خواتین کیخلاف گھریلوتشددکے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ تشویشناک:آرتی ٹھاکر
"رواں برس اب تک889شکایات درج ؛، 252کارضامندی سے حل ہوا،16معاملات کاعدالت میں چالان پیش "
پریتی مہاجن
جموں ؍؍ریاست جموں وکشمیرکے سرمائی دارالخلافہ جموں میں خواتین کیخلاف گھریلوتشددکے واقعات میں بے تحاشہ اضافے کاانکشاف کرتے ہوئے جموں کے خواتین پولیس سٹیشن کی ایس ایچ او انسپکٹر آرتی ٹھاکرنے کہاکہ رواں برس ان کے پاس 889شکایات درج ہوئیں جن میں سے 252کوآپسی صلاح مشورے کے بعد حل کیاگیا جبکہ16معاملات کاعدالت میں چالان پیش کیاگیا، انسپکٹر آرتی ٹھاکر نے کہاکہ میاں بیوی کے مابین نوک جھونک معمولی بات ہے لیکن اس میں کوئی ایک بھی اگر غصہ پی جائے توگھر ٹوٹنے سے بچ سکتاہے، اُنہوں نے کہاکہ جب کسی ایک کو غصہ ہوتودوسراخاموش رہے، درگذر کرلے تویقینا بات بڑھتی نہیں اور کورٹ کچہری تک بات نہیں پہنچتی بلکہ گھرکی چار دیواری میں ہی حل ہوجاتی ہے، بے تحاشہ شکایات کو تیزرفتار نپٹانے کے جتن جاری رکھتے ہوئے اُنہوں نے کہاکہ کسی کے گھر کاسال بھرکاجھگڑا ہواور وہ پولیس سے اسکاایک ہی دِن میں حل چاہے ایساممکن نہیں بلکہ تحمل سے کام لیاجاناچاہئے، موصوفہ نے یہاں ’لازوال‘کیساتھ ایک خاص بات چیت میں ان خیالات کااِظہارکیا۔سب انسپکٹر سے انسپکٹر کے عہدے پرترقی پاتے ہی ’لازوال‘کیساتھ بات چیت میں اہلیانِ جموں سے تلقین کی کہ اپنے گھریلوجھگڑوں کوزیادہ طول نہ تیں،اور خوشحال گھرانوں کی تعمیراور ایک صحت مند معاشرے کی تعمیرمیں اپنانمایاں کردار اداکریں۔ایس ایچ او آرتی ٹھاکرایک خاتون ،ایک بہو ،ایک ماں اور ایک آفیسر بھی ہیں جنہوں نے اپنے خاوند کے انتقال کے بعد جموں و کشمیر پولیس میں اپنی خدمات انجام دینا شروع کیں۔انسپکٹر آرتی ٹھاکر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں اپنے خاوند کی موت کے بعد پولیس میں شامل ہوئی ،میرا ایک بیٹا ہے اوراپنے والدین کے ساتھ رہتی ہوںگھر کا کام کرتی ہوں پھر یہاں اپنی ڈیوٹی انجام دینے آتی ہوں۔انہوں نے مزید کہا کہ خواتین سیل میں معاملات بھی حل کرنے ہوتے ہیں ؟لیکن اپنے فرائض کو انجام دینے میں گھر سے پوری مدد ملتی ہے اسلئے کام کو با آسانی انجام دیتی ہوںاور گھر سے مدد ملنے سے اپنے فرائض سے انصاف کر سکتے ہیں ۔موصوفہ نے مزید کہا جس کنبے سے میں ہوں اس کنبے میں ہمارا مقصد اچھی پڑھائی کرنا تھا اور ڈاکٹر بننا میرا مقصد تھا لیکن بدقسمتی سے شادی کے دو سال آٹھ ماہ کے بعد میرے خاوند کا انتقال ہو گیا جبکہ میرے بیٹے کا جنم میرے خاوند کی موت کے بعد ہوااورحالات نے پولیس میں شامل ہونے کیلئے مجبور کیا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے خاندان میں پولیس کو اچھا نہیں مانا جاتا تھااور پولیس میں تحفظ پر کوئی یقین نہ تھا لیکن ایسا نہیں ہے یہاں پولیس میں تحفظ ہے اورجو لڑکیاں پولیس میں آنا چاہتی ہیں وہ آئیں اور یہاں بہترین خدمات انجام دی جا سکتی ہیں ۔واضح رہے ایس ایچ او آرتی ٹھاکر نے پریڈ کالج سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی اورایم اے انگریزی کررہی تھیں کہ خاوند کا انتقال ہو گیا اور ڈگری کو خیر آبا کہہ دیا ۔اپنے فرائض کے متعلق موصوفہ نے کہا کہ ’وومین سیل کا مقصد کونسلنگ کرکے گھروں کو بسانا ہے اورغصے کو دور کرنے میں کنبوں کو وقت دیتے ہیں تاکہ معاملات کا حل کیا جائے لیکن کئی معاملات میں پریشانیوں کا سامنا بھی ہوتا ہے ،کئی طرح کی شکایات بھی ہمارے خلاف ہوتی ہیں لیکن ہم صرف ایک ہی دن میں معاملات کا حل نہیں کر سکتے۔مہینوں اور برسوں کے معاملات اور جھگڑوں کا حل کرنے میں وقت لگتا ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کئی طرح کی خواتین نازیبا کلمات کا استعمال بھی کرتی ہیں جنہیں ہم برداشت بھی کرتے ہیں اور کئی معاملات کا حل کر لیتے ہیں ۔گھریلو زندگی کے متعلق انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’ایک آفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ گھر اور رسوئی کا کام کرتی ہوں ،سارے گھر کو خود دیکھتی ہوں۔انہوں نے مزید کہا کہ گھروں میں جھگڑے کا خاص نقطہ اب جہیز نہیں رہا بالکہ غیر شادی شدہ تعلقات(بہرونی ناجائز تعلقات) ہیں۔انہوں نے معاشرے کے مشورے سے نوازتے ہوئے کہا کہ معاملات کا حل گھر تک ہی کریں کیونکہ بیوی مار کھانے کیلئے اپنے گھر سے نہیں آئی ہوتی اور بیوی پرہاتھ اٹھانا بزدلی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اپنے گھروں کو نہ توڑیںبلکہ گھر کو بسائے رکھیں۔موصوفہ نے کہا کہ ہمارے پاس رواں برس میں 889کل شکایات درج ہوئی ہیں جن میں سے 252کا حل کیا ہے اور16معاملات کا عدالت میںچارج شیٹ کیا ہے۔