تسنیم فرزانہ بنگلور
9743802320
کیا مسافر تھےجو اس راہ سے گزر گئے……..
تاریخ نے کروٹ بدل کر ایک لمبی ٹھنڈی سانس لی اور حالات اور واقعات کو جگایا
حالات اور واقعات نے پوچھا کیا بات ہے بہت عرصے بعد ہم تمہیں یہ ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں
تاریخ نے کہا، چلو چلتے ہیں آج مجھے کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے دریائے نیل کے کنارے کچھ ہونے والا ہے
واقعات نے کہا، کیا آج پھر میری زندگی میں کوئی نئی کہانی لکھی جانے والی ہے؟
حالات نے جواب دیا، آج مصر کے عظیم رہنما کی عدالت میں پیشی ہے
تینوں نے دیکھا کہ
ایک جانباز جو اللہ کے دین کو اپنے ملک میں نافذ کرنے کے لئے ہمت و استقامت سے ڈٹا ہوا ہے اسے پاپند سلاسل کیا ہوا ہے
حالات نے تعجب سے واقعات سے پوچھا
کیا دنیا میں امن اور سکون اور شریعت کو لاگو کرنے کے لئے لوگ راضی نہیں؟ کیا وہ اپنی دنیا اور آخرت کی زندگی میں کامیابی نہیں چاہتے؟ کیا برائی پر بھلائی کی جیت انہیں گوارا نہیں؟
کیوں وہ اپنے خالق حقیقی سے منہ موڑ کر اپنی مرضی چلانا چاہتے ہیں؟
واقعات نے جواب دیا
یہ تو روز ازل سے ہی ہوتا چلا آ رہا ہے بنی آدم نے اپنے دنیاوی مفاد کی خاطر خالق حقیقی کی نافرمانی کی ہے
کیا تم نے قابیل کو نہیں دیکھا پھر اسی دریائے نیل کے کنارے تمہارے ساتھ کیا کیا نہیں ہوا انبیاء کے ساتھ دین کو قائم کرنے کا عزم کیے ہوئے
اخوان کے شہداء کے ساتھ
مصر کی سر زمین ہمیشہ سے دین الہی سے بغض رکھتی ہے
یہاں کے فرعون حق کہنے والوں کو ہمیشہ ایسے ہی ستاتے رہے ہیں
تاریخ نے کہا، چلو چلو چلتے ہیں، وہ دیکھو حکومت کے کارندے کسی کو بند گاڑی میں کہیں لئے جا رہے ہیں
ارے یہ تو مرشد محمد مرسی ہیں جنہیں بلا کسی جرم کے فرعون وقت السیسی نے گرفتار کر کے جیل کی کال کوٹھری میں بند رکھا ہے شاید آج عدالت میں ان کی پیشی ہونے والی ہے
واقعات…. سنا ہے کہ ان پر ایسے ہی مظالم ڈھائے جا رہے ہیں جیسے حسن البناء، سید قطب شہید، اور دوسرے مسلم رہنماؤں پر کئے گئے تھے
حالات….. یہ بھی سنا کہ انہوں نے قرآن یعنی مصحف کو چھونے کی تمنا کی تھی لیکن اس کو بھی رد کر دیا گیا حالانکہ یہ ظالم جانتے ہیں کہ محمد مرسی حافظ قرآن بھی ہیں وہ ان کے دل سے قرآن کا نور نہیں نکال سکتے
باتوں باتوں میں ہم عدالت کے کمرے میں پہنچ گئے بیٹھو دیکھیں گے کہ آگے کیا ہوگا
حالات نے کہا.. دوستو کتنا نور اور اطمینان ہے شیخ کے چہرے پر جیسے وہ قید سے نہیں بلکہ اپنے گھر سے سنوائی کے لئے آئے ہو
واقعات….. کیوں نہ ہو جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کا دامن تھام لیا اور دین کو نافذ کرنے کے لئے عزم محکم کر لیا ان کی روش ایسی ہی ہوتی ہے
سنو سنو یہ اسد الاسلام کیا کہہ رہا ہے، کمزوری و نقاہت کے باوجود، مسلسل قید کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد بھی
کیسی گرج دار آواز میں اپنی بات رکھ رہا ہے،
اقبال نے سچ کہا تھا…
"آئین جواں مردی حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی”
یہ ڈر پوک فراعنہ اب بھی اس شیر سے خوف کھاتے ہیں اسی لئے انہیں شیشے کے پنجرے میں قید کئے ہوئے ہیں
واقعات نے زور سے چلا کر کہا .. وہ دیکھو وہ دیکھو
شیخ لڑکھڑا رہے ارے یہ تو نیچے گر گئے شاید بے ہوش ہو گئے ہیں
تاریخ نے دوڑ کر شیخ کو تھاما اور آنکھیں بند کر کے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر
سسکتے ہوئے کہا
ظالموں نے یکبارگی قتل نہ کرتے ہوئے آہستہ آہستہ زہر دے کر مار ڈالا
اے نفس مطمئنہ چل اپنے رب کی طرف داخل ہو جو جنت میں
حالات نے ایک بار پھر کربلا اور حسن البناء، سید قطب شہید کی شہادت کو اپنے ذہن میں تازہ کر لیا
واقعات نے اپنے حافظے میں ایک اور واقعہ جوڑ لیا
تاریخ منہ چھپائےہوئے ایک کونے
میں یہ کہتے ہوئے کھڑی ہو گئی
کیا مسافر تھے…………..
۰۰۰۰