”من آنگن میں سر گوشی ”

0
0

جھیل کے کنارے پانی تیز لہروں اور ہوا کے تھپڑوں سے شور کر رہا تھا۔کان میرا ساتھ نہیں دے رہیے تھے اگر کچھ سن یا محسوس کر رہا تھا وہ بازوں میں لگی گھڑی کی آواز جو ٹک ٹک،ٹک ٹک! کر رہی تھی. لکڑی سے بنی سیڑھی جس پر مچھوارے گول ٹوپی پہنے ہاتھ میں بانس کی لمبی چھڑی لیے مچھلیاں پکڑ رہے ہیں ۔سر زانوں پے رکھے،نظریں پانی کی لہروں پے سوار اکیلے میں بھی ان ہی سیڑیوں پے تماشاہی بن کے بیٹھا تھا۔اس پرسکون جگہ کے چاروں اور بڑی دنیا بسی تھی،ہریالی اور خوشگوار موسم،بچے کھیل میں مصروف،بزرگ گفتگو میں محو،دسترخوان بچھے ہوے کشمیری وازوان کی خشبو چاروں طرف۔ میں تنہا? کی باہوں میں لپٹا،چنار کے زرد پتوں کے مانند خاموش سب کچھ دیکھا اندیکھا کر رہا تھا۔میری نظروں نے پانی کی گہرا? میری سونچ میں بسا دی جو گہرا? مجھے اپنی اور کنچے جارہی تھی۔نہ جانے وہ انگنت خیال میرا من کہاں سے اُٹھالاتا آتے ہی آغوش میں لے لیتے اور جاتے ہی تنہا کردیتے۔دور برف کی چادر پہنے ہویے پہاڑوں پے سورج اکڑ سے ایک سپاہی کی مانند کھڑا تھا جس کا عکس میری انکھوں میں بس گیا۔میں الجھنوں اور کشمکش کے سہلاب میں ڈوبتا جارہا تھا کہ اچانک میری نظر میرے با?یں اور پڑھی. ایک چاند سا چہرا میری آنکھوں کا عکس بنا!!!ایسا تو نہیں تھا اس سے زیادہ خوبصورت چہرہ میں نے کبھی دیکھا نہ تھا۔پر پتا نہیں کیوں اس چہرے سے میری نظر ہٹتی نہیں تھی۔اس کی آنکھیں نم تھی اور سانسیں مدہم۔خزاں کے زرد پتوں کی طرح نمی کی کمی اس کے ہونٹوں پے صاف نظر آرہی تھی۔زلفوں کی ایک لڑی اس کی دا?یں آنکھ کو پریشان کررہی تھی۔وہ اسے جڑکنے کی کوشش تو کررہی تھی پر ہوا تیز تھی جو اُسے کرنے نہ دے رہی تھی۔اس کی مدہوش نظریں کھیلتے ہو?ے پانی کی لہروں پے تھی۔ایک احساس کا لمہا مجھے چھو کے نکل جاتا ہے.ایسا لگتا ھے ان کی نم آنکھوں نے سارے درد کو نچھوڈ کر میرے سامنے رکھ دیا ہو۔معصوم چہرے پے صاف مایوسی نظر آرہی تھی۔شاید اس سے بھی میری طرح پانی کی گہرا?ی اپنی اور کنچے جارہی تھی۔انگنت سوالوں کے بوج لیے لکڑی کی سیڑیوں پے بیھٹی جواب تلاش کر رہی تھی۔ میں محسوس کر رہا تھا وہ ہر سوال کا جواب مجھسے طلب کرنی چاہتی ہے. میں بھی ان کے من کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا۔میرے ہونٹوں کو من کے آنگن کی اوداسی نے سوا? تھرتھراہٹ اور خاموشی کے کچھ نہ دیا۔
ہوا کی رفتار تیز جو ہوی زلفوں نے اس کے چہرے پے گھر کر لیا۔میرے دل میں خیال کی لہر اُٹھی کہ کاش ہوا کا ایک اور تیز جھونکا آتا پھول جیسے چہرے سے زلفوں کو ہٹا لے جاتااور چاند جیسے چہرے کا ایک بار پھر دیدار ہوتا۔افسوس!!!!ہواکے ان جھونکوں میں اتنی طاقت کہاں جو زلفوں کو زرا بر بھی ہلا سکیں!اب تو چاند بادلوں کی نظر ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔
وہ نہ جانے کن خیالات کے سمندر میں ڑوبی ہوی تھی لیکن میرے خیالات ان پے ہی تھے۔۔میں آہستہ آہستہ جھیل جیسی آنکھوں میں ڈوبتا چلا جارہا تھا۔میں منہ سے ایک لفظ نکالنے کی ہمت جھٹلا رہا تھا۔میرے ہونٹ میرا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔میری ہمت میرے جسم کو دلاسہ دے رہی تھی لاکھ کوشش ہزار جتن پھر بھی ناکامی ہاتھ آئی. میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا تھا میں اُسے جاننے کی کوشش کیوں کر رہا تھا۔ یہ بے چینی،اضطراب، یہ کشمکش سب ایک ساتھ عمڑ کر میرے پیچھے کیوں پڑی تھی۔ واللہ؟ اگر میرے پاس ایسے سوالوں کے جواب ہیں.
اچانک اس مجسمے نے حرکت کی ایسا لگا کسی نے اس میں روح پھونک دی ہو۔ اپنی نرم انگلیوں سے چہرے پہ زلفوں کو ہٹانے کی کوشش ہو رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے چاند بادلوں سے نکلا رہا ہوں۔میں اسی عالم میں تھا کی تیر جیسی نظریں مجھپے پڑھیں وہ ہلکی سی مسکراہٹ دل میں گھر کر گئی. میرے سارے جسم میں تھرتھراہٹ پیدا ہو گی ماتھے پے پسینے کی بوندیں پھوٹنے لگی۔ میں تھوڑا شرمانے لگا لیکن جلد ہی نظریں جھکا لی وہ بے شرموں کی طرح مجھے دیکھے جا رہا تھی۔شا?د وہ مجھسےبات کرنا چاہتی تھی۔
اچانک! اک آواز آئی!!ہم دونوں نے ایک ساتھ پیچھے مڑ کے دیکھا کوئی اسے بلا رہا تھا۔ اس نے ایک ادھوری نظر میری طرف کی اور ہارے ہوئے قدموں سے چلنے لگی چلتے چلتے کبھی میری طرف اور کبھی سامنے دیکھتی! اور دیکھتے ہی دیکھتے نظروں سے اوجھل ہو گئی! وہ ناکام سا لمحہ مجھے عمر بھر کا درد دے گیا۔ وہ تو پتہ نہیں کہاں چلے گئے لیکن میں آج بھی انہیں لکڑی سے بنی سیڑھیوں پے ان کا انتظار کر رہا ہو. سو سوال ہزار خواہشات لیے بس یہی سوچتا ہوں کیا وہ پھر سے آئیں گے۔…

زاہد ظفر
کیلر شوپیا

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا