غزل

0
0

حافظ کرناٹکی
کرناٹک۔9535646077

ظرف جےسا تھا وےسا دکھائی دےا
مجھ کو قطرے مےں درےا دکھائی دےا

جب بصےرت کی رکھّی گئی شرط تب
آنکھ والا بھی اندھا دکھائی دےا

کھا گئی دھوکا چشمِ عقےدت مری
اور شےطاں فرشتہ دکھائی دےا

انگلےاں اپنی اوروں کی جانب اٹھےں
عےب ہم کو نہ اپنا دکھائی دےا

بچّہ بچّہ عداوت بھرے عہد کا
باپ کے خوں کا پےاسا دکھائی دےا

تےرگی آئی جب گھر مےں افلاس کی
پاس کوئی نہ اپنا دکھائی دےا

جانے کےا بات ہے کہ ہر اک شہر مےں
ہر کوئی سہما سہما دکھائی دےا

دےکھ کر اُس کو کرتا ہوں مےں شاعری
آئےنہ جس سے جلتا دکھائی دےا

مےں نے کل رات کی چاند سے گفتگو
جب وہ چھت پر اکےلا دکھائی دےا

حافظم فکر کی راہ آساں نہ تھی
جو بھی آےا وہ چلتا دکھائی دےا

٭٭٭

 

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا