۔شام کا کھانا تیار کیا اور اس کے بعد گھر کے لان میں اپنی چھوٹی بہن عاقلہ کے ساتھ بیڈ منٹن کھیلنے لگی۔کچھ دیر تک وہ اپنی بہن کے ساتھ کھیلتی رہی پھر اچانک اس کے کانوں میں شہر کی جامع مسجد سے نماز مغرب کی اذان گونجی تو اس نے کھیلنا بند کردیا اور اپنی بہن کو نماز پڑھنے کو کہا۔رات کو کھانا کھانے کے بعد اس نے ماں اور باپ کے سر میں تیل لگایا خوب مالش کی اور اس کے بعد نماز عشا پڑھ کے سو گئی۔
دودن کے بعد ذلفاں بی بی گاوں میں اپنی ڈیوٹی پہ چلی گئی۔اس نے اسکول آفس کا سامان سڑک کے کنارے ایک دکان پہ منی بس سے اتار کے رکھا۔دکاندار نے اس کے ساتھ ایک مزدور سامان لے کر بھیجا ۔تقریباً ایک گھنٹے کے بعد وہ مزدور کے ساتھ اپنے آبائی گاوں پہنچ گئی۔اس نے اسکول کھلوایا اور سارا سامان اسکول آفس میں رکھوایا۔مزدور کو مزدوری دی اور اپنے ڈیرے پہ چلی آئی۔سفر کی تھکان کی وجہ سے اسے اپنے آپ میں درد کی ٹیسیں ابھرتی محسوس ہوئیں۔اس نے غفار چودھری اور ان کے اہل خانہ کی خیریت معلوم کی ۔اپنے بیگ سے ان کی پوتی کے لئے جھنجھنانکال کر اسے پکڑایا وہ بڑی خوش ہوئی اوراس سے کھیلنے لگی۔رات کو کھانا کھانے کے بعد ذلفاں بی بی سو گئی ۔صبح وہ کوئل کی کُوک اور پپیہے کی چہک سن کے بیدار ہوئی۔وہ اٹھی ،چائے ناشتے سے فارغ ہوئی اور اسکول چلی گئی۔اسکول میں اس نے بھنگن کو بلوایا،اسکول آفس اور تمام چیزوں کی صفائی کروائی،پھر ان تمام چیزوں کو ترتیب سے اسکول آفس میں رکھا جو وہ شہر سے خرید لائی تھی ۔آخر میں جب اس نے بچّوں سے پیتل کی گھنٹی بجوائی تو اس کی باز گشت کانوں میں رس گھولنے لگی۔گھنٹی کی آواز سن کر اسکول کے گرد ونواح کے لوگ گھروں سے باہر نکل آئے ۔ان کی نگاہیں اسکول پہ مرکوز ہوگئیں۔اسی دوران بھوشن لال اسکول پہنچ گیا ۔اس نے جونہی اسکول آفس میں قدم رکھا تو ہر چیز کو سلیقے سے رکھا ہوا پاکر خوش ہوگیا ۔ذلفاں بی بی نے آداب بجالاتے ہوئے اس سے پوچھا
’’سر! اب آپ کو اسکول آفس کیسا لگ رہا ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا ’’بہت اچھا لگ رہا ہے،آپ نے کوئی کسر نہیں رکھی ہے‘‘
پرا رتھنا کے بعد جب سبھی بچّے اپنی اپنی کلاسوں میں چلے گئے تو بھوشن لال نے ذلفاں بی بی کو آفس میں بلایا اورکہنے لگا
’’میں نے آپ کو چاردن کی ڈیوٹی پہ رکھا ہے اور تین دن خالی رکھے ہیں۔اس لیے آپ ان تین دنوں کے دستخط کرلیجیے‘‘
ذلفاں بی بی نے دستخط کرنے سے انکار کردیا وہ کہنے لگی
’’سر! آپ میری ان تین دنوں کی چھٹی لگا دیجیے ۔میرا ضمیر نہیں مانتا ہے کہ میں دستخط کروں اوریوں بھی جب میں یہاں نہیں تھی تو اس کے باوجود میں دستخط کروں یہ تو گناہ ہے‘‘
بھوشن لال حیرت سے اس کا چہرہ تکنے لگاپھر بولا
’’ذلفاں بی بی !آپ ان تین دنوں کے دستخط کرلیجیے۔یہاں کون دیکھ رہا ہے‘‘
ذلفاں بی بی نے جواب دیا
’’سر وہ نیلی چھتری والا تو دیکھ رہا ہے‘‘اس نے شہادت کی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا ۔بھوشن لال نے مجبور ہوکر ٹیچر حاضری رجسٹر پہ ذلفاں بی بی کی تین دنوں کی چھٹی لکھ دی۔وہ اُٹھی اور پانچویں کلاس میں پڑھانے چلی گئی۔اس نے بلیک بورڈ پہ بچّوں کو حساب سمجھایا ،پھر انگریزی اور سائنس پڑھائی۔ان کی کاپیاں چیک کیں،صحیح پڑھنا لکھنا اور بولنا سکھایا ۔آدھی چھٹی کے بعد جب وہ چوتھی جماعت کے بچّوں کو پڑھانے گئی تو کرسی پہ بیٹھتے ہی اس کے پاس ایک بچّہ روتا ہوا آیا اور دوسرے بچّے کی شکایت کرنے لگا
’’میڈم جی! اُس نے مجھے تھپڑ مارا‘‘
دوسرے نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا
’’میڈم جی ! اس نے مجھے گالی دی‘‘
ذلفاں بی بی نے دونوں کو سمجھایا اور واپس اپنی جگہ بھیج دیا۔بچّوں کے شور اور ان کی طرح طرح کی شکائتیں سن کر کبھی کبھی وہ جھنجھلاہٹ میں آکر ان کے کان مروڑتی اور جب بچّے پوری توجہ سے اس کی باتیں سنتے تو وہ خوشی محسوس کرتی۔بچّوں کی نفسیات کا خیال رکھتے ہوئے انھیں نصیحت آمیز چھوٹی چھوٹی کہانیاں سناتی،بچّے کبھی تو ہنستے اور کبھی حیران رہ جاتے۔
ذلفاں بی بی کواپنے آبائی گاوں میں رہبر تعلیم ٹیچرکی حیثیت کام کرتے اب تقریباً تین ماہ کا عرصہ ہوچکا تھا۔ماہانہ پروگریس رپورٹ کے لیے اسے سرپنچ اور پنچوں کے دستخط کروانے پڑتے جس کے لیے اسے کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔پھر جب اسے رہبر تعلیم ٹیچرس فورم نے بلاک صدر کی ذمہ داری سونپی تو اس کا حوصلہ بڑھا ۔اس نے ضلع کی سطح پر بہت سی میٹنگوں میں شرکت کرکے پُر جوش تقریریں کیں۔ایک سال کے بعد جب ٹیچرس فورم نے حکومت کے سامنے اپنی تنخواہ میں اضافے کی مانگ کے لیے آواز بلند کی اور مانگ پوری نہ ہونے کی صورت میں یہ فیصلہ کیا کہ تمام رہبر تعلیم ٹیچرس یک روزہ احتجاجی ریلی میں شامل ہوکر سیکریٹر یٹ کا گھیراو کریں گے تو ذلفاں بی بی بھی بامر مجبوری اس ریلی میں شامل ہوگئی۔پورے جوش وولولے اور نعرے بازی کے ساتھ وہ اپنے ساتھیوں کی قیادت میں آگے بڑھ رہی تھی کہ سیکریٹریٹ سے پہلے ہی چند گز کے فاصلے پر مردانہ اور زنانہ پولیس نے اس احتجاجی ریلی کوروک لیا۔ذلفاں بی بی نے ہلّہ بول دیا اور تمام ٹیچرس نے بیک وقت آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن پولیس نے لاٹھی چارج شروع کردیا۔کئی ٹیچر س زخمی ہوگئے ۔کئی ادھر ادھر بھاگ گئے ۔ذلفاں بی بی پہ بھی ایک پولیس والی عورت نے اس کی ٹانگوں پہ بانس کے ڈنڈے سے وار کیا ۔وہ بلبلاکر ایک طرف گر پڑی۔تب اسے یہ احساس ہوا کہ کسی منزل مقصود کو پانے کی خاطر آدمی کو بہت کچھ کھونا پڑتا ہے ۔وہ سارا احتجاجی جلوس پولیس کے لاٹھی چارج سے تتر بتر ہوگیا ۔وہ آہستہ آہستہ کھڑی ہوگئی اور اپنے گھر چلی آئی ۔اس نے اپنے گھر والوں سے اس بات کا ذکر نہیں کیا ۔دودن گھر پہ رہنے کے بعد جب وہ ڈیوٹی پہ چلی گئی تو اسے معلوم ہوا کہ غفار چودھری کا چھوٹا بیٹا نصیر دوماہ کی چھٹی لے کر گھر آیا ہے۔ذلفاں بی بی کی اس پہ نظر پڑی تو اسے نصیر کی نہ تو شکل وصورت اچھی لگی اور نہ چال چلن۔وہ گھر سے باہر ایک جگہ سگریٹ کے کش لے کر دھوئیں کے مرغولے ہوا میں چھوڑرہا تھا۔ذلفاں بی بی اس سے نظریں چرانے اور دور دور رہنے کی کوشش کرتی مگر وہ ہربار اس کے سامنے آکر باتیں کرنے کی کوشش کرتا ۔ایک روز ذلفاں بی بی بن سنور کے اپنی ڈیوٹی پہ جارہی تھی کہ اچانک نصیر اس کی راہ میں حائل ہوگیا اور کہنے لگا
’’ہم ترستے ہیں تم سے باتیں کرنے کے لیے اور تُم نے ہم سے باتیں تو دور نگاہیں تک چرانے کی قسم کھا رکھی ہے‘‘ذلفاں بی بی ،نصیر کی باتیں سن کر حواس باختہ ہوگئی ۔شرم وحیا سے اس کا چہرہ عرق آلود ہوگیا ۔اس نے نصیر کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا ،ہمت کرکے صرف اتنا کہا
’’میرے راستے سے ہٹ جائیے۔میں اسکول کے لیے لیٹ ہورہی ہوں‘‘
نصیر راستے سے ہٹ گیا اور ذلفاں بی بی آگے بڑھی ،اسے نصیر سے شراب کی بُو آنے لگی۔دیکھتے دیکھتے اس نے اپنی رفتار تیز کردی ۔اسکول میں وہ سارا دن مایوس رہی،نصیر کی باتوں پر اسے اندر ہی اندر غصّہ آرہا تھا ،پھر اس نے یہ مصمم ارادہ کیا کہ وہ غفار چودھری کے گھر سے اپنا ڈیرہ اُٹھا لے گی۔ایک رات کہیں سے گاوں میں چترا ٓگیا ۔اس نے غفار چودھری کے بھائی کی چار بھیڑیں ماردیں۔دوسرے دن سارا گاوں چترے کی خبر سن کر سہم گیا۔ذلفاں بی بی بھی نہایت پریشان ہوگئی۔غفار چودھری کے گھر سے اس کے اسکول تک پہنچنے میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگ جاتا تھا اور وہ بھی جنگلی راستے سے گزرنا پڑتا تھا ۔پندرہ دن کے بعد ذلفاں بی بی نے اسکول کے ساتھ ہی ترلوچن سنگھ کے گھر میں کمرہ کرائے پر لیا ۔جس روز اس نے غفار چودھری کے مکان سے اپنا سامان مزدور سے اٹھوایا تو غفار چودھری دنگ رہ گئے ۔انھوں نے حیرت آمیز لہجے میں اس سے پوچھا
’’بیٹی! یہ تُم کیا کررہی ہو!یہاں کیا تمھیں کوئی تکلیف پہنچی یا کسی نے کچھ کہا،آخر کیا بات ہے؟‘‘
ذلفاں بی بی نے جواب دیا
’’نہیں چّچا۔۔!کسی نے مجھے کچھ بھی نہیں کہابلکہ آپ سب نے مجھے بہت آرام سے رکھا لیکن کیا کروںمجبوراًیہاں سے جانا پڑرہا ہے کیونکہ چترا گاوں میں آگیا ہے اور اب یہاں سے اکیلی اسکول نہیں جاسکتی ہوں۔مجھے چترے سے ڈر لگے ہے‘‘
غفار چودھری کے منع کرنے کے باوجود ذلفاں بی بی ان کے گھر سے چلی گئی۔ترلوچن سنگھ کو اس نے اپنا بھائی بنالیا تھا ۔وہ نہایت دیانتدار، غیرت مند اور بے باک تھا۔اس نے ذلفاں بی بی کو یقین دلایا کہ وہ اسے اپنی سگی بہن کی طرح اپنے گھر میں رکھے گا ۔وہ اپنے لیے خود کھانا پکاتی لیکن ترلوچن سنگھ نے اس سے مہینہ پورا ہونے پر کرایہ نہیں لیا ۔ترلوچن سنگھ کی دو بیٹیاں تھیں ،بیٹا نہیں تھا۔بڑی بیٹی دوسری جماعت میں پڑھتی تھی،ذلفاں بی بی اسے صبح شام پڑھاتی۔غریب گھرانوں سے آئے ہوئے بچّوں کی اس نے ایک فہرست تیار کی اور انھیں اسکول کے غریب فنڈ سے بُوٹ اور گرم سوئٹر خرید کردیے۔علاوہ اذیں ان بچّوں کی بھی ایک فہرست بنائی تھی جو بغیر نہائے دھوئے اسکول آتے تھے۔اسکول سے تھوڑی دوری پر پانی کی ایک باولی پہ ہفتے میں ایک دن ان بچّوں کو اسکول سے صابن اور سرسوں کا تیل دے کے نہانے کے لیے بھیجا جاتا ۔اس طرح ذلفاں بی بی کی یہ حتی الوسع کوشش رہتی کہ ان کے اسکول کے بچّے نہ صرف پڑھائی میں اوّل نمبر پر رہیں بلکہ صحت ،صفائی،تہذیب وشائستگی اور نظم وضبط میں بھی آگے رہیں۔ذلفاں بی بی اس دن بہت خوش ہوئی تھی جس دن اسے یہ معلوم ہوا تھا کہ اس کے ہاتھوں لکھی گئی وزرا کے نام درخو استوں میں سے بجلی اور پانی کے وزیر نے منظوری دے دی ہے اور چند دنوں کے اندر اس کے آبائی گاوں میں بجلی کے کھمبے لگیں گے اور واٹر سپلائی اسکیم والا عملہ بھی بہت جلد پانی کی پائپیں بچھانے آرہا ہے ۔ایک سال کے اندر پورے گاوں میں بجلی کے کھمبے اور پانی کے لیے لوہے کی پائپیں بچھادی گئیں ۔د وسرے سال پردھان منتری گرام سڑک یوجنا کے تحت ذلفاں بی بی کے گاوں میں بھی سڑک کو منظوری مل گئی۔
ذلفاں بی بی کو اب اپنے آبائی گاوں کے پرائمری اسکول میں کام کرتے دوسال کا عرصہ ہوچکا تھا۔اس نے بچّوں کو بہتر تعلیم وتربیت میں کوئی بھی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا تھا۔بچّے صحیح لکھنا ،پڑھنا اور بولنا سیکھ گئے تھے۔ایک روز اس نے بھوشن لال کو کہا
’’سر ! آپ کل اسکول کمیٹی ممبران کو اسکول میں بلوایئے۔میں اپنی ماہانہ پروگریس رپورٹوں پہ ان کے دستخط کروانا چاہتی ہوںتاکہ میری تنخواہ نکل سکے‘‘
بھوشن لال نے کہا
’’ٹھیک ہے میں کل کے لیے انھیں اسکول میں بلواتا ہوں‘‘
دوسرے دن سرپنچ اور اسکول کمیٹی ممبران میں سے صرف تین اسکول پہنچ گئے۔فقیر چند نام کا ممبر کسی وجہ سے نہیں پہنچ پایاتھا۔سب نے دستخط کیے اور ذلفاں بی بی اور بھوشن لال کو بجلی ،پانی اور سڑک کی منظور شدہ درخواستوں کے لیے مبارک باد دی ،پھر جب وہ ایک دن خود اپنے اسکول کے بچّے کو ساتھ لے کر فقیر چند کے گھر دستخط کروانے گئی تو فقیر چند شراب پی بیٹھا تھا ۔اس نے خمار آلود آنکھوں سے پہلے تو ذلفاں بی بی کے گل اندام پہ نظر دوڑائی،پھر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس کی پروگریس رپورٹوں پہ دستخط کیے۔ذلفاں بی بی کے ذہن ودل کے کسی گوشے سے یہ آواز ابھری کہ اس کے آبائی گاوں میں ایک نہیں کئی راون موجود ہیں۔
ایک روز ذلفاں بی بی گاوں سے شہر اپنے والدین کے پاس جارہی تھی ۔وہ اکیلی جنگل کے راستے سے گزررہی تھی کہ اچانک اسے ڈھول باجے کی آواز سنائی دی ۔یہ اس کے اپنے گاوں کی برات کسی دوسرے گاوں کی طرف جارہی تھی ۔دلہا گھوڑے پہ سوار تھا اور براتی ادھم مچاتے ہوئے جارہے تھے ۔کچھ اوباش قسم کے نوجوان ڈھول بجانے والوں کے ساتھ آگے آگے ناچ رہے تھے ۔یوں معلوم ہورہا تھا کہ یہ نو جوان حال ہی میں جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھ چکے ہیںذلفاں بی بی ڈری سہمی ،شرماتی ،لجاتی آہستہ سے راستے سے پرے ہٹ کے ان ہّلڑ بازی مچانے والے لڑکوں کی نظروں سے دور آگے نکل گئی تو ان اوباش لڑکوں میں سے ایک نے پیچھے سے اس پہ فقرہ کسا ’’اوسونیئے مار سُٹیا ‘‘اور زور سے سیٹی بجائی۔دوسرے نے کہا’’اوئے کالجہ کڈکے لے گئی‘‘پھر ان چاروں نے پے در پے سیٹیاں بجانا شروع کردیں۔ذلفاں بی بی نے اترائی کی طرف تیزی سے قدم بڑھائے ۔وہ ان شیطانوں سے بچنے کے لیے اپنے مالک حقیقی سے دل ہی دل میں دعا کرنے لگی۔اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔جب وہ نیچے سڑک پر پہنچی اور منی بس میں سوار ہوئی تو اسے اطمینان قلب نصیب ہوا۔گھر پہنچ کر اسے دیکھ والدین اور بھائی بہن بہت خوش ہوئے۔ماں بولی
’’بیٹی!تجھ پہ واری جاوں !آج ہی رات کو خواب میں آئی تھی‘‘دونوں ماں،بیٹی ایک دوسرے سے بغلگیر ہوئیں۔امان اللہ نے پوچھا
’’بیٹی کیسی ہو خوش رہی نا؟‘‘
ذلفاں بی بی نے کہا’’ہاں پاپا خدا کے فضل سے ابھی تک تو خوش وخرم ہوں۔بس آپ والدین کی نیک دعاوں کی مجھے اشد ضرورت ہے ‘‘
رات کو جب سب کھانا کھا رہے تھے تو امان اللہ نے ذلفاں بی بی کو کہا
’’بیٹی! کے اے ایس کے لیے فارم بھرے جارہے ہیں ،تُم بھی فارم بھر لو‘‘
ذلفاں بی بی متعجب ہوکر بولی
’’پاپا! کے اے ایس کرنا کوئی بچّوں کا کھیل تھوڑی ہے ۔میں کے اے ایس نہیں کرپاوں گی‘‘
امان اللہ نے تسلّی دیتے ہوئے کہا
’’سنو بیٹی!تُم اگر محنت کرو گی تو ہر حال میں کے اے ایس کا امتحان پاس کرلو گی،بشرطیکہ تم محنت کرو اور پھر میری یہ بات بھی یاد رکھو کہ ہر نیادن آدمی کے لیے اچھا یا بُرا مقّدر لے کر آتا ہے‘‘
باپ کے اصرار پر ذلفاں بی بی نے کے اے ایس کا فارم بھردیا ۔اس نے کے اے ایس سے متعلق تمام کتابیں خریدیں۔انھیں دن رات پڑھتی رہی ۔اسکول میں ڈیوٹی دینے کے بعد وہ رات کو دیر تک پڑھتی رہتی۔البتہ کچھ دن سے اس کے بستر میں پسووں کے دخول سے اسے بڑی بے آرامی ہورہی تھی۔وہ جونہی سوتی تو اسے اپنے مخملیں وجود پہ سرسراہٹ سی محسوس ہوتی ،پھر جس دن اس نے پورے کمرے میں کیڑے مار دوائی کا چھڑکاو کیا تو اس رات اسے کسی حد تک آرام کی نیند پڑی۔صبح جب اس کی آنکھیں کھلیں تو دھوپ آنگن میں اتر آئی تھی ۔اسے اپنی نماز فجر کے قضا ہوجانے کا احساس ہوا۔وہ اُٹھی اور چائے ناشتہ تیار کرنے میں لگ گئی ۔اس کے بعد اسکول چلی گئی ۔اسکول میں حسب معمول اس نے پرارتھنا کے بعد بچّوں کی صحت ،صفائی اور ان کی وردی کے علاوہ وقت کی پابندی پر خصوصی لیکچر دیا ۔اس کے بعد جب بچّے اپنی اپنی کلاسوں میں پڑھانے چلے گئے تو اس نے حاضری رجسٹر اٹھایا اور پانچویں کلاس میں پڑھانے چلی گئی ۔کلاس میں ایک لڑکے کے ماتھے سے خون بہہ رہا تھا ۔وہ زور زور سے رورہا تھا ۔ذلفاں بی بی اسے دیکھ کر گھبرا گئی ۔اس لڑکے کو چیت رام نمبردار کے لڑکے نے کلاس میں آتے وقت زور سے دھکا مارا تھا جس کی وجہ سے وہ دیوار کے ساتھ ٹکرا گیا تھا ۔زخمی لڑکے کو مرہم پٹی کرنے کے لیے اسکول آفس میں لے جایا گیا ۔نمبردار کے لڑکے کو ذلفاں بی بی نے اپنے قریب بلایا ،اسے پوچھ تاچھ کرنے کے بعد قصور وار پایا اور اسے خوب پیٹا ۔لڑکے نے زور زور سے رونا شروع کیا اور پھر اپنا بستہ اٹھا کر گھر بھاگ گیا۔گھر میں ماں باپ سے ذلفاں بی بی کی شکایت کی ۔اپنی سُرین پہ پڑے ڈنڈے کا نشان انھیں دکھایا ۔اس کے ماں باپ آگ بگولہ ہوگئے ۔چیت رام اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر اسکول پہنچا اور بھوشن لال کے سامنے آکر کہنے لگا
’’یہ اسکول ہے یا پولیس تھانہ؟ میرے اس بیٹے کو دیکھئے ،میڈم نے کتنی بے دردی سے اسے پیٹا ہے ‘‘نمبردار نے اپنے بیٹے کی سُرین پہ پڑا ڈنڈے کا نشان بھوشن لال کو دکھا یا اور کہنے لگا
’’آپ میڈم کو یہاں میرے سامنے بُلایئے ۔یہ میڈم اپنے آپ کو کیا سمجھتی ہے ۔ہم نے بچّے اسکول پڑھانے کے لیے بھیجے ہیں ،مروانے کے لیے نہیں ‘‘
بھوشن لال نے ذلفاں بی بی کو اسکول آفس میں بلوایا ۔وہ آئی اور نمبردار نے اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
’’میڈم ! آپ نے میرے اس بیٹے کو بڑی بے دردی سے پیٹا ہے ۔بچّے شرارتیں کرتے رہتے ہیں،پھر کیا ہوا تھا ۔آپ کی یہ وحشیانہ حرکت آپ کو نقصان پہنچائے گی‘‘
ذلفاں بی بی نے جواب دیا
’’نمبردار صاحب ،آپ کا بیٹا بہت زیادہ شرارتی ہے۔اس نے ایک لڑکے کو لہو لہان کردیا تھا۔آپ بھی اپنے بیٹے کو سمجھایئے کہ اسکول میں شرارتیں نہ کرے‘‘
نمبردار نے کہا
’’میڈ م! آپ ابھی نئی نئی ہیں۔آپ کو معلوم نہیں کہ قانونی طور پر ایک ٹیچر بچّوں کو مار پیٹ نہیں سکتا ۔اس لیے بچّوں کو مارنے پیٹنے سے باز آجائیے،ورنہ بہت بُرا ہوگا‘‘
بھوشن لال نے منت سماجت کرکے معاملے کو رفع دفع کردیا ۔ذلفاں بی بی چیت رام نمبردار کے ناشائستہ رویّے پہ کافی شرم سار ہوئی۔اس نے صبر وتحمل کا دامن تھامے رکھا۔وہ اپنے معمولات کے مطابق کام کرتی رہی۔چیت رام نمبردار نے خفیہ طور پر ذلفاں بی بی کو پریشان کرنا شروع کردیا ۔وہ اس کے خلاف چیف ایجوکیشن دفتر میں جاکر شکائتیں کرتا کہ میڈم اسکول سے غیر حاضر رہتی ہے ۔کبھی یہ شکایت کرتا کہ وہ ٹیچرس فورم کی میٹنگیں کرتی رہتی ہے۔غرضیکہ اس نے ذلفاں بی بی کو ہر طرح سے پریشان کرنے میں پورا زور صرف کردیا۔ذلفاں بی بی کے خلاف کبھی زونل ایجو کیشن آفیسراور کبھی چیف ایجوکیشن آفیسر انکوئری کی نوٹس جاری کرتا۔
ذلفاں بی بی ،اس دن بہت خوش ہوئی تھی جس دن اس نے کے اے ایس کا پہلا امتحان پاس کیا تھا اور بعد میں جب اس نے دوسرا امتحان بھی پاس کرلیا تو اس کی نگاہیں بے ساختہ طور پر خدا کا شکر بجالانے کے لیے آسمان کی جانب اُٹھ گئی تھیں ۔اب بحیثیت رہبر تعلیم اس کے پانچ سال پورے ہونے میں کُل دو ماہ باقی رہ گئے تھے۔انہی دو مہینوں کے دوران اس نے کے اے ایس کا انٹرویو بھی دے دیا ۔دو مہینے کے بعد جب اخبار میں اس نے کے اے ایس کے کامیاب امیدواروں کی لسٹ میں اپنا نام پڑھا تو وہ مبہوت ہوکر رہ گئی۔اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ واقعی کے اے ایس کرچکی ہے۔اس کے والدین،بھائی،بہنیں،اس کے خاندان والے اور اس کی سہیلیلوں نے اس کی کامیابی پر بہت زیادہ خوشی منائی تھی۔ادھر ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن نے بھی اُن رہبر تعلیم ٹیچروں کی لسٹ اخبار میں شائع کرادی تھی جن کے پانچ سال مکمل ہوچکے تھے۔ان میں ذلفاں بی بی کانام بھی سرفہرست تھا ،پھر جس دن وہ اپنے آبائی گاوں کے پرائمری اسکول سے رخصت ہوئی تو گاوں کے سرپنچ،پنچ،اسکول کمیٹی ممبران ،ترلوچن سنگھ،غفار چودھری اور ان کے اہل خانہ اسکول میں آئے ۔سب سے پہلے بھوشن لال سینئر ٹیچر نے ذلفاں بی بی کو مبارک باد دیتے ہوئے اسے ایک ذہین ،محنتی اور خوش نصیب لڑکی قرار دیا ۔اس کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالاپھر غفار چودھری اور ترلوچن سنگھ نے بھی پھول مالائیں پہنائیں۔جب یہ سبھی لوگ ذلفاں بی بی کو رخصت کرنے لگے تو چیت رام نمبردار بھی کہیں سے آگیا۔اس نے آتے ہی ذلفاں بی بی کے پیر چھُو لیے اور کہنے لگا
’’میڈم! بھگوان کے لیے مجھے معاف کردیجیے ،آپ تو دیو ی کا روپ ہیں ۔میں مورکھ آپ کو پہلے پہچان نہیں پایا تھا۔چیت رام نمبردار کی آنکھیں احساس ندامت سے اشکبار تھیں اور ادھر ذلفاں بی بی کی آنکھوں میں بھی خوشی کے آنسولرزاں تھے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا