رپورٹ : محمد احمد زاہد سانگلہ ہل، پاکستان
یوں تو فیس بک پر اردو ادب کی ترویج و اشاعت کے لئے بہت سے گروپس کام کر رہے ہیں لیکن ہر ایک گروپ کا طریقہ کار مختلف ہے وہی گروپ اپنی پہچان بنائے ہوئے ہے جس کی انتظامیہ بہت فعال ہے اور منظم طریقے سے اپنے ممبران اپنے ممبران کے ساتھ ایک ادبی اور خلوص و محبت کا رشتہ استوار کیے ہوئے ہے کیونکہ گروپ بنانا آسان ہوتا ہے لیکن اسے مسلسل کامیابی سے چلانا مشکل ہوتا ہے..
منتہائے فکر صرف ایک گروپ ہی نہیں بلکہ ایک مکمل ادبی ادارہ ہے… جو گزشتہ دو برس سے درجنوں بین الاقوامی مشاعرے اور ادبی پروگرام منعقد کروا چکا ہے… منتہائے فکر اپنے ان آن لائن طرحی مشاعروں کو کامیابی کے ساتھ صوتی مشاعروں میں تبدیل کر کے نہایت دلکش اور منفرد بنا دیا ہے.. علاوہ ازیں منتہائے فکر فیس بُک لائیو شو کے توسط سے عالمی شہرت یافتہ شعراء سے براہ راست ان کا کلام پیش کرنے کی سعی کرتا ہے.. یقیناً اس کامیابی کا سہرا منتہائے فکر کی مضبوط اور فعال انتظامیہ کے سر جاتا ہے… منتہائے فکر کے بانی و سرپرست محترم ذوالفقار نقوی اور ان کی ٹیم جن میں جناب شمشاد شاد اور جناب کامل جنیٹوی جیسے معتبر شعرا شامل ہیں کی ان ادبی سرگرمیوں نے نو آموزگان کو اپنے طرف متوجہ کیا ہے اور انہیں اس ادارے کے ذریعے کچھ سیکھنے کا موقع فراہم کیا ہے.. ان مشاعروں کی ایک اہم بات ان میں تنقیدی گفتگو ہے جس سے سب کو سیکھنے کا موقع مل رہا ہے…
منتہائے فکر فیس بُک اور وٹس گروپ پر طرحی ،غیر طرحی، ردیفی اور بحری مشاعروں کا طویل سلسلہ جاری ہے…
اسی سلسلہ کے تحت یہ بحری مشاعرہ مورخہ 16 جون 2019 کو منعقد ہوا جس کے کنوینر شمشاد شاد صاحب تھے اس مشاعرے میں دنیائے ادب کے طول و عرض سے 22 شعرا نے شرکت کی اور دی گئی بحر متقارب مثمن سالم میں بہترین کلام پیش کیے… شریکِ مشاعرہ شعراء کرام ایک دوسرے کے کلام پر داد و تحسین سے نوازتے رہے جس سے مشاعرے کا ماحول بہت ہی لطف انگیز رہا اور شعراء مزے سے اپنے خیالات کو ذہن کی سکرین سے اتار کر پیش کرتے رہے…
مشاعرے کی ایک اور خاص بات یہ رہی کہ شعرا نے حمد ،نعت اور غزل تینوں اصنافِ سخن میں کلام پیش کیے..
نمونہ کلام
کریں حمد سے نعت کیسے جدا ہم
انہیں رب نے ملزوم و لازم بنایا
ذوالفقارنقوی
قلم لے کے لفظوں کا میں شاعری کے
سمندر میں موتی اگانے چلی ہوں
ڈاکٹر مینا نقوی
عمل ہم کریں ان کی سنت پہ ہر دم
کہ آتا ہے جینے کا اس سے قرینہ
انعام الحق معصوم صابری
ملے تشنگی سے جو اک لمحہ فرصت
لکھوں میں بھی کامل سمندر کے قصے
کامل جنیٹوی
خدایا مری حسرتِ چشم کی خیر
وہ اب رخ سے پردہ اٹھانے لگے ہیں
ایم رضوان عاشق
کسی کو فلک پر بلایا نہیں ہے
دو عالم میں تجھ سا بنایا نہیں ہے
سید حبدار قائم
خدا نے کیا مرتبہ ان کا اونچا
شہنشاہِ کون و مکاں ہیں محمد
محمد احمد زاہد
نگاہوں کا اک پل ہوا تھا تصادم
مچے دل کی بستی میں کتنے تہلکے
تبسم اعظمی
یقیناً کوئی اس میں خوبی تو ہو گی
جو روٹھے ہوئے کو منانے چلی ہوں
روبینہ میر
نہ اقرا میرا نہ انکار میرا
فقط تابعِ مرضی ءِ یار ہوں میں
سید وحید القادری عارف
یوں حاجت روا اور ہم دم و مونس
نہیں کوئی تیرے سوا میرے آقا
محمد علی حارث
مٹائے جو دل سے اندھیرے بدی کے
حقائق کی ایسی جلا مانگتا ہوں
محمد افضل شاہد
لگایا تھا دل جس سے پتھر وہ نکلا
کہ جذبات دل سے جدا کر گئی ہوں
نسیم بیگم
مری جھولی بھر دے نواسوں کے صدقے
میں خیراتِ خیر البشر مانگتا ہوں
محمد اختر رحمانی
تماشا کیا شوق نے ایسا برپا
اتارے گئے آسماں سے زمیں پر
یاور حسین
لگی خاک قدموں سے تیرے جو آقا
ہے دیتی وہ اب بھی شفا کملی والے
رضا المصطفی
رہے لذتِ غم سے نا آشنا تو
غموں سے مجھے آشنا کرنے والے
شمشاد شاد
ہے صیاد کی پھر نظر گلسِتاں پر
پرندوں کو پھر سے اڑانا پڑے گا
اصغر شمیم
کوئی مجھ سے پوچھے میں کیا چاہتی ہوں
وفا کر رہی ہوں وفا چاہتی ہوں
واجدہ تبسم گورکو
میسر ہوئی جب سے دستار مجھ کو
مرے سر کی جانب نشانے بہت ہیں
احمد جمیل
مشاعرے کے اختتام پر کنوینر مشاعرہ جناب شمشاد شاد نے تمام شریکِ مشاعرہ شعراء کرام کا شکریہ ادا کیا..