شمیم طارق سے اعظم شاہد کی بات چیت
نقاد ، محقق، شاعر اور کالم نگار کی حیثیت سے شمیم طارق کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے۔ ان کے علمی ادبی تحقیقی مقالات موضوع کے اعتبار سے بھی متوجہ کرتے ہیں اور خوبصورت اسلوب نگارش کی وجہ سے بھی۔ان کے اخباری مضامین بھی دوسروں کے مضامین سے قطعی الگ ہوتے ہیں۔قارئین بھی انھیں پسند کرتے ہیں۔ حال ہی میں ان کی بیسویں تصنیف ’’تاثر اور تجزیہ‘‘منظر عام پر آئی ہے۔ اس میں ادبی تنقید، تحقیق، تصوف، تعلیم، تاریخ، ڈرامہ، ادب اطفال اور ثقافت کے ضمنی عنوانات کے تحت کل اٹھائیس مقالات شامل ہیں۔ اس سے پہلے مقالات کا جو مجموعہ ’’تقابل اور تناظر‘‘کے نام سے شائع ہوا تھا اس میں لسانیات اور معاشیات کے موضوعات پر بھی مقالات شامل تھے۔ کسی خاص موضوع پر لکھی ہوئی ان کی کتابوں یعنی یک موضوعی کتابوں کی تعداد تو دیڑھ درجن کے قریب ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شمیم طارق کے مقالات اور تصانیف کے موضوعات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس کے لیے انھیں کافی پڑھنا پڑھتا ہوگا۔’’تاثر اور تجزیہ‘‘ کی پشت پرفارسی اور اردو کے عالم و محقق پروفیسر شریف حسین قاسمی نے بہت صحیح لکھا ہے کہ ’’آپ کی تصانیف پر نظر ڈالیے تو معاً احساس ہوتا ہے کہ ایک شخص جو کامرس کا طالب علم رہا وہ ادبی تحقیق و تنقید ، تصوف، بھگتی، ثقافتی اور لسانی موضوعات پر اردو میں نہایت اعتماد، صراحت اور منطقی استدلال اور سروکار سے اس قدر شگفتہ اسلوب میں اپنے خیالات کا اظہار کرسکتا ہے۔ اسے مصنف کے وسیع مطالعے، اپنی تہذیب سے گہرے تعلق خاطر اور عطیۂ خدا وندی کا ثمرہ ہی کہا جانا چاہیے۔ متنوع موضوعات پر آپ کی اہم تصانیف راقم کو ہماری ایک علمی و ادبی روایت کی یاد دلاتی ہیں۔ بڑی تعداد ہے اردو خاص طور پر فارسی میں کہ ہمارے فضلا نے بیک وقت گوناگوں موضوعات پر اس قدر اعلیٰ معیار کی تصانیف یاد گار چھوڑی ہیں کہ یہ امتیاز کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ ان کا موضوع خاص کیا تھا۔۔۔ـ‘‘
یہ نئی کتاب یا مجموعۂ مضامین میرے زیر مطالعہ تھا کہ شمیم طارق سے ملاقات ہوگئی۔ اس ملاقات میں ان سے بعض اہم موضوعات پر گفتگو بھی ہوئی۔اس گفتگو کو میں نے بیشتر ان سوالات تک محدود رکھا ہے جو اگرچہ ان کی ذات یا ذاتی کارناموںسے تعلق رکھتے ہیں مگر ان کا تعلق اردو کے عام قارئین سے بھی ہے۔ گفتگو کے دوران انھوں نے کئی ایسی باتیں کہیں جن میں ہمارے لیے بڑا سبق ہے۔ میں اس گفتگو کو ’’لازوال‘‘ کے قارئین کی نذر کررہا ہوں۔
اعظم شاہد: ادبی مباحث اکثر تنازع کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ کیا کبھی آپ کے ساتھ ایسا ہوا ؟
شمیم طارق: نہیں میں تنازع پیدا کرنے کا قائل ہوں نہ تنازعہ کھڑا کرنے کے لیے لکھی ہوئی تحریروں کا جواب دینا پسند کرتا ہوں۔ علمی ادبی اختلافات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہوں اور جہاں ضرورت محسوس ہو علمی اور ادبی اختلاف کا جواب بھی ضرور دیتا ہوں۔تین مواقع پر میں نے جواب دینے کی ضرورت محسوس کی۔
پہلی مرتبہ ۲۰۰۲ء میں جب میں نے ’’غالب اور ہماری تحریک آزادی‘‘ کا مسودہ ماہر غالبیات کالی داس گپتا رضا کو دیا اور درخواست کی کہ وہ اس پر مقدمہ لکھیں تو وہ ناراض ہوگئے کہ بعض جگہ میں نے ان سے اختلاف کیا تھا اور پھر شاید یہ بھی ان کے ذہن میں رہا ہو کہ غالب پر جو کام ہونا چاہیے تھا وہ ہوچکا ہے اب ماہر غالبیات کالی داس گپتا رضا پر ہونا چاہیے۔ مگر چونکہ وہ اعلیٰ ظرف انسان تھے انھیں جلد ہی احساس ہوگیا کہ میں نے ادب ملحوظ رکھتے ہوئے دلائل کی بنیاد پر ان سے اختلاف کیا ہے۔ لہٰذا مسودہ پانے کے دو ماہ بعد انھوں نے مقدمہ بھی لکھا اور یہ اعتراف بھی کیا کہ ’’مجھے خوشی ہے کہ جناب شمیم طارق کو تحقیق کے آداب کے ساتھ اختلاف رائے کا سلیقہ بھی آتا ہے۔ انھوںنے اپنے موقف کی تائید میں جو دلائل دیے ہیں وہ میری تشفی کے لیے کافی ہیں۔‘‘
اس کے علاوہ بھی گپتا رضا صاحب نے میری مذکورہ کتاب کے مقدمے میں بہت کچھ لکھا ہے جس سے میرے اعتماد میں اضافہ ہوا۔ کتاب منظر عام پر آئی تو بیشتر ماہرین غالبیات مثلاً پروفیسر نثار احمد فاروقی، پروفیسر گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر خلیق انجم، ڈاکٹر شمس بدایونی، ڈاکٹر سید عبدالباری اور ناقدین مثلاً پروفیسر وارث علوی، پروفیسر وہاب اشرفی وغیرہ نے کتاب کی پذیرائی کی۔ پروفیسر حنیف احمد نقوی نے ماہ و سال کے بارے میں کچھ تصحیح کی۔ مختصر یہ کہ ادبی حلقے میں اس کتاب کی پذیرائی ہوئی۔ ہاں اس کے پہلے باب ’’غالب اور عہد غالب‘‘ میں مولانا فضل حق خیر آبادی کے بارے میں لکھے گئے چند جملوں پر کچھ لوگوں نے اپنے اپنے ذہنی تحفظات کا اظہار کیا یا مسلکی جھگڑا پیدا کرنے کی کوشش کی۔ خاص طور سے دو مسلک کے لوگوں نے مناظرہ کا انداز اختیار کیا۔ ایک خاص مسلک کے لوگوں کی لکھی ہوئی تین کتابوں اور کچھ مضامین میں میرے لیے ناشائستہ الفاظ بھی لکھے گئے۔ میں نے ایک مختصر خط میں ایسا کرنے والوںکو یاد دہانی کرنے پر اکتفا کیا کہ
’’ان کے جملوں اور عبارتوں سے ثابت ہے کہ ان کی نظر میں
٭علامہ فضل حق کی زندگی میں ایک سیاہ ورق بھی ہے۔
٭انھوں نے خلاف واقعہ بیان دے کر یعنی جھوٹ بول کر رہائی کی ناکام کوشش کی اور
٭وہ کبھی صاحب سیف رہے ہی نہیں
تاریخ تیسری بات کو تسلیم اور پہلی دو باتوں کو رد کرتی ہے… ‘‘اس کے بعد یہ لوگ اور زیادہ شرپسندی پر اتر آئے مگر انھیں اور دوسروں کو احساس ہوگیا کہ انھوں نے شمیم طارق کو معتوب کرنے کی کوشش میں علامہ فضل حق خیر آبادی کو ہی معتوب قراردے دیا ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ’’بخشو بی بلی، چوہا لنڈورا ہی بھلا‘‘ تو ان واعظین کی تحریروں کو پڑھ کر مولانا فضل حق خیر آبادی کی روح کو بھی یہی کہنا پڑا ہوگا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جس کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسی کوخطاکار اور مجرم قرار دے دیتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ تنازعہ نہیں تھا۔ بے بصری اور بے خبری کے ساتھ ڈھٹائی کا معاملہ تھا جس کا میں نے جواب دے دیا۔
ایک دوسرا معاملہ میری کتاب ’’تصوف اور بھکتی۔ تنقیدی اور تحقیقی مطالعہ‘‘ پر ایک مذہبی رسالہ میں تبصرہ کا ہے۔ تبصرہ نگار نے میری کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے بیشتر تعریف کی۔ کہیں کہیں اختلاف بھی کیا مگر ساتھ ہی قرآنی آیات کا مفہوم بدلنے کی کوشش کی۔ یہ گمرہی کی انتہا ہے کہ انسان اپنی عظمت بیان کرنے یا اپنے مقام و مفاد کا تحفظ کرنے کے لیے قرآن حکیم کی آیات میں معنوی تحریف کر بیٹھے۔ ان کا موقف حضرات صوفیائے کرام کے طرز فکر وعمل سے بھی مختلف تھا اس لیے میں نے انھیں سخت جواب دیا۔
ایک تیسرا معاملہ ایک غلط فہمی کے سبب سامنے آیا۔ ہمارے لیے بہت ہی محترم پروفیسر حنیف احمد نقوی نے ’’ء‘‘کے استعمال کے متعلق ’’نوائے ادب‘‘ کو ایک خط لکھا تھا جس پر میں نے کچھ دوسرے ادیبوں کی آراء نقل کی تھیں اور اپنے اشکال بیان کیے تھے۔ بعض لوگوں نے مشہور کردیا کہ میں نے نقوی صاحب کے خلاف محاذ کھولا ہے۔ مگر چونکہ جھوٹ بہرحال رد کردیے جانے کے لیے ہوتا ہے اس لیے یہ جھوٹ بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
ان اختلافات یا غلط فہمیوں کو تنازعہ نہیں کہا جاسکتا۔
اعظم شاہد:ایک اور مضمون کا ذکر کرنا آپ شاید بھول گئے…
شمیم طارق: نہیں !بھولا نہیں ہوں’’اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی‘‘کے عنوان سے میرا جو جواب شائع ہوا ہے اس سے ظاہر ہوگیا ہے کہ ایک ایسے شکست خوردہ ذہن کے شخص نے جس کا اصل چہرہ میں نے بے نقاب کیا تھا، میرے خلاف ’’فرضی فرد جرم‘‘ تیار کی تھی جس کا حرف حرف جھوٹ پر مبنی تھا۔ جواب میں نے دے دیا۔ اس کو تنازعہ کہا جاسکتا ہے نہ اختلاف۔ یہ تو شرپسندی تھی ’’اپنے سوا سب کافر‘‘ کی ذہنیت کا مظاہرہ تھا۔ اس ذہنیت کے مارے شخص کا جو حشر ہونا چاہیے تھا وہ ہوا۔
اعظم شاہد: بہادر شاہ ظفر کی دو غزلوں کے بارے میں بھی کچھ باتیں سننے میں آئی تھیں۔ ایک کا پہلا مصرع ہے
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
دوسری غزل علامہ سیماب کی ہے…؟
شمیم طارق: دیکھیے: اس معاملے میں بعض چھوٹے لوگوں نے میری مراد ہے کہ ایسے لوگوں نے جو لگائی بجھائی اور کاناپھوسی کرکے ادیبوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں، تنازع کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ صحتمند اختلاف کا ہمیشہ استقبال ہے مگر غلاظت اچھالنے کو ادبی اختلاف تو نہیں کہا جاسکتا؟
مضطر خیر آبادی اور سیماب اکبر آبادی، دونوں میرے ممدوح ہیں، غزل کے اہم شاعر ہیں۔ جو ان پر کیچڑ اچھالے گا وہ خود ذلیل ہوگا۔ اسی طرح بعض حلقوں میں یہ مشہور کردیا گیا تھا کہ بہادر شاہ ظفر شاعر ہی نہیں تھے۔ میںمحمد حسین آزاد اور مولانا حالی کا مداح ہوں مگر ظفر کی شاعری کے بارے میں انھوں نے جو شوشے چھوڑے ان کو مسترد کرتا ہوں۔ میں ظفر کو بھی شاعر تسلیم کرتا ہوں اور جیسا کہ عرض کرچکا ہوں مضطر اور سیماب کو تو قادرالکلام شاعر اور استاذ سمجھتا ہوں۔ ان میں سے کسی پر یہ الزام نہیں لگایا جاسکتا کہ اس نے دوسرے کی کوئی غزل یا مصرع اپنے نام کرلیا۔
خلیل الرحمن اعظمی نے ’’نوائے ظفر‘‘ میں ’’دکھی کی پکار‘‘ کے عنوان سے ظفر کے جو اشعار شائع کیے ہیں ان کے مآخذ بھی بتادیے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی ہے کہ وہ غزل جس کا مصرع ہے
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جس طرح نقل ہوتی رہی ہے یا پڑھی جاتی رہی ہے اس میں لفظوں اور مصرعوں کی ترتیب میں فرق ہے۔ شعروں کی تعداد میں فرق ہے اور کہیں لفظ بھی بدلے ہوئے ہیں۔ میں نے اپنے مضمون ’’بہادر شاہ ظفر کی ایک مظلوم غزل‘‘ میںان کی نشاندہی کردی ہے۔ رئیس احمد جعفری نے اپنی کتاب ’’بہادر شاہ ظفر اور ان کا عہد‘‘ میں جو ۱۹۵۵ء میں لاہور سے شائع ہوئی تھی اس غزل کو جس طرح شائع کیا تھا اور بعد میں خلیل الرحمن اعظمی نے جس طرح شائع کیا اس میں بھی فرق ہے۔ کہیں اس غزل کے تین شعر نقل ہوئے ہیں اور کہیں پانچ شعر۔ اس لیے قیاس یہی ہے کہ غزل ظفر کی ہے اور اس کی اصلاح کے ساتھ اسی ردیف و قافیہ میں نئے شعر بھی کہے جاتے رہے ہیں۔
بہادر شاہ ظفر کے چار دیوان شائع ہوئے۔ ایک دیوان ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کی نذر ہوگیا۔ رنگون میں جو اشعار انھوں نے کہے وہ بھی سینہ بہ سینہ لوگوں تک پہنچتے رہے۔ اس لیے مجھے قرین قیاس یہی لگتا ہے کہ افسردگی میں ڈوبی ہوئی یہ غزل بہادر شاہ ظفر کی ہے۔ کئی لوگوں کو اس سے اختلاف بھی ہے مثلاً جب میرا مضمون شائع ہوا تو پروفیسر حنیف احمد نقوی نے مجھ کو فون کیا کہ مذکورہ غزل مضطر کی ہے۔ میں نے کہا میرے مضمون کے جواب میں ایک مضمون یا خط لکھ دیجیے۔ انھوں نے کہا نہیں میں جواب نہیں لکھوں گا۔جواب لکھنے یا اس غزل کے مضطر کی ہونے کا ثبوت دینے میں کیا تردد تھا؟اب سوچیے، میں نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے کسی کی عظمت یا شاعرانہ حیثیت کا انکار نہیں کیا ہے، سیماب کی غزل کا معاملہ اور ہے۔ اس میں اور ظفر کے بعض مصرعوں میں لفظوں کا فرق ہے۔داخلی شواہد کی بنیاد پر دونوں شعروں کو ظفر کا تسلیم کرنے سے کوئی تنازع نہیں کھڑا ہوتا یہ تو اطمینان قلب کا معاملہ ہے۔ رنگ شاعری کا معاملہ ہے۔ دلائل و شواہد کی بات ہے۔ پھر کہتا ہوں کہ میں سیماب اور مضطر کا مداح ہوں۔میں یہ الزام نہیں لگاتا کہ ان حضرات نے ظفر کی غزل اپنے نام کرلی۔ میری رائے یہ ہے کہ انھوں نے ظفر کے مصرعوں میں اصلاح کرنے کے علاوہ نئے اشعار کہے ہوں گے۔
اعظم شاہد: ۲۸ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آپ نے پونے کے پترکار بھون میں غیر مسلم سامعین کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ بہادر شاہ ظفر بیک وقت مظلوم شخص بھی تھے اور خوش نصیب بھی۔اس کا کیا مطلب ہے؟
شمیم طارق: میری تقریر کا حاصل یہ تھا کہ بہادر شاہ ظفر اس لحاظ سے تو بہت خوش نصیب ہیں کہ اورنگ زیب کے بعد درجن بھرجو مغل بادشاہ ہوئے ان میں تنہا ان ہی کا ذکر کیا جاتا ہے اور اس ذکر میں ہمدردی بھی شامل ہوتی ہے۔کسی دوسرے بادشاہ کے حصے میں نہ تو اتنی ہمدردی آئی نہ اتنی شہرت جتنی بہادر شاہ ظفر کے حصے میں آئی۔
بدقسمت اس لحاظ سے تھے کہ وہ جس نسل سے تعلق رکھتے تھے اس کے ہندوستانی ہونے پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ وہ شاعر تھے چار دیوان کے خالق تھے، پانچواں دیوان ۱۸۵۷ء کے ہنگاموں میں ضائع ہوگیا تھا، جلاوطن کیے جانے کے بعد بھی ان کا شعری سفر جاری تھا اس کے باوجود ان کے شاعر ہونے پر کچھ لوگ سوال اٹھاتے رہے۔ ظفر مغل سلطنت کے وارث اور لال قلعہ کے مکین تھے مگر ان کے بادشاہ ہونے پر بھی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
یہاں ایک اور حقیقت کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مضطر اور سیماب تو غالب کے بعد کے شعراء ہیں۔ ایک شعر ہے:
خدا کے واسطے پردہ نہ کعبے سے اٹھا ظالم
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے
اس کے بارے میں مشہور ہوگیا کہ یہ شعر غالب کا ہے۔ غلام رسول مہر نے اس کو غالب کے شعر کی حیثیت سے نقل بھی کیا مگر بعد میںحذف کردیا کیوں کہ یہ شعر بہادر شاہ ظفر کا ہے اور کلیات ظفر (حصہ چہارم مطبوعہ مطبع نول کشور، کانپور ص ۱۴۷) میں شامل ہے۔ صحیح شعر اس طرح ہے:
خدا کے واسطے زاہد اوٹھا پردہ نہ کعبہ کا
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے
غالب،بہادر شاہ ظفر کے استاذ تھے، ظفر کے انتقال کے تقریباً سات سال تک زندہ رہے۔ ان کی زندگی میں ان کے پانچ دیوان شائع ہوئے اور کسی بھی دیوان میں مذکورہ شعر نہیں تھا اس کے باوجود ظفر کا شعر غالب سے منسوب کردیا گیا۔ آج بھی کافی لوگ اسی مغالطے میں ہیں۔
یہ تو حال ہے اس شعر کا جو ظفر کے دیوان میں شامل ہے۔ ان کے جو اشعار دیوان میں شامل نہیں ہیں ان کی شکل بگڑ جانا اور ان کو درست کرنے یا اسی زمین میں مزید شعر کہنے والوں سے ان کا منسوب ہوجانا تو بہت ہی آسان ہے۔
میری نظر میں بہادرشاہ ظفر کا ہندوستانی ہونا اور شاعر ہونا برحق ہے مگر ان کی بادشاہت ان کے دادا کے زمانے میں ہی ختم ہوچکی تھی۔ وہ انگریزوں کے پینشن خوار تھے۔ مگر ان پر انگریزوں کے لگائے ہوئے الزامات بھی غلط تھے۔ معاملہ یہ ہے کہ انگریز پہلے ہی فیصلہ کرچکے تھے کہ بہادر شاہ ظفر کے بعد ان کی اولاد قطب صاحب میں رہائش اختیار کرے گی۔ جنگ آزادی کو بہانہ بنا کر انگریزوں نے اپنا منصوبہ بہادر شاہ ظفر کی زندگی میں ہی پورا کرلیا ۔انگریزوں نے ان کو گرفتار کرنے کے بعد ان کے ساتھ جو سلوک کیا اس سے انسانیت اور عدل و انصاف اب تک شرمسار ہے۔ رہی سہی کسر وہ لوگ پوری کررہے ہیں جو ان کو شاعر یا ہندوستانی نہیں مانتے۔
اعظم شاہد: بات آپ کی تصنیف ’’غالب اور ہماری تحریک آزادی‘‘ کی چل رہی تھی اس تصنیف کا موضوع کیا ہے؟
شمیم طارق: اس کتاب میں غالب کی شاعرانہ عظمت سے انکار یا غالب شکنی نہیں ہے بلکہ صرف یہ دیکھنے کی کوشش ہے کہ غالب جو شاہانِ مغلیہ کی تاریخ لکھنے پر متعین تھے، آزادی اوراحتجاج کے شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں اور ۱۸۵۷ء کے واقعات کے عینی شاہد ہونے یا روزنامچہ لکھنے کے مدعی تھے وہ اپنے دعوے میں کس حد تک سچے ہیں؟ یہ جاننے کی بھی کوشش کی گئی ہے کہ ۱۸۵۷ء کے سورماؤں کے بارے میں انھوں نے کیا نقطۂ نظر اختیار کیاتھا؟ نتیجہ یہ اخذ کیا گیا ہے کہ روزنامچہ لکھنے کے دعوے میں وہ سچے نہیں ہیں، اور غالب اس حقیقت کا بھی اندازہ نہیں کرسکے تھے کہ ۱۸۵۷ء کے صرف ۹۰ برس بعد انگریزوں کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑے گا۔
دیسی سپاہیوں کو غالب نے جن لفظوں سے نوازا ہے یا ان کی جس طرح مذمت کی ہے وہ بھی تکلیف دہ ہے۔ انگریزوں کے مظالم کا جس طرح انھوں نے یہ لکھ کر دفاع کیا ہے کہ فاتح ایسا ہی کرتے ہیں اس کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ مختلف ابواب میں غالب کے قصیدے اور دستنبو پر بھی بحث ہے۔ ان کے مذہب کے بارے میں بھی ان ہی کے بیانات نقل کیے گئے ہیں۔ اپنی طرف سے کوئی بات نہیں لکھی گئی ہے۔
غالب ۱۸۵۷ء کے بعد تقریباً ۱۲ سال زندہ رہے۔ ان برسوں میں انھوں نے کتنے شعر کہے۔ کیسے شعر کہے؟ اس کا تجزیہ یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لیے کافی ہے کہ اس دور میں غالب کا وہ تخلیقی جوہر چھن چکا تھا جو خود غالب کی دوسری صلاحیتوں پر غالب تھا۔ لیکن ایسا ۱۸۵۷ء کے بعد ہوا۔ مجموعی حیثیت سے غالب بحیثیت شاعر کسی سے کم نہیں ہیں۔ وہ اردو ہی کے نہیں دنیا کی تمام زبانوں کے اہم ترین شاعروں میں نمایاں حیثیت کے مالک ہیں۔ ان کے چند دعوؤں یا بیانات سے اختلاف کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ ان کو کسی سے کم تر ثابت کیا جائے۔ غالب بحیثیت شاعر عظیم تھے عظیم ہیں اور عظیم رہیں گے۔
اعظم شاہد: آپ کی ایک اور کتاب ہے ’’غالب، بہادر شاہ ظفر اور ۱۸۵۷ء‘‘ وہ کس موضوع پر ہے؟
شمیم طارق: ۲۰۰۷ء میں اسی موضوع پر غالب اکیڈمی، نئی دہلی نے مجھے لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا تھا۔ لیکچر زبانی ہوا، بعد میں کیسٹ سے کاغذ پر منتقل کردیا گیا اور کتاب کی صورت دے دی گئی۔ کتاب کی صورت دیتے ہوئے ان اقتباسات کا اضافہ کردیا گیا ہے جن کی طرف میں نے اشارہ کیا تھا۔
اس لیکچر میں یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہماری تاریخ میں ۱۸۵۷ء کی پہلی جنگ آزادی کی کیا اہمیت ہے، اس کے بارے میں ہماری معلومات کے ذرائع کیا ہیں، غالب اور بہادر شاہ ظفر کا اس جنگ آزادی کے بارے میں کیا رویہ تھا اور ان کی زندگیوں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔
اعظم شاہد: آپ کی کتاب ’’صوفیہ کی شعری بصیرت میں شری کرشن‘‘ میں کیا پیغام ہے؟
شمیم طارق: میں الحمدللہ مسلمان ہوں۔ ایک خدا کا پرستار اور حضور خاتم النبین صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کا امتی ہوں۔ صوفیہ کی شعری بصیرت میں یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہمارے مسلمان اردو شعرا ء اور مسلم صوفیائے کرام نے شری کرشن کو کس حیثیت سے دیکھا اور پیش کیا ہے کیوں کہ ہندوستان کے عوام کی اکثریت تو ان کو بھگوان یا اوتار مانتی ہے اور جن اردوشاعروں اور صوفیوں نے ان کی مدح کی ہے ان کے مذہب میں کسی انسان کو بھگوان ماننے یا انسانی جسم میں خدا کے حلول کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں نے اردو والوں میں مذہب کی بنیاد پر تفریق پیدا کرنے یا لکیر کھینچنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تو دراصل اردو کے شاعروں اور صوفیوں کو میراخراج تحسین ہے کہ انھوں نے اپنے مذہب کو برقرار رکھتے ہوئے دوسروں کے مذاہب اور مذہبی شخصیتوں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
میری تحقیق کا ماحصل یہ ہے کہ
(الف) مسلم شاعروں اور صوفیوں کا ایک طبقہ تو وہ ہے جس نے شری کرشن کے بارے میں لوگوں سے جو سنا اور دیکھا اس کو محبت سے نظم کردیا ہے جیسے نظیر اکبر آبادی۔
(ب)حسرت موہانی نے انھیں عارف حق کے طور پر سمجھا اور پیش کیا۔
(ج)شاہ محمد کاظم قلندر اور شاہ تراب علی قلندر نے اس لفظ کو علامت کے طور پر پیش کیا اور اس لفظ سے اس وجود حقیقی کی طرف اشارہ کیا جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا جس کو فنا نہیں۔
ان حضرات کی شاعری کو علامتوں اور استعاروں کو سمجھے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا۔
(د)جناب محسن کاکوروی شاہ محمد کاظم قلندر کے چھوٹے بھائی میر محمد قلندرکی اولاد میں تھے انھوں نے نعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں بھی کرشن، گوپی، متھرا جیسے لفظوں کے استعمال سے اپنی پاکیزہ فکر میں مقامیت اور آفاقیت کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔
اعظم شاہد: اس نوعیت کا کام اس سے پہلے کسی نے کیا تھا؟
شمیم طارق: میرے علم میں نہیں ہے۔ کتاب شائع ہوئے کئی سال ہوچکے ہیں کسی نے اب تک دعویٰ بھی نہیں کیا کہ مجھ سے پہلے کسی نے اس موضوع پر کام کیاتھا۔
اعظم شاہد: آپ کے مقالات کے دو مجموعے کتابی صورت میں ’’تقابل اور تناظر‘‘( ۲۰۱۰ء) اور ’’تاثر اور تجزیہ‘‘ (۲۰۱۸ء) شائع ہوچکے ہیں۔ ’’تقابل اور تناظر‘‘میں جو مقالات شامل نہیں ہوئے تھے یا اس کی اشاعت کے بعد لکھے گئے تھے وہ ’’تاثر اور تجزیہ‘‘ میں شامل کردیے گئے ہیں یا کوئی اور فرق ہے آپ کے مقالات کے ان دو مجموعوں میں؟
شمیم طارق:’’تقابل اور تناظر‘‘ تقابلی اور تنقیدی مطالعے پر مبنی مقالات کا مجموعہ تھا۔ یہ مضامین الگ الگ موضوعات پر الگ الگ وقت میں لکھے گئے تھے مگر ان کی خصوصیت یہ ہے کہ ان سب میں تقابلی مطالعے کی روح سمائی ہوئی ہے۔ ایک مضمون میں ’’دو عظیم تخلیق کاروں ، علامہ شبلی اور ڈاکٹر اقبال کے مزاج و طبیعت اور شخصی احوال میں موازنہ کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے جب کہ دوسرے مقالات کسی خاص فکری رجحان، موضوع یا مختلف تخلیق کاروں کے فکر و فن کا وسیع تر تناظر میں تنقیدی اور تقابلی مطالعہ ہیں۔
’’تاثر اور تجزیہ‘‘ تنقیدی، تحقیقی، ثقافتی موضوعات پر لکھے گئے مقالات کا مجموعہ ہے۔ اس میں تعلیمی نظریات ، ادب اطفال جیسے موضوعات بھی شامل ہیں۔
اعظم شاہد: آپ کے مقالات کو پڑھنے سے حتیٰ کہ تقریروں سے بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ آپ کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ آپ کی کتابوں کی پذیرائی بھی ہوتی رہی ہے لیکن ایک دو اشخاص ایسے بھی ہیں جو ۔۔۔۔
شمیم طارق: دیکھیے میں نے کبھی بھی اپنی کسی تصنیف یا مقالے کے حرف آخر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ آئندہ بھی نہیں کروں گا کیوں کہ تحقیق میں یا تنقیدی مطالعے میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔ اگر میری کسی بات یا تحقیق سے کسی کو اختلاف ہے تو اس اختلاف کا اظہار ہونا ہی چاہیے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ادبی موضوعات پر اختلاف کا اظہار وہ کرے جو اختلاف کے آداب اور ادب کے تقاضوں کو جانتا ہو۔
اعظم شاہد: یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ آپ کسی یونیورسٹی کے اردو شعبے کے طالب علم یا استاذ نہیں رہے ہیں؟
شمیم طارق: اس میں کیا برائی ہے؟ یہ تو خوش ہونے کا معاملہ ہے کہ اردو تخلیق، تنقید اور تحقیق کا دائرہ ان لوگوں تک پھیل رہا ہے جو اردو شعبے سے کبھی وابستہ نہیں رہے۔ اردو میں کوئی ڈگری نہیں لی۔ حالانکہ کامرس کا طالب علم ہونے کے باوجود میں نے ادیب کامل کا امتحان جامعہ اردو سے پاس کیا تھا۔ پروفیسر آل احمد سرور اور پروفیسر گوپی چند نارنگ سائنس چھوڑ کر اردو ادب کی طرف آئے تھے۔ انھوں نے ڈگریاں بھی لی تھیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنھوں نے ڈگریاں حاصل نہیں کیں مگر اردو زبان و ادب کو مالامال کرتے رہے۔ شمس الرحمن فاروقی کا ذریعۂ تعلیم انگریزی تھا۔ انھوں نے آئی اے ایس میں کامیابی حاصل کی اور زندگی بھر اردو ادب کی خدمت کرتے رہے۔ اسی طرح کیا رشید حسن خاں، ظ انصاری، کالی داس گپتا رضا، شافع قدوائی کو اردو تنقید، تحقیق اور تخلیق کو مالاما کرنے والوں کی فہرست سے باہر کیا جاسکتا ہے؟
اصل میں اس قسم کا شوشہ وہ لوگ چھوڑتے ہیں جو شدید احساس کمتری میں مبتلا ہیں، یا اہم عہدوں پر قابض ہونے کے باوجود اپنی شناخت بنانے میں ناکام رہے ہیں،یا ماہر لسانیات ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود صحیح املا اور جملہ لکھنے سے معذور ہیں۔ آئرلینڈ کے بھیڑیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ چاندنی رات میں جب ہر طرف چودھویں کے چاند کی روشنی بکھری ہوئی ہوتی ہے اورذرے بھی اپنے مقدر پر ناز کرتے ہیں تو وہ بھیڑیے چاند کی طرف منہ اٹھا کر خوب چیختے چلاتے ہیں اور بالآخر تھک کر خاموش ہوجاتے ہیں۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے چاند کو ذلیل کرلیا۔ میں چاند تو نہیں ہوں۔ شاید اردو ادب میں مجھ کو جلتا ہوا چھوٹا سا دیا بھی نہ سمجھا جائے مگر میری تقدیر کہ ایک دو بھیڑیوں نے میرے خلاف چیخ پکار کرکے مجھ کو اہم بنادیا۔ میں ان سے گھبراتا نہیں، اطمینان حاصل کرتا ہوں کہ میں نے کچھ اہم کام کیا ہے ورنہ یہ شور مچانے والے کیوں میرے پیچھے لگے رہتے؟
میں خوش نصیب ہوں کہ اردو کے معتبر نقادوں اور ادیبوں میں سے بیشتر نے میری حوصلہ افزائی بلکہ عزت افزائی کی۔ کہیں کسی نے اختلاف کیا ہے تو اس کا فیصلہ قارئین کریں گے، وقت کرے گا۔ اختلاف کا مطلب دشمنی نہیں ہوتا۔ مگر جس شخص کو ذہن میں رکھ کر آپ یہ سوال کررہے ہیں اس کی باتوں کو ادبی اختلاف کہا ہی نہیں جاسکتا۔ وہ تو ایک بیمار ذہن شخص کی خرافات ہے۔ کیا خرافات کا شمار ادبی اختلافات میں کیا جاسکتا ہے؟ ایسا کرنے والوں کا شمار بھی بیمار ذہنی میں مبتلا اشخاص میں ہوگا۔
اعظم شاہد: کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کی نگارشات کو جو مقبولیت حاصل ہے اس کو دیکھتے ہوئے آپ کو ملنے والے انعامات کی تعداد کم ہے…
شمیم طارق:میں اس معاملے میں سوچتا بھی نہیں، انعام کے لیے لکھنا یا انعام کے لیے لابنگ کرنا یا سفارش کروانا مجھے منظور نہیں۔ میں شکر ادا کرتا ہوں کہ اہم لوگوں کے علاوہ عام قارئین نے بھی میری نگارشات کی داد دی ہے۔ میں نے کسی انٹرویو میں کہا تھا کہ علمی ادبی کاموں کی توفیق مل جانا بذات خود انعام ہے جو مجھے حاصل ہوچکا ہے۔ میں اس پر قائم ہوں۔
اعظم شاہد: آپ نقاد ہیں۔ کیا آپ محسوس نہیں کرتے کہ پوری ادبی دنیا نارنگ اور فاروقی کے ماننے والوں میں تقسیم ہوچکی ہے…
شمیم طارق: دیکھیے، نقادوں میں اختلاف ہونا یا ان کے اختلاف و اتفاق میں دوسروں کا شامل ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے ادب کو فائدہ پہنچتا ہے بشرطیکہ ادب اور شائستگی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ نارنگ صاحب، فاروقی صاحب، شمیم حنفی صاحب اور کئی دوسروں نے بہت اہم کام کیے ہیں۔ ان کی تحریریں اردو ادب کا اہم سرمایہ ہیں۔ وقت ان کے کھرے کھوٹے ہونے کا فیصلہ کرتا رہے۔ہمارا کام ان کا احترام کرنا ہے۔
نارنگ صاحب میں ایک بات میں نے دیکھی کہ وہ چھوٹوںکی بھی پذیرائی کرتے ہیں۔ میں اپنی مثال دوں کہ میں کسی فائدہ پہنچانے والے عہدہ پر نہیں ہوں۔ دولتمند بھی نہیں ہوں۔ میرا ایک طویل مضمون ماہنامہ آج کل میں شائع ہوا تھا جس کی اشاعت کے لیے میں مرحوم محبوب الرحمن فاروقی کا انتہائی شکرگذار ہوں۔ عنوان ’’تصوف اور بھکتی کی شعری روایت‘‘ سے متعلق تھا۔ نارنگ صاحب نے مضمون شائع ہونے کے دو ماہ بعد مجھے فون کیا، کہا کہ میں امریکہ میں تھا اس لیے فون نہیں کرسکا۔ مضمون بہت اچھا ہے۔ لکھتے رہو۔ مجھے حوصلہ ملا۔ اس سے پہلے میری نارنگ صاحب سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ ظاہر ہے میں اس اعلیٰ ظرفی کوہمیشہ یاد رکھوں گا مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ میں ان سے اختلاف کرنے والوں سے دشمنی کروں۔ دونوں طرف کے کچھ لوگوں نے ایسا کیا، میں ان سے الگ ہوں۔ ان دونوں حضرات کے بعد کے کچھ ناقدین سے بھی میں اخلاص رکھتا ہوں مگر اخلاص کا مطلب خود سپردگی یا اپنے خیالات سے دستبردار ہونا نہیں ہے۔
ابھی حال ہی میں مجھے ساہتیہ اکیڈمی نے وارث علوی پر لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ ساہتیہ اکیڈمی میں آج بھی ایک شخص یا ایک فکر کا تسلط نہیں ہے، ورنہ وارث علوی پر لیکچر کیوں رکھا جاتا؟
ایک بات اور عرض کروں۔ اردو کے کئی اداروں نے مجھے کبھی مدعو نہیں کیا، میں نے کبھی شکایت بھی نہیں کی مگر جس نے مجھے مدعو کرلیا اس کے خلاف پروپیگنڈا کیا جانے لگا کہ وہ ٹولہ بنا رہا ہے، یا میں نے خوشامد کرکے اس کے دل میں جگہ بنائی ہے۔ اصل میں معاملہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کو معتوب کرنے یا اس سے شکایت کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم خود کیا کررہے ہیں۔
اعظم شاہد: آپ چونکہ شاعر بھی ہیںاس لیے میں اس وقت آپ کی تخلیق یعنی شاعری سے متعلق ایک دو سوال کروںگا۔ اچھی شاعری سے کیا مراد ہے؟
شمیم طارق: اچھا یا اچھی سے ہر شخص الگ الگ خصوصیات مراد لیتا ہے۔ پسند اپنی اپنی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ اچھی شاعری کیا ہے اور بری شاعری کس کو کہتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور محسوس کرتا ہوں کہ اچھی شاعری مروجہ تنقیدی نظریات میں قید نہیں کی جاسکتی۔ اچھی شاعری کلاسیکی ہو، ترقی پسندی کے دور کی ہو یا جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے دور کی، وہ ہر حال میں اچھی ہی ہوتی ہے۔ ہاں ایسے شعراء کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے جن کا اپنا شعری مزاج اور شعری کائنات ہے۔
اعظم شاہد: آپ اپنی شاعری کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
شمیم طارق: ابتداء میں شاعری میرے بس میں تھی، اب میں شاعری کے بس میں ہوں۔ زیادہ توجہ نثر پر ہے مگر چونکہ شاعری میرے مزاج و طبیعت کا حصہ ہے میرے حق میں قدرت کا انعام ہے اس لیے چلتے پھرتے سفر کرتے شعر ہوجاتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ میرا تنقیدی شعور میرے تخلیقی شعور پر حاوی ہے اس لیے کم ہی شعر یاد رہ پاتے ہیںجن کو میں نقل کرسکوں مگر جو اشعار حافظے میںرہ گئے ہیں یا شائع ہوچکے ہیں ان سے بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ بحیثیت شاعر میں وقت، روایت، تہذیب کے تسلسل کا حصہ ہوتے ہوئے بھی نئی فضاؤں میں اڑان بھرتا رہتا ہوں۔نئے پانیوں اور نئی فضاؤں سے روشناس ہوتا رہتا ہوں۔
اعظم شاہد: کچھ مثالیں دیجیے:
شمیم طارق:
طاقت صبر کو جب آگ لگانے لگی پیاس
کام آیا مری آنکھوں کا برستا پانی
اپنی اوقات میں رہتا ہی نہیں ہے کمبخت
وہ جو ہے ریڈھ کی ہڈی کا اچھلتا پانی
کبھی کبھی تو ایسا ہوا کہ خود بخود شعر نازل ہوتے رہے کبھی کبھی کوشش کے باوجود ایک مصرعہ موزوں کرنا مشکل ہوگیا ایسی صورت میں تخلیقی لمحے کا انتظار کرنے کے بجائے میں نے اسی لمحے کو تخلیقی لمحے میں تبدیل کرلیا جو میسر تھا۔ ان شعروں میںمطالعہ، مشاہدہ اور شعری تجربہ سب شامل ہے۔ ظاہر ہے یہ شعور و لاشعور کی ہم آہنگی سے ہی ممکن ہوا۔
اعظم شاہد: کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کا شعری سرمایہ بہت کم ہے…
شمیم طارق: جی ہاں… جیسا کہ میں نے عرض کیا میرا تنقیدی شعور میرے تخلیقی شعور پر غالب ہے اس لیے کافی شعر ذہن سے محو ہوجاتے ہیں، مجھے اس کا افسوس بھی نہیں ہوتا۔جن لوگوں نے درجن بھر شعری مجموعے شائع کیے، کیا ان میں سے سب کو شعر و ادب میں کوئی مقام مل گیا؟
اعظم شاہد: آپ کی شاعری کا کوئی خاص رنگ…
شمیم طارق: میں زندگی کا شاعر ہوں اور زندگی کو کسی رنگ یا کسی خاص کیفیت میں اسیر نہیں کیا جاسکتا۔ پھر زندگی اور اس کے مظاہر میں وہ بھی شامل ہے جو نظر آتا ہے اور وہ بھی جو نظر نہیں آتا۔ میں نے زندگی کو کلی طور پر دیکھا ہے، کبھی کبھی تو یہ محسوس کرتا ہوں کہ زندگی حیرت کا نام ہے۔ اسی حیرت نے مجھ سے کہلوایا تھا کہ
ضمیر عہد کی سرگوشیوں کا دلدادہ
پسِ شعور مرا لاشعور تھا کیا تھا
٭٭