ڈاکٹر بی محمد داو¿د محسن
یم۔اے،پی ہیچ۔ڈی
پرنسپال
یس۔کے ۔اے ۔ہیچ ملّت کالج
داونگرے۔577001 (کرناٹک۔انڈیا)
فون : 09449202211
e-mail:[email protected]
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
واجدا خترصدیقی سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی اس کا صحیح علم نہیں البتہ اتنا یاد ہے کہ خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ سرزمین گلبرگہ شریف میں2008 ءمیں سہ روزہ ”نیا ادب:نئی شناخت“ ایک ادبی پروگرام کے سلسلہ میں گیا ہوا تھاجہاں علم و ادب کی کئی شخصیات موجود تھیں۔ اسٹیج کی بڑی اور نامور شخصیتوں سے ہٹ کرجن نوجوان ادبا و شعراءنے مجھے متاثر کیا ان میں واجدا خترصدیقی بھی ایک تھے۔حالانکہ اس سے قبل ان کی علمی و ادبی تحریروں سے میں واقف تھا جو اخبارات و رسائل میں شائع ہوا کرتی تھیں اور ان کی ایک دو کتابیں بھی پڑھنے کا شرف حاصل ہو چکا تھا۔علاوہ ازیں فون پر بھی گاہے ماہے بات چیت ہوا کرتی تھی ۔تحریروں سے فن کو سمجھا تو جاسکتا ہے لیکن فنکاراور اس کی شخصیت کو نہیں۔حالانکہ فن شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے اورفن کے ذریعہ بھی کسی حد تک فنکار کی شخصیت نمودار ہوتی ہے لیکن اس پر کامل یقین کرنا دشوار کن امر ہوتا ہے اس لےے کہ بسا اوقات ”اونچا مکان پھیکا پکوان“ اور ” نام بڑے درشن چھوٹے “ والا معاملہ ہوتا ہے۔لیکن واجد اختر صدیقی کی ذات اس سے مختلف ہے اس لےے کہ وہ اپنی تحریروں میں جیسے شریف النفس ، پاک طینت اور سنجیدہ معلوم ہوتے ہیں وہی کیفیت ان کی طبیعت میں موجود ہے۔ان کی تین روزہ صحبت نے میرے دل پر گہرے نقوش ثبت اور ہمارے تعلقات مستحکم کردئیے۔اس کے بعد ہماری کئی ملاقاتیں ہوتی رہیں اور ان ملاقاتوں میں دوئی کے پردے اٹھتے گئے اور پھر ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے سلسلہ دراز ہوتا گیا۔
واجدا خترصدیقی کا تعلق قیام گلبرگہ میں ہے اورگلبرگہ شہرکو علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کے اعتبار سے کرناٹک میں وہی مقام حاصل ہے جو ملک میںکسی زمانے میںلکھن¿وکو حاصل تھا۔ یہ شہر زمانہ¿ قدیم سے صوفیائے کرام اور اولیائے عظام کا مسکن رہا ہے۔جہاں ہمیشہ مذہبی، علمی و ادبی شخصیتیں پیدا ہوتی رہی ہیں۔جنہوں نے علمی و ادبی تاریخ کو مستحکم اور خوشگوار بنانے میں اہم رول ادا کیا ۔اکیسویں صدی کی ابتدائی دہائی میں جو نام اس شہر سے ریاستی و ملکی سطح پر ابھرے ان میں واجد اختر صدیقی کانام اہمیت کا حامل ہے۔ جو پوری آب و تاب کے ساتھ اپنی تخلیقی اپج ، شاعرانہ ذہانت، ناقدانہ اور دانشورانہ فکر و نظر کی بدولت معاصرین میں ایک ممتاز مقام حاصل کر چکا ہے۔حالانکہ ان کا مقام پیدائش ضلع گلبرگہ کے تعلقہ الند ہے جہاں پر حضرت علاو¿الدین لاڈلے مشائخ انصاری آرام فرماہیں۔جنہوں نے اس شہر میں علم و ادب کی شمع روشن کی تھی جو آج بھی فروزاںہے۔
ڈاکٹرواجدا خترصدیقی دراز قد اوربلند قامت پہلوان نماجسامت کے مالک ہیں۔ بھنورااور سنولا رنگ،گول اور چوڑا مسکراتاچہرہ ، گال پر ایک کالابڑا مسا ،تیز و طرار آنکھیں،بڑی پیشانی،گھنیرے بال اورکشادہ سینہ، کشادہ دل اور کشادہ ذہن ۔عمر تقریبا ً پچپن کے آس پاس لیکن بدن نہایت مضبوط ،متحرک و فعال اورہمہ وقت مصروف ۔ہمیشہ ہنس مکھ، علمی و ادبی کاموں میں سرگرم عمل ،بھاری بھرکم اور گرجدار آواز ،بات چیت میں سنجیدگی اور کبھی کبھی شوخی اور قہقہے بھی لگتے جاتے ہیںمگرخوش کلام اور خوش فہم اور خوش لباس ۔
کسی کی شخصیت کو جاننا اورپہچاننا مشکل ترین عمل ہے ۔کیونکہ بہت سے لوگ بظاہر کچھ ہوتے ہےں اور باطنی اعتبار سے بہت کچھ ہوتے ہےں ۔ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جوعام و خاص میں جیسے دکھائی دیتے ہیں ویسے ہی ہوتے ہیںیہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے دل مصفیٰ و مجلیٰ ہوتے ہیںاور ان کا ہر جگہ ایک ہی رنگ و روپ ہوتا ہے ڈاکٹرواجد اخترصدیقی کا شمار اسی گروہ کے لوگوں میں ہوتا ہے۔
ڈاکٹرواجدا خترصدیقی ایک ملنسار ، خوش گو ، خوش کلام ، ہمدرد ، مخلص اور ملنسار،غرور و تکبر سے مبریٰ انسان ہیں جو کینہ کپٹ سے اپنے قلب وسینے کو پاک رکھتے ہیں۔ صاف گوئی ان کا وصف خاص ہے ۔وہ اپنی علمی و ادبی سرگرمیوں کی بدولت اپنی ایک شناخت بنانے میں کامیاب ہیں اسی لےے وہ ہر گروہ اور ہر طبقہ و حلقہ ¿احباب میںبرابرمقبول ہیں ۔ان کی عادت اوران کے کاموں سے سب انہیں پسند کرتے ہیں۔
واجد اختر صدیقی ایک سیدھے سادے انسان ہیں لوگوں سے محبت کرنے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ دل شکنی اور دل آزاری سے انہیں سخت نفرت ہے، پیار کو پسند کرتے ہیں ، پیار بانٹنا چاہتے ہیں لوگوں کے کام آنے والی صفت سے بخوبی واقف ہیں ، مکرو فریب اور ریا سے دور تک ان کا واسطہ نہیں ہے۔
واجد اختر صدیقی میںچند چیزیں ایسی ہیں جو دیگر افراد سے منفرد اورممتاز بنا دیتی ہیںان میںسب سے اہم ” جذبہ¿ خدمت“ اور ”بے غرضی“ ہے ۔سچ ہے کہ اگر کسی میں یہ دوخوبیاں شامل ہوجائیں تو اس کے بڑا بننے میں دیر نہیں لگتی۔ حسن اتفاق سے یہ دونوں خوبیاںان میںبدرجہ¿ اتم پائی جاتی ہیں۔واجدا خترصدیقی پیشہ کے لحاظ سے ایک استاد ہیں لیکن دیگر اردو اساتذہ سے کچھ مختلف ہیں ۔مختلف ان معنوں میں کہ ہمارے کئی اساتذہ ” نوکری اور بیوی“ یعنی ملازمت اور اپنے گھر گرہستی کی حد تک سمٹ کر اپنی زندگیاں گزارنے پر آمادہ ہیںاور بعض تو ایسے بھی ہیں جو اپنے پیشے سے ناانصافی کرنے پر آمادہ ہیں۔ لیکن واجد صاحب نوکری بھی کرتے ہیں ،محنت و مشقت اور دیانتداری سے اپنی منصبی کاروائیاں انجام بھی دیتے ہیں ، شاگردوں کو بڑی محنت و محبت سے پڑھاکر ان کے دلوں میں جگہ بنائے ہوئے ان کے پسندیدہ استاد بھی ہیں اور اپنے ساتھیوں میںایک بہترین رفیق کاربھی ثابت ہوئے ہیں۔ اپنے ہم پیشہ اور ہم منصب ساتھیوں کی ہر وقت مدد بھی کرتے ہیں ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ، ان کے دکھ دردکا مداوا کرتے ہیں اور ان کے مسائل بھی حل کرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ آدمی کسی حال میں خوش نہیں رہتا اور نہ ہی وہ مطمئن ہوتا ہے ۔خصوصاً بعض احباب زندگی سے مطمئن ہوتے ہیں اور نہ ہی اپنے پیشہ سے ۔ کیونکہ اعلیٰ تعلیم اور قابل ہونے کے باوجود انہیں اپنی پسند کا پیشہ نصیب نہیں ہوتا اورکئی شعبوں میںنا اہل اور ناکارہ لوگ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں ۔یہ سب مقدر کی بات ہے اور مقدر میں جو لکھا ہوتا ہے وہی ہوتا ہے اس لےے مقدر سے سمجھوتا کرلینا پڑتا ہے اور جو سمجھوتہ کرلیتے ہیں وہی سکون اور مطمئن ہوتے ہیں اور پیشہ سے انصاف کرنے والے ہوتے ہیں ۔واجد اخترصدیقی ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود سرکاری ہائی اسکول میں مدرس کے پیشے سے وابستہ ہیں اور اپنا دل چھوٹا نہ کرتے ہوئے اپنے منصب کے ساتھ پورا پورا انصاف کرتے ہیں۔یہ وصف اور یہ ظرف بہت ہی کم لوگوں میں پایا جاتا ہے۔واجدا خترصدیقی نے اس پیشہ میں رہ کر وہ سارے کام انجام دئیے ہیں جو ایک یونیورسٹی یا کسی بڑے عہدہ پرفائز افراد انجام دینے سے قاصر ہیں۔واجدا خترصدیقی صرف پڑھانے کی حد تک اپنے آپ کو محدود نہیں رکھا بلکہ ایک اچھے فنکاربھی ثابت ہوئے ہیں ۔انہوں نے تعلیمی میدان میں قدم رکھا تو شعبہ¿ تعلیم کو غیر متوازن پایا اور وہ اس کا احتساب کرنے لگ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی کاوشوں سے گراں قدر تصنیف ” تعلیم: توازن و احتساب“ پیمنظر عام پر لانے میں کامیابی حاصل کی جوہماری ریاست میں تعلیمی میدان میں اس نوعیت کی پہلی اور کامیاب ترین کتاب ثابت ہوئی جس کی بدولت انہوں نے ایک ماہر مفکرتعلیم کی حیثیت سے علمی و ادبی حلقہ میں اپنی مفرد اور انوکھی شناخت بنالی۔
واجدا خترصدیقی اپنے پیشروو¿ں کے علمی و ادبی خزانے کے نہ صرف قدر دان ہیں بلکہ انہیں یکجا کرکے کتابی صورت میں شائع کروانے کے قائل ہیں۔اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے استاد ڈاکٹر وحید انجم کے ساتھ مل کر اپنے شہر گلبرگہ کے شعراءو ادبا ءپر مضامین لکھ کر ان کے ادبی اثاثہ کو یکجا کیا اور ایک بسیط کتاب”آفاق“کے نام سے مرتب کرکے شائع کی ۔اس کے علاوہ اپنے استاد پروفیسر حمید سہروردی پر لکھے گئے مضامین کو انہوں نے حال ہی میں ترتیب دیا ہے اور اسے کتابی صورت میں”نشاناتِ حمید سہروردی“ کے نام سے شائع کرواکے شاگردی کا حق ادا کردیا ۔جب ایک شاگرد اپنے اساتذہ کی اس قدر تعظیم و تکریم کرتا ہے تو اللہ رب العزت اسے بھی قدر و منزلت عطا کرتا ہے اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ واجدا خترصدیقی پران کے اساتذہ نے ان کی علمی و ادبی کاوشوں پر گراں قدر مضامین اور خاکے لکھ کر شائع کروائے ہیںاور اپنے معاصر قلمکاروں نے بھی ان کی شخصیت اور فن کا جائزہ لیاہے۔
واجدا خترصدیقی اپنے والدین کے مطیع و فرمانبردارفرزند ہیں۔ان کے والد پیشے سے ایک کامیاب استاد رہ چکے ہیں۔ابھی چند ماہ قبل ان کی مرتب کردہ کتاب”نشاناتِ حمید سہروردی حمید سہروردی:فرد اور فن“ اشاعت پذیر ہوئی اور اس کا اجراءشاندار پیمانے پر عمل میں آیا۔جس میں آسمان علم و ادب کے آفتاب و ماہتاب اور جگمگاتے ستاروں کے علاوہ بڑی بڑی سیاسی و سماجی شخصیات موجود تھیں لیکن واجدا خترصدیقی نے اپنی کتاب کی رونمائی اپنے والد بزرگوار کے دست مبارک سے انجام دلوائی۔والد کے لےے اس سے بڑھ کر اور کیا اعزازہوگا اور ایک اولاد کی وفاشعاری اور فرمانبرداری کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت گا ۔
واجد اختر صدیقی ایک معلم ، مرتب ، شاعر، تبصرہ نگار ، تنقید نگار ، ماہر تعلیم اور ایک اچھے منتظم بھی ہیں۔ان کے اندرتنظیمی صلاحیتیں کچھ زیادہ ہی پائی جاتی ہیں اسی لےے محکمہ¿ تعلیم کی اکثر ذمہ داریاں انہیں سونپی جاتی ہیں کیونکہ وہ اساتذہ کی انجمن کے صدر ہیں ۔ہرکام وہ نہایت خوش دلی کے ساتھ ہنستے کھیلتے انجام دیتے رہتے ہیںاور اس انجمن کے روح رواں بن گئے ہیں۔اسی طرح ادبی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور ادبی محفلوں میں اپنی بے لوث خدمات کی بدولت اپنی شناخت بنا لیتے ہیں۔ واجد اختر صدیقی ایک ایسے شخص کا نام ہے جوصوم و صلوٰة کے پابند ہے اورجس نے گروہ بندیوں ،پیشہ ورانہ رنجشوںاورادبی چشمکوں سے اپنے آپ کو دور رکھ کر سب میں یکساں مقبولیت حاصل کی ہے اور اپنے معاصرین میں ایک انفرادیت حاصل کی ہے۔
ماضی میںمعلمی کومقدس اور پیغمبرانہ پیشہ مانا جاتا تھا اور استاد کو قوم کامعمار ، سماج کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا تھا لیکن دورِ حاضر میں اس پیشہ کو گہن لگا چکا ہے اور اساتذاہ اپنی شاطرانہ چالوں سے اس مقدس پیشہ کو بدنام کرنے پر آمادہ ہیںاور اس شعبہ میں بھی سیاست گھس آئی ہے اور آپسی رسہ کشی عام ہو چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیم کمرشیل بن چکی ہے ۔درس گاہیں تعلیمی فیکٹریاں بن چکی ہیں ،جہاں ہزاروںلاکھوں کی تعداد میں سند یافتہ پیدا ہو رہے ہیں انہیں تعلیمی ڈگریاں تو مل رہی ہیں لیکن ہم انہیںتہذیبی اور انسانی اقدار سے محروم کرتے جارہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں بعض اساتذہ مل جاتے ہیں جو اس پیشہ کے تقدس کو پائمال ہونے نہیں دیتے بلکہ دیانتداری سے اس منصب کے فرائض کی ادائیگی میں جٹے ہوئے ہیں اور پورے خلوص کے ساتھ خدمات انجام دے رہے ہیںاور نئی نسل کو راہ راست پر لانے میں کوشاں ہیں۔واجد اختر صدیقی کا شمار ایسے ہی دیانتدار اور مخلص اساتذہ میں ہوتا ہے جو اپنے پیشہ ورانہ کارکردگیوں اور اپنی علمی و ادبی کاوشوں کی بدولت اپنے آپ کو قوم و ملک اور علم و ادب کے لےے وقف کرنے میں منہمک ہیں۔
واجد اختر صدیقی ایک دور اندیش ، معاملہ فہم اور صبر و تحمل کے پیکر ہیں ۔ہمیں امید ہے کہ پیشہ سے انصاف اورتعلیم و تعلم کے ساتھ ساتھ شعر و ادب سے وابستگی، اپنے ہم پیشہ احباب سے ہمدردی کی بدولت وہ علمی و ادبی دنیا کے افق پر درخشاں ستارے بن کر ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے۔